پاکستان میں گندم، چینی اور کپاس کی بیک وقت

پاکستان میں گندم، چینی اور کپاس کی بیک وقت

پاکستان میں گندم، چینی اور کپاس کی بیک وقت درآمد کی وجوہات کیا ہیں؟

’مظفر گڑھ اور گردو و نواح میں دو تین شوگر ملز کے لگنے کی وجہ سے اب گنے کی فصل بھی کاشت کرنا پڑتی ہے۔‘ یہ کہنا ہے پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں کوٹ ادو میں زراعت کے شعبے سے وابستہ خاتون زمیندار رابعہ گورمانی کا جو اپنے شعبے میں بڑھتی ہوئی مشکلات کا شکار ہیں۔

ان کے مطابق زراعت کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے ان کا شعبہ کاروبار کے لیے کشش کھو رہا ہے۔

رابعہ گورمانی کوٹ ادو کے علاقے میں زمینداری کرتی ہیں جس کا شمار پاکستان میں کپاس کی پیداوار کے اہم علاقوں میں ہوتا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی زمین پر وسیع پیمانے پر گنے کی کاشت کے ساتھ صرف کچھ ہی حصے پر کپاس کی فصل لگاتی ہیں اور ربیع کے سیزن میں گندم کی کاشت بھی کرتی ہیں۔

رابعہ گورمانی کی طرح پاکستان کے کروڑوں افراد زرعی شعبے سے وابستہ ہیں اور اسی سے اپنا روزگار کماتے ہیں۔ یہ شعبہ پاکستان کی معیشت میں دوسرا بڑا شعبہ ہے جو جی ڈی پی میں 21 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور ملک کی لیبر فورس کے 45 فیصد حصے کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔

پاکستان میں صنعت کے نمایاں شعبے یعنی ٹیکسٹائل، شوگر ملز اور کھانے پینے کی چیزیں بنانے والے بھی اپنے خام مال کے لیے اس شعبے پر انحصار کرتے ہیں تاہم زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اس وقت اپنی ضروریات کے لیے کپاس، چینی اور گندم بیرون ملک سے درآمد کر رہا ہے۔

رابعہ گورمانی
رابعہ گورمانی کوٹ ادو کے علاقے میں زمینداری کرتی ہیں جس کا شمار پاکستان میں کپاس کی پیداوار کے اہم علاقوں میں ہوتا تھا

پاکستان میں کیش کراپس (نقد آور فصلیں) یعنی گندم، کپاس، چاول اور گنے (چینی) میں سے صرف چاول کے علاوہ باقی تینوں چیزیں درآمد کی جا رہی ہیں۔

زراعت، اجناس اور ملک کے بڑے انتظامی عہدوں پر کام کرنے والے افراد کے مطابق ماضی میں پاکستان کبھی گندم، کبھی کپاس اور کبھی چینی تو درآمد کرتا رہا ہے تاہم بیک وقت گندم، چینی اور کپاس کی درآمد ملک کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے۔

زرعی شعبہ کن مشکلات کا شکار؟

پاکستان میں گزشتہ پانچ دہائیوں میں زرعی شعبے کی کارکردگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ فنانس ڈویژن کے مطابق ساٹھ کی دہائی میں اس شعبے کی گروتھ 5.1 فیصد تھی، ستر کی دہائی میں 2.4 فیصد، اسی کی دہائی میں 5.4 فیصد، نوے کی دہائی میں 4.4 فیصد اور موجودہ صدی کی دہائی میں 3.2 فیصد رہی ہے۔

رابعہ گورمانی نے بتایا کہ ان کے شعبے میں اس وقت اخراجات بے انتہا بڑھ چکے ہیں جو اس شعبے کی پیداوار کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کھاد، بجلی اور دوسری ان پٹ کاسٹ نے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

اجناس کے شعبے کے ماہر شمس الاسلام نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان میں زرعی شعبے کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ اچانک سے ظاہر نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ گزشتہ کئی برسوں کا تسلسل ہے جس کی وجہ سے آج یہ شعبہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم، چینی اور کپاس کی درآمد کے لیے مجبور ہے۔

انھوں نے کہا ’اگر گندم کے شعبے کو ہی لے لیا جائے تو اس فصل کے لیے استعمال ہونے والے بیچ معیاری نہیں۔ اس لیے ہم اس کی پیداوار میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں دیکھ رہے۔‘

’ہر بیج کی ایک معیاد ہوتی ہے جو گزرنے کے بعد یہ ڈی جنریشن کا شکار ہو جاتا ہے تاہم پاکستان میں اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ گندم کے بیچ پر کوئی قابل ذکر تحقیق نہیں ہوئی کہ اس کی فی ایکٹر پیداوار میں کوئی نمایاں اضافہ دیکھا جائے۔‘

گندم

شمس الاسلام نے بتایا کہ اسی طرح موسمیاتی تبدیلی نے بھی زرعی شعبے کو شدید متاثر کیا۔ ’موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشیں ایک ایسے وقت میں ہوتی ہیں کہ جب فصل پک چکی ہوتی ہے۔‘

شمس الاسلام نے کہا کہ کپاس کی فصل گنے کی کاشت کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔

’پاکستان کے کاٹن زون میں اب کپاس سے زیادہ گنے کی کاشت ہو رہی ہے اور زمیندار اور کاشتکار بھی کپاس کی فصل کے لیے درکار زیادہ مشقت کی وجہ سے گنے کی فصل کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس بارے میں کہا کہ پچھلے بیس برسوں میں اس شعبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور آج حالت یہاں تک آن پہنچی کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم، کپاس اور چینی درآمد کر رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جب وہ وزیر خزانہ تھے تو انھوں نے دو اقدامات اٹھائے تھے:’ ایک تو کسان کو پہلے سے سات سے آٹھ فصلوں کی قیمت کا پتا ہوتا تاکہ اسے ان فصلوں کی کاشت کی جانب راغب کیا جاسکے۔ دوسرا کھاد پر سبسڈی دی گئی تاکہ ان کے اخراجات کم ہو سکیں۔‘

تاہم انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آنے والی حکومتوں نے سات سے آٹھ فصلوں کی بجائے سپورٹ پرائس کو صرف گندم اور گنے تک محدود کر دیا تو اس کے ساتھ کھاد پر سبسڈی کو بھی ختم کر دیا۔

کپاس
پاکستان میں صنعت کے نمایاں شعبے یعنی ٹیکسٹائل، شوگر ملز اور کھانے پینے کی چیزیں بنانے والے بھی اپنے خام مال کے لیے زراعت کے شعبے پر انحصار کرتے ہیں

کیا گندم، چینی اور کپاس کی بیک وقت درآمد پہلی مرتبہ ہو رہی ہے؟

پاکستان ماضی میں کبھی گندم، کبھی کپاس اور کبھی چینی درآمد کرتا رہا ہے لیکن موجودہ دور میں یہ تینوں اجناس اکٹھی درآمد ہو رہی ہیں۔

اس سلسلے میں شمس الاسلام نے کہا ’ماضی میں ہم نے دیکھا کہ گندم، چینی اور کپاس وقتاً فوقتاً درآمد کی جاتی رہی ہیں لیکن ان تینوں کا بیک وقت درآمد ہونا ایک انوکھی پیشرفت ہے۔‘

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گندم، چینی اور کپاس کی ایک ہی وقت کی درآمد پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے۔

انھوں نے کہا ’گندم بیس سال پہلے درآمد کی گئی تھی اور جب پاکستان اس کی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا تو یہ سلسلہ روک دیا گیا اور مقامی پیداوار ضرورت کے لیے کافی رہی تاہم اب گندم کی درآمد کرنی پڑ گئی تاکہ مقامی طور پر ضرورت کو پورا کرنے کے علاوہ قیمتوں کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔‘

انھوں نے کہا ’کپاس کی درآمد تو ہوتی چلی آرہی ہے کیونکہ ملک کے برآمدی شعبے میں ٹیکسٹائل صنعت کی ضرورت مقامی پیداوار پورا کرنے سے قاصر رہی ہے۔‘

تاہم انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پندرہ سال قبل پاکستان نے ایک کروڑ چالیس لاکھ کاٹن بیلز پیدا کی تھیں جو اس وقت انڈیا کی پیداوار سے بھی زیادہ تھی تاہم اس کے بعد اس کی پیداوار میں مسلسل تنزلی دیکھنے میں آئی اور آج حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستان بمشکل 70 لاکھ کاٹن بیلز کی پیداوار حاصل کرنے کے قابل ہوا ہے۔

چینیی کی درآمد پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر پاشا نے کہا ’سب جانتے ہیں کہ شوگر فیکٹریوں کے مالک کون ہیں۔ جب ملک میں اس کی قلت پیدا کی گئی تو اس پر قابو پانے کے لیے چینی درآمد کی گئی۔‘

گنا
پاکستان میں کیش کراپس (نقد آور فصلیں) گندم، کپاس، چاول اور گنے (چینی) میں سے صرف چاول کے علاوہ باقی تینوں چیزیں درآمد کی جا رہی ہیں

سابقہ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان زرعی شعبے کا نیٹ ایکسپورٹر تھا یعنی درآمد سے زیادہ برآمد کیا کرتا تھا لیکن ملک آج اس شعبے میں مجموعی طور پر خسارے کا شکار ہے اور ہمیں ساڑھے تین ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔

شمس الاسلام نے اس سلسلے میں بتایا کہ موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں ملک نے مجموعی طور پر ساڑھے چھ ارب ڈالر کی غذائی اشیا درآمد کی ہیں جب کہ گزشتہ برس ان آٹھ مہینوں میں ان کی درآمدات ساڑھے چار ارب ڈالر تھیں۔

زرعی شعبے میں مشکلات کی کیا وجوہات ہیں؟

زرعی شعبے کی مشکلات کی وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے رابعہ گورمانی نے کہا کہ پالیسی لیول پر حکومتوں نے اس شعبے کو مسلسل نظر انداز کیا اور پندرہ بیس برسوں میں سوائے عارضی پالیسیوں کہ کوئی پائیدار پالیسی نہیں لائی گئی کہ جس کی بنیاد پر اس شعبے کی کارکردگی میں کوئی نمایاں اضافہ ہو سکے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بتایا ’اگر دو تین برسوں کے اعداد و شمار کو لیا جائے تو زرعی شعبے کی قمیتوں میں چھ فیصد اضافہ ہوا تاہم ان پٹ کاسٹ میں 35 فیصد سے زیادہ ہوا جس کی وجہ سے منافع میں بہت زیادہ کمی آئی۔‘

انھوں نے کہا ’زرعی شعبے میں سب سے اہم فرٹیلائزر کی قیمتوں کو ہی لیا جائے تو پاکستان کے مقابلے میں یہ انڈیا میں چالیس فیصد کم ہیں کیونکہ وہاں حکومت اس پر سالانہ پندرہ ارب ڈالر کی سبسڈی فراہم کرتی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں اس پر پندرہ فیصد ٹیکس لگاتا ہے۔‘

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک چینی درآمد کرے اور کپاس برآمد کرے لیکن اس کے برعکس ہوا۔ شوگر ملز مالکان نے پہلے چینی کی درآمد پر 50 فیصد ٹیکس لگوایا تاکہ باہر سے چینی درآمد نہ کی جا سکے اور وہ مقامی مارکیٹ میں اپنی چینی اپنی مرضی کے نرخوں پر بیچیں تاہم جب حکومت نے دیکھا کہ اس کی قلت ہو چکی ہے تو پھر اسے چینی درآمد کرنا پڑی۔‘

شمس الاسلام نے اس سلسلے میں کہا کہ گندم کی قلت کی سب سے بڑی وجہ اس کا افغانستان سمگل ہو جانا ہے۔ انھوں نے کہا ’اسی طرح ہم گندم کی پیداوار پر کافی برسوں سے 26 سے 27 ملین ٹن کے درمیان موجود ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے زرعی شعبے میں کام کرنے والی لیبر فورس میں بھی ایک فرق ہے۔

’انڈیا کا کاشتکار جدید طریقوں پر اپنے کام کو استوار کر رہا ہے لیکن پاکستان کا کسان ابھی تک روایتی طریقے پر کاربند ہے جو اس کی پیداوار میں اضافہ نہیں کر رہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *