پرویز خٹک کا سیالکوٹ واقعے پر مؤقف پاکستان

پرویز خٹک کا سیالکوٹ واقعے پر مؤقف پاکستان

پرویز خٹک کا سیالکوٹ واقعے پر مؤقف پاکستان کی سیاسی جماعتیں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بےبس کیوں؟

’ہم پاگل ہوتے تھے جب ہم جوان ہوتے تھے، لڑکے ہوتے تھے، کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے تھے۔۔۔ یہ بچوں میں ہوتا ہے، لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، قتل بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت کی غلطی ہے۔‘

ابھی سیالکوٹ میں ہونے والے افسوسناک واقعے پر ہونے والی تحقیقات مکمل نہیں ہوئی تھیں کہ وفاقی کابینہ کے ایک رکن اس واقعے پر بظاہر اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے بہت آگے نکل گئے۔

اتوار کو پشاور میں منعقد ہونے والی ایک تقریب کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ اگر کچھ نوجوانوں نے اسلام کے نام پر جذبے میں آ کر قتل کر دیا ہے ’تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان تباہی کی طرف جا رہا ہے۔‘

ان سے پوچھا گیا: ’آپ نے ٹی ایل پی سے پابندی ہٹائی تو سیالکوٹ کا حادثہ واقعہ پیش آیا۔۔۔ کیا یہ زیر غور ہے کہ اس طرح کی تنظیم کے خلاف مؤثر کریک ڈاؤن اور کارروائی کی جائے ورنہ یہ سلسلہ تو چلتا رہے گا۔‘

اس کے جواب میں وزیر دفاع کہتے ہیں: ’دیکھیں، یہ جو آپ کہہ رہے ہیں ٹی ایل پی کا، وجوہات آپ کو بھی پتا ہیں۔ بچے ہیں، بڑے ہوتے ہیں، اسلامی دین ہے، سوچ زیادہ ہے، جوش میں آ جاتے ہیں جذبے میں کوئی کام کر لیتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کیا تو یہ ہو گیا۔‘

‘ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔ وہاں پر لڑکے اکھٹے ہوئے، انھوں نے اسلام کا نعرہ لگایا کہ اسلام کے خلاف کام ہے، جذبے میں آ گئے اور یہ کام ہو گیا اچانک۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب کچھ بگڑ گیا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے میڈیا کے نمائندوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ: ’پلیز آپ ذرا لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ نوجوان ہیں، جذبے میں آ گئے ذرا، دین میں، میں بھی جذبے میں آؤں گا، غلط کام کر سکتا ہوں لیکن اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ پاکستان تباہی کی طرف جا رہا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ’نو پولیس والوں کو مارا، ایک سری لنکن کو مارا، کیا پھر بھی جذبہ ہے یہ؟‘ تو پروز خٹک نے کہا: یہ ہوتا ہے۔ جب آپ جب سکول میں کالج میں تھے، یہ جذبہ تھا آپ میں؟ مجھے پتا ہے کہ ہم پاگل ہوتے تھے جب ہم جوان ہوتے تھے۔ سب کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے تھے لیکن بڑھتے جاتے زندگی میں جب ہم آگے پہنچے تو ہمیں یہ شعور ہوا کہ یہ جوش و جذبہ اس کو سنبھال کر رکھنا ہے۔ یہ بچوں کا ہوتا ہے، لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، قتل بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت کی غلطی ہے۔‘

سیالکوٹ واقعہ: کیا ریاست متصادم بیانیہ اختیار کیے ہوئے ہے؟

وزیر دفاع پرویز خٹک کے حکومتی بیانیے سے متضاد بیان پر ماہرین نے ریاست، حکومت، سیاسی جماعتوں اور مذہبی گروہوں کے بیانیے کو ہی بنیادی مسئلہ قرار دیا ہے۔

ان ماہرین نے ماضی میں پاکستان میں پیش آنے والے ایسے متعدد واقعات گنوائے جن میں مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل بھی شامل ہیں جہاں متعدد افراد کو مذہی بنیادوں پر قتل کر دیا گیا اور پُرتشدد ہجوم کی وکالت کرنے والی کوئی ایک سیاسی، مذہبی جماعت یا گروہ نہیں بلکہ یہ آوازیں ہر جماعت کے اندر سے بھی بلند ہوتی رہیں۔

واضح رہے کہ پرویز خٹک سے قبل جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جہاں ایک طرف سیالکوٹ میں پیش آئے اس واقعے کی مذمت کی وہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک توہین کرنے والوں کو عدالتیں سزائیں نہیں دیں گی تو پھر ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

ٹی ایل پی

‘اس وقت سب جماعتیں مذہب کارڈ استعمال کر رہی ہیں’

سیاسی اور سکیورٹی امور کے ماہر زاہد حسین کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مذہب کارڈ کا استعمال کر رہے ہیں۔ ‘ایک تو خوف کی فضا ہے جس میں اس طرح کے بیانات دیے جاتے ہیں۔’

ان کے مطابق ماضی میں جب گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ممتاز قادری نے قتل کر دیا تو اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یہ توہین کا معاملہ ہے اور اگر وہ بھی ہوتے تو یہی کرتے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ حیرانی تب ہوتی ہے کہ جب خود کو ترقی پسنس کہنے والی جماعتیں بھی یہی کارڈ اپنے سیاسی اور انتخابی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان کے مطابق جب مشال خان کو قتل کیا گیا تو اس واقعے کی حمایت میں عوامی نیشنل پارٹی جیسی ترقی پسند جماعت کے رہنماؤں نے بھی اس کے حق میں بیانات دیے۔

تجزیہ کار فرح ضیا کہتی ہیں کہ انھیں پرویز خٹک کا بیان سن کر کوئی حیرت نہیں ہوئی ‘ کیونکہ ہم اصل مسائل کو ماننے سے انکاری ہیں۔حل تو تب ممکن ہے جب مسئلے کو تسلیم کیا جائے۔’ فرح ضیا کے مطابق سیالکوٹ واقعے پر جس سنجیدگی کی ضرورت تھی وہ کہیں نظر نہیں آئی۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اب تک جتنے بھی مذمتی بیانات دیے گئے ہیں ان میں صرف اس ایک واقعے میں ملوث افراد کو سزا دینے کی بات کی گئی جبکہ اصل بات سزا نہیں بلکہ اس مسئلے کا تدارک کرنا ہے جس وجہ سے ایسے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔

‘ریاست کے بیانیے نے سیاسی جماعتوں کو بھی کمزور کر دیا’

فرح ضیا کے خیال میں اصل مسئلہ ریاست کے بیانیے کا ہے جس نے سیاسی جماعتوں کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں سیاسی جماعتیں بھی ریاست کی طرف دیکھتی ہیں اور پھر وہی بیانیہ اختیار کر لیتی ہیں جس سے یہ جماعتیں کمزور ہوئیں۔

فرح ضیا کے مطابق اگر ریاست نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر دنیا میں کوئی ہمارے ساتھ کاروبار تک نہیں کرے گا۔ ان کی رائے میں ریاست متصادم خطوط پر چل رہی ہے۔ ‘ایک طرف ہمارے پاس وزارت انسانی حقوق ہے جبکہ دوسری طرف وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے ہیں۔’

زاہد حسین کے مطابق سیاستدان تو بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ مگر وہ جو بیانات دیتے ہیں وہ معاشرے کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم یہ اور بات ہے کہ معاشرے میں کبھی شدت پسند جماعتیں انتخابی فتح حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

زاہد حسین کے مطابق اس واقعے میں ایک غیر ملکی شہری کو مارا گیا، جس وجہ سے یہ معاملہ سامنے آ گیا وگرنہ ملک کے اندر ہونے والے ایسے واقعات پر تو اتنا ردعمل بھی سامنے نہیں آتا۔ ان کے مطابق انھیں پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔

انھوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کے ایک رکن نے وزیر بن کر ممتاز قادری کے مزار پر حاضری دی۔ اب پرویز خٹک بھی ٹی ایل پی سے متاثر نظر آتے ہیں، جس طرح پنجاب میں تحریک انساف رہنما اعجاز چوہدری نے رہا ہونے والے ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو گلدستہ پیش کیا۔

ماہر قانون شہاب خان خٹک کی رائے میں سنہ 1971 سے ریاست پاکستان کی یہ سوچ ابھری ہے کہ اگر باقی بچ جانے والے ملک کو کوئی چیز متحد رکھ سکتی ہے تو وہ مذہب ہے وگرنہ یہاں تو کوئی سندھی ہے، کوئی پنجابی ہے اور کوئی پشتون تو کوئی بلوچ۔

ان کے مطابق ریاست اس بیانیے کی وقتاً فوقتاً ترویج بھی کرتی رہی ہے مگر نتائج پھر بھی زیادہ بھیانک نکلے ہیں۔ شہاب خٹک کے مطابق اگر مذہب متحد رکھ سکتا تو ترقی یافتہ ممالک مذہبی بیانیے کو چھوڑ کر کبھی اتنے متحد نہ رہ سکتے اور نہ وہاں ترقی کا ہی خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا۔

سوشل میڈیا پر ردعمل: ’یہ جہالت نہیں تو اور کیا ہے؟‘

پاکستان کے وزیر دفاع کی جانب سے اس طرح کا بیان کئی لوگوں کے لیے باعث حیرت تھا اور گذشتہ روز سے یہ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔

زیادہ تر لوگ ان کے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے نظر آئے اور کئی لوگوں نے ان کی عہدے سے برطرفی کا بھی مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں ایک جانب ایف اے ٹی ایف اور جی ایس پی پلس تک رسائی جیسے معاملات میں پاکستان کو انتہا پسندی کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے وہاں کابینہ کے اراکین کی جانب سے اس طرح کے خیالات کا اظہار ملک کے لیے مزید مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے دو دن قبل اس واقعے کو ‘گھناؤنا قتل‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملزمان کے ساتھ ’نہایت سختی سے نمٹا جائے گا۔’ اس کے علاوہ سیاسی اور سماجی رہنماؤں سمیت پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’انتہائی شرمناک‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے ماورائے عدالت اقدام ناقابل قبول ہیں۔

بی بی سی نے متعدد بار پرویز خٹک سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم وہ دستیاب نہیں تھے۔

ایک جانب حکومتی اور معاشرتی ردعمل اور ایک جانب پرویز خٹک کی توجیہ، کئی لوگوں کو دونوں بیانات میں تضاد نظر آیا۔

صحافی اجمل جامی نے اپنے ٹویٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات کو مشورہ دیا کہ وہ جس طرح دیگر رہنماؤں کی خبر لیتے ہیں بالکل اسی طرح وہ پرویز خٹک کے بیان کو بھی بے ہودہ قرار دیں۔

ٹویٹ

واضح رہے کہ اس سے قبل فواد چوہدری نے اپنی جماعت کے ایک رہنما اور سینیٹر اعجاز چوہدری کی تحریک لبیک کے سعد رضوی سے ملاقات کو بے ہودہ حرکت قرار دیا تھا۔

سمرینا ہاشمی نامی صارف نے پرویز خٹک کی خوب خبر لیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے کہا ہے کہ ’جب تک اس قسم کے ’اپولوجسٹس‘ آپ کی پارٹی میں ہوں گے، آپ پاکستان سے شدت پسندی نہیں ختم کرسکتے۔‘

ٹویٹ

گلوکار جواد احمد نے ٹوئٹر پر لکھا کہ پرویز خٹک کے بیان کو سنیں اور فیصلہ کریں کہ لاعلمی اور کیا ہوتی ہے؟ یہ ہمارے بغیر احساس والے امیر حکمران ہیں۔ یہ جس دنیا میں رہتے ہیں وہ اس سے مختلف ہے جہاں پاکستان کے عام شہری رہتے ہیں۔

ٹویٹ

سوشل میڈیا صارفین اور سیاسی کارکنان وزیر اعظم عمران خان سے اپنے وزیر دفاع کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے بھی نظر آ رہے ہیں۔

ٹویٹ

صوبہ خیبر پختونخوا کے عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’اگر پرویز خٹک کو فی الفور کابینہ سے برخواست نہیں کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ سب جھوٹ ہے جو وزیر اعظم سانحہ سیالکوٹ پر کہتے رہے، جو سری لنکا کے صدر اور وزیر خارجہ سے کہا گیا‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز خٹک کا بیان ناگوار، شرم ناک اور پستی کی نئی گہرائی ہے۔

ٹویٹ

مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی کھیل داس کوہستانی نے اسے وزیر دفاع پرویز خٹک کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان قرار دیا ہے اور انھیں مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کے تشخص کو مزید خراب نہ کریں۔

ٹویٹ

عبدالباسط نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’حکومت گرانے کے لیے پرویز خٹک خود ہی کافی ہے‘۔

تاہم ایسا نہیں کہ پرویز خٹک کو اپنے بیان پر آنے والے ردعمل کا علم نہیں اور اتوار کو رات گئے کیے گئے ایک ٹویٹ میں انھوں نے قدرے مختلف جذبات کا اظہار کیا اور واقعے کی کڑے الفاظ میں مذمت کی۔

ٹویٹ

تاہم صارفین انھیں معاف کرنے پر آمادہ نظر نہیں آئے: ایک نے تو لکھا کہ ’تین دن گزر گئے اور آپ کو اب مذمت یاد آئی ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *