پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام اب

پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام اب

پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں

’اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ دو وقت کا کھانا کھا سکیں۔ کیا کریں، مجبوری ہے۔ دل تو کرتا ہے کہ دو وقت کا پکائیں یا ایک بار ہی اتنا پکا لیں کہ دو وقت کھا لیں لیکن اب جیب اجازت نہیں دیتی۔‘

یہ کراچی کے علاقے داؤد گوٹھ کی رہائشی رضیہ ہیں جو گھروں میں صفائی اور برتن مانجھنے کا کام کرتی ہیں۔ 50 سالہ رضیہ ماہانہ 10 سے 12 ہزار روپے کما لیتی ہیں۔ ان کے چھ بچے ہیں جن میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ پانچ سال پہلے ان کے شوہر کی وفات ہو گئی تھی۔

بی بی سی نے جب رضیہ سے گزر اوقات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ’گزر اوقات کیا ہونی ہے، اب تو نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔‘

رضیہ نے بتایا کہ جن گھروں میں وہ کام کرتی ہیں وہاں سے کبھی کبھار بچا کھچا کھانا بھی مل جاتا ہے لیکن ’ہر روز ایسا نہیں ہوتا۔‘

رضیہ نے بتایا کہ چھ بچوں کے ساتھ ان کی کمائی میں اب ان کے پاس صرف ایک وقت کے ہی کھانے کی گنجائش نکلتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’دودھ اب اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ صبح کی دودھ والی چائے چھوڑ دی ہے‘ اور اب وہ سلیمانی چائے (سبز چائے) بنا کر بچوں کو پلاتی ہیں۔

کھانے پینے کے اخراجات کے علاوہ بجلی کے بل کی ادائیگی ان کی سب سے بڑی پریشانی ہے۔ ’میرا بل 2500 روپے آیا ہے۔ دس بارہ ہزار روپے میں سے 2500 تو بجلی کے بل میں ہی نکل جائیں گے تو باقی پیسوں سے چھ بچوں سمیت اپنا پیٹ پورے مہینے پالنا ہے۔‘

رضیہ اکیلی نہیں ہیں۔ ان سے زیادہ کمانے والے بھی کچھ ایسی ہی مشکل میں نظر آتے ہیں۔

راحیل بٹ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ملازم پیشہ شخص ہیں جن کی اہلیہ بھی ملازمت کرتی ہیں۔ راحیل بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بہت پریشان ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے وہ گاڑی پر کام کے لیے جاتے تھے۔ پیٹرول کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کے بعد اب وہ موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں اور دفتر کی جانب سے رعایت کی وجہ سے ہفتے میں ایک دو دن گھر سے کام کر لیتے ہیں۔

راحیل کہتے ہیں کہ ’مہنگائی کی وجہ سے گھر والوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنا ممکن نہیں رہا۔ بیوی اور دو بچوں کے ساتھ مہینے میں ایک بار آؤٹنگ اور باہر ڈنر کر لیتے تھے لیکن اب دو تین مہینوں سے یہ سلسلہ رک گیا ہے۔ گھریلو اخراجات اور گھر کا کرایہ بڑی مشکل سے پورا کرتے ہیں۔‘

ندیم میمن کراچی میں کاروبار کرتے ہیں اور ایک فیکٹری کے مالک ہیں۔ وہ بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔

تاہم ان کا مسئلہ یہ ہے کہ کاروبار متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی آمدن متاثر ہو رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’بجلی کے بلوں کے ساتھ بینکوں کی جانب سے مارک اپ میں اضافے اور دوسرے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو لیبر نے بھی زیادہ تنخواہ مانگنا شروع کر دی ہے۔‘

یہ سارے عوامل ان کی کاروباری لاگت بڑھا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب مارکیٹ کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں تو ’زیادہ لاگت کے ساتھ چیزوں کو کیسے بیچا جائے گا۔‘

رضیہ، راحیل بٹ اور ندیم میمن پاکستان میں غریب، متوسط اور امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے تین افراد ہیں جو ملک میں مہنگائی کی لہر سے یکساں پریشان نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہوا؟

مہنگائی

پاکستان میں مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہوا ہے اس کی جانب خود حکومتی اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں مہنگائی کی شرح 21 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی جو ماہرین کے مطابق ابھی مزید بڑھے گی۔

اس اضافے کی وجہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی شامل ہے جس کا منفی اثر آنے والے دنوں میں شدت سے محسوس ہو گا کیونکہ پاکستان توانائی اور غذائی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے جو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے مزید مہنگی ہوں گی۔

مہنگائی سے متاثرہ لوگوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں بھی مہنگائی نے انھیں پریشان کیا لیکن گذشتہ دو تین مہینوں سے مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

عوام کے خیال میں مہنگائی کے لی قصور وار کون ہے؟

رضیہ کے مطابق دو تین مہینے پہلے تک انھیں کم از کم دو وقت کا کھانا نصیب ہو رہا تھا لیکن اب دو وقت کا کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ان کے نزدیک موجودہ حکومت ہی اس مہنگائی کی ذمہ دار ہے۔

راحیل بٹ کے بھی کچھ ایسے ہی تاثرات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف کی حکومت میں بھی مہنگائی تھی تاہم موجودہ حکومت نے تو مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔‘

ندیم میمن بھی موجودہ حکومت سے ناخوش ہیں۔ ان کے مطابق بجلی، گیس اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ان کی کاروباری لاگت بہت بڑھ گئی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ مہنگائی کی ایک وجہ وہ عالمی حالات ہیں جن میں دنیا بھر میں تیل، گیس اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

انھوں نے کہا کہ ’موجودہ حکومت بھی قصور وار ہے تاہم گذشتہ تحریک انصاف کی حکومت کا تھوڑا سا قصور زیادہ ہے کیونکہ جب دنیا میں قیمتیں نہیں بڑھ رہی تھیں تو اس وقت بھی پاکستان میں گذشتہ حکومت کے دور میں قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔‘

ماہر معیشت عمار خان نے مہنگائی کا قصور وار عالمی حالات کو ٹھہرایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب دنیا میں تیل و گیس اور دوسری اجناس کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں تو پاکستان میں بھی اس کا اثر آنا تھا۔‘

مہنگائی بڑھنے کی رفتار کیا رہی؟

قیمتیں
ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ لوگوں کی آمدن میں اضافے سے دوگنی قیمتیں بڑھیں

پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے عام فرد جس پریشانی کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں میں ہونے والا اضافہ شامل ہے۔

تحریک انصاف حکومت کے پہلے مالی سال کے اختتام یعنی جون 2019 میں مہنگائی کی مجموعی شرح 8 فیصد تھی جب کہ غذائی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ 8.1 فیصد تھا۔

اس سے اگلے سال یعنی جون 2020 کے اختتام پر مہنگائی کی مجموعی شرح 8.6 فیصد اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ 14.6 فیصد تھا۔

جون 2021 کے اختتام پر مجموعی مہنگائی کی شرح 9.7 فیصد تھی تاہم غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ 10.5 فیصد تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کی اپریل کے شروع میں ختم ہونے والی حکومت سے پہلے مہنگائی کی شرح کے اعداد و شمار کو دیکھ جائے تو گزشتہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں یعنی جولائی سے مارچ تک کے عرصے میں مہنگائی کی شرح 10.77 فیصد پر بند ہوئی تھی اور صرف مارچ کے مہینے میں یہ 13 فیصد پر بند ہوئی۔

اس سے گذشتہ سال کے انہی مہینوں میں غذائی اشیا کی قیمتوں کے اعداد و شمار کے مطابق خوردنی تیل کی قیمت 48 فیصد اضافہ ہوا تھا، سبزیوں کی قیمت میں 35 فیصد، دالوں کی قیمت میں اوسطاً 38 فیصد، چکن کی قیمت میں تقریباً 20 فیصد اور گوشت کی قیمت میں 23 فیصد دیکھا گیا۔ دوسری جانب تیل مصنوعات کی قیمتوں میں 37 فیصد دیکھا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی سربراہی میں قائم کردہ مخلوط حکومت کے پہلے مہینے یعنی اپریل میں مہنگائی کی شرح 13.37 فیصد ریکارڈ کی گئی جو مئی کے مہینے میں 13.76 فیصد تک بڑھ گئی جب کہ جون کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 21.32 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔

خوارک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پیاز کی قیمت 124 فیصد بڑھی، خوردنی تیل کی قیمت میں 70 فیصد اضافہ ہوا، چکن کی قیمت میں 47 فیصد، گندم کی قیمت میں 31 فیصد اور دودھ کی قیمت میں 21 فیصد اضافہ ہوا۔

دوسری جانب تیل مصنوعات کی قیمتوں میں 96 فیصد اور بجلی کی قیمت میں 34 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں بتایا کہ مالی سال کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 21 فیصد سے زائد بن رہی ہے اور اگر پاکستان کی تاریخ میں دیکھا جائے تو ایسی بلند شرح 2008 اور 1974 میں ریکارڈ کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال اور موجودہ حکومت کے تقریباً چار مہینوں کو ملا کر چار سال میں مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا جب کہ اس عرصے کے دوران پلمبرز، مستری، مزدور، الیکٹریشن، ٹیکنیشن، میکنک وغیرہ کی آمدن میں 24 سے 27 فیصد اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی آمدن میں اضافے سے دوگنی قیمتیں بڑھیں۔‘

مہنگائی میں اضافے کی وجوہات مقامی یا بین الاقوامی؟

مہنگائی

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے پاکستان میں مہنگائی کی وجہ بین الاقوامی حالات کو قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تیل اور دوسری اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان اپنی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ خام تیل 130 ڈالر فی بیرل کی بلند سطح پر پہنچ گیا۔ اسی طرح پام آئل، ادوایات اور کھانے پینے کی چیزوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا۔ ’اب ایسی صورت میں اس کا اثر پاکستان میں قیمتوں پر بھی آنا تھا جو آیا اور اس کی وجہ سے عام افراد مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ پاکستان میں گورننس کی کمزوریوں نے بھی قیمتوں میں اضافہ کیا کیونکہ ’پرائس کنٹرول کا نظام زمین بوس ہو چکا ہے اور مقامی سطح پر کوئی پرائس کنٹرول کا نظام نہیں کہ جو ناجائز منافع خوری کی روک تھام کر سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ گزشتہ چار پانچ حکومتوں میں قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کا نظام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ’اس سے پہلے کسی حد تک مقامی سطح پر قیمتوں پر نظر رکھی جاتی تھی۔‘

عمار خان نے بین الاقوامی قیمتوں کے علاوہ مقامی سطح پر روپے کی قدر میں کمی کو بھی مہنگائی کی بڑی وجہ قرار دیا جس کی وجہ سے تیل مصنوعات اور دوسری چیزوں کی پاکستان میں درآمدات مہنگی ہو گئیں اور سارا بوجھ مقامی صارفین کو سہنا پڑا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *