پاکستان میں مشتعل ہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟

پاکستان میں مشتعل ہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟

پاکستان میں مشتعل ہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟

(اس تحریر کا مواد بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔)

’میں ان کی لاشوں کو غسل دے رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا پلاسٹک کے تھیلے میں روئی کے گالے بھر دیئے ہوں۔ انھیں ہاتھ لگاتے ہوئے مجھ پر کپکپی طاری تھی۔ یہی ڈر تھا کہ کہیں میرے چھونے سے ان کا رہا سہا جسم پھٹ نہ جائے۔‘

مغیر کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور یہ سب انھیں ایسے یاد ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو۔

سیالکوٹ کی یہ تنگ، بل کھاتی گلیاں مصروف ڈسکہ روڈ پر کھلتی ہیں۔ یہاں ریسکیو 1122 کی عمارت اسی حالت میں موجود ہے، جیسی گیارہ سال پہلے تھی۔ عمارت کے پہلو میں پانی کی ٹینکی ہے۔ اس کے ستونوں پر سڑک کی جانب ایک پرانا پائپ نصب ہے، جس سے آج بھی پانی کے ٹینکر بھرے جاتے ہیں۔

یہ اگست 2010 کا واقعہ ہے۔ مغیر کے چچا زاد بھائیوں، 18 برس کے حافظ مغیث اور 15 برس کے منیب پر اہلِ علاقہ نے ڈاکہ زنی اور قتل کا جھوٹا الزام لگایا اور انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔

سینکڑوں افراد کے مجمعے میں پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔

ان محافظوں کے بیچ انھیں رسیوں سے باندھا گیا، ڈنڈوں سے اس قدر مارا گیا کہ ان کے جسم کی کوئی ہڈی سلامت نہ رہی۔ وہ ریسکیو اہلکاروں سے مدد مانگتے رہ گئے۔

پھر ان کی لاشیں ریسکیو کی عمارت کے ساتھ پانی کی ٹینکی پر لگے پائپ سے لٹکا دی گئیں۔ لاشے لٹکانے والے آج آزاد ہیں۔

مغیر نے بتایا کہ ’میں اپنے دوست کی دکان پر بیٹھا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا۔ مجھے لگا میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ اس شخص کو دیکھتے ہی ان کا دماغ ماؤف ہو گیا۔`

’اُس نے مجھ سے کچھ پوچھا اور پھر وہ بھی خاموش ہو گیا۔ ہم دونوں کچھ لمحے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا۔ کچھ دیر بعد مجھے یاد آیا کہ یہ ان میں سے ایک تھا، جنھوں نے مغیث اور منیب کو مار ڈالا۔ وہ سب یہیں، ہم میں ہی موجود ہیں۔ جانے قیامت کتنی دُور ٹھہری ہے مگر ہم نے اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے۔‘

سیالکوٹ
مغیث اور منیب کی لاشیں ریسکیو کی عمارت کے ساتھ پانی کی ٹینکی پر لگے پائپ سے لٹکا دی گئیں

دو سگے بھائیوں کی جان گئی اور یہ خاندان جیتے جی مر گیا

پاکستان میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سزا اور جزا کا فیصلہ یہ ہجوم اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور نہتے شہری، جو عام طور پر معصوم ہوتے ہیں، ایسے ہجوم کے جبر کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 1994 سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل جبکہ درجنوں واقعات میں املاک اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔

ان حملوں سے پہلے عام طور پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ یہی الزام لگے لیکن جن کیسز کی آج تک کچھ تحقیق یا کاروائی سامنے آئی ان سے یہ ضرور طے ہوا کہ یہ الزام عام طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد ذاتی رنجش بنتی ہے۔

بی بی سی نے پرتشدد ہجوم میں ہلاک ہونے والے بعض افراد کے اہلخانہ، ہجوم کے حملوں میں بچ جانے والے متاثرین کے علاوہ ان افراد سے بھی بات کی جو ان حملوں میں ملوث ہیں اور پولیس کی حراست میں ہیں۔

ان میں سے بیشتر افراد کے نام اور مقامات تبدیل کیے گئے ہیں۔

’آج پچھتاوا ہے کہ جب دیکھا نہیں تو مارا کیوں؟‘

یہ ایک پولیس سٹیشن کے عقب میں بنا انویسٹیگیشن روم ہے۔ کمرے کی چھت سے ایک بلب لٹک رہا ہے اور ایک میز کی ایک جانب دو کُرسیاں اور دوسری جانب ایک کرسی رکھی گئی ہے۔ کمرے کے ملحقہ حصے میں ایک اور کمرہ ہے جسے شیشے سے الگ کیا گیا ہے۔

یہاں ملزمان سے تفتیش کی جاتی ہے۔ پولیس نے بی بی سی کو بعض ایسے افراد تک رسائی دی جو پُرتشدد ہجوم کا حصہ بنے۔ ان تمام افراد کے مقدمات کی سماعت جاری ہے اسی لیے فیئر ٹرائل کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کے نام، مقامات تبدیل کیے گئے ہیں جبکہ ان اصل واقعات کا حوالہ نہیں دیا جا رہا جن میں یہ افراد ملوث پائے گئے ہیں۔

بی بی سی نے تین افراد کا انٹرویو کیا، جن میں سے ایک کا کہنا تھا کہ انھوں نے جو کیا، وہ دہرا بھی سکتے ہیں۔ جو شخص ان افراد کے حملے میں ہلاک ہوئے ان پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق یہ تینوں ان درجنوں افراد میں شامل ہیں، جنھوں نے نہ صرف اپنے ساتھی پر حملہ کیا بلکہ سینکڑوں افراد کو اکٹھا کیا اور انھیں اشتعال دلاتے رہے۔

حملے کے الزام میں گرفتار افراد میں افضال (فرضی نام) بھی شامل ہیں۔

ان کی عمر 25 سے 30 سال کے درمیان ہے۔ وہ پنجاب کے ایک دور دراز دیہات کے رہائشی ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں میں ان کا نمبر پہلا ہے۔ وہ آٹھویں جماعت میں تھے، جب ان کا موٹر سائیکل پر ایکسیڈنٹ ہوا اور اس کے بعد انھوں نے تعلیم چھوڑ دی۔ افضال شہر میں نوکری کرنے آئے تھے۔

قریب 11 سال قبل سیالکوٹ میں دو سگے بھائیوں حافظ مغیث اور منیب کو رسیوں سے باندھا گیا اور پھر دونوں پر ڈنڈوں سے تشدد کر کے انھیں ہلاک کردیا گیا
سیالکوٹ میں دو سگے بھائیوں حافظ مغیث اور منیب کو رسیوں سے باندھا گیا اور پھر دونوں پر ڈنڈوں سے تشدد کر کے انھیں ہلاک کر دیا گیا

جس دن حملہ ہوا وہ اپنے 400 ساتھیوں کے ساتھ ایک بڑے ہال میں کام میں مگن تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا ایک ساتھی بھاگتا ہوا آیا اور بتایا کہ جلدی چلو، حنان (فرضی نام) نے گستاخی کی ہے۔ ہم سب اٹھ کر اسی ہجوم کے ساتھ چلے گئے۔‘

میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں ’اٹھ کر اس شخص کے پیچھے چلے گئے؟‘

افضال نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ ’سب جا رہے تھے، میں بھی چلا گیا۔ اس وقت ذہن میں یہی چل رہا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ دوسرا یہ بھی کہ یا تو اسے کسی نے دیکھا ہو۔ جس کے ہاتھ جو لگا وہ اٹھا لیا۔ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا، کسی کے ہاتھ میں پھٹا تھا، کوئی پائپ توڑ کر لے گیا۔ مجھے بھی ایک لکڑی کا پھٹا ملا جو میں نے ہاتھ میں لیا اور وہیں چلا گیا۔‘

تاہم اس کے بعد کا بیان افضال کی ان ویڈیوز سے مختلف ہے، جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ان حملہ آوروں میں شامل تھے، جو براہِ راست ہلاک ہونے والے شخص کو پِیٹ رہے تھے۔

افضال کہتے ہیں کہ انھوں نے حملہ نہیں کیا۔ ’میں تو اس طرف گیا ہی نہیں جہاں مار پیٹ ہو رہی تھی۔ میں نے لکڑی کا پھٹا پھینک دیا اور باہر چلا گیا اور سب کو منع کرتا رہا کہ ایسا نہ کریں۔‘

انھوں نے اس دن کے حوالے سے بتایا کہ ’اس دن سب غصے میں تھے کہ حنان کو نہیں چھوڑنا۔ سب کے ذہن میں یہی بات تھی کہ گستاخی کیوں کی۔ نعرے بازی بہت زیادہ تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ اس مقام سے باہر تھے جہاں مار پیٹ ہوئی اور یہ کہ انھوں نے ویڈیوز میں ہی سب دیکھا۔

’دوسرے دن میں سوچ رہا تھا کہ یوں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ جو اس شخص کو مار دیا گیا یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آج میں پچھتا رہا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ کل ایسا کچھ ہم سے ہو گیا تو ہمارے ساتھ بھی یہی ہو سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی ویڈیو میں نہیں ہیں اور انھوں نے لکڑی کا ٹکڑا اٹھایا تو تھا مگر اسے کسی کے خلاف استعمال نہیں کیا تاہم پولیس کے مطابق انھیں اور ان جیسے دیگر افراد کو تمام شواہد اکٹھے کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا اور یہ شواہد عدالت میں پیش کیے گئے۔

بی بی سی نے ایک اور ملزم شاہد (فرضی نام) سے بھی بات کی جن کے خلاف پولیس کے مطابق ایسے شواہد موجود ہیں، جن میں وہ ایک شخص کو جلا رہے ہیں اور لوگوں کو ایسا کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق وہ اس دفتر کے ملازم نہیں جہاں یہ حملہ ہوا۔

شاہد کے مطابق انھیں ان کے بھانجے نے فون کیا اور کہا کہ وہ اپنے ساتھ بندے لے کر آئیں، ایک شخص نے گستاخی کر دی ہے۔

’میں ایک عزیز کے پاس بیٹھا تھا۔ مجھے فون کال آئی اور کہا گیا کہ فلاں جگہ کسی نے گستاخی کی ہے تو آپ آ جائیں۔ تو میں وہاں چلا گیا۔‘

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ سن کر مجھے غصہ آیا۔ ایمان کی حرارت پیدا ہوئی۔ میں اسی مقام پر چلا گیا۔ جہاں ہجوم تھا۔ ایک بھٹی صاحب لیکچر دے رہے تھے۔‘

’میں نے انھیں منع کیا تو میرا بازو پکڑ کر اپنے ساتھ لگ گئے۔ میں نے کہا کہ اس شخص کو ہجوم کے حوالے نہ کریں۔ پولیس کو بلائیں۔ وہ کہنے لگے ہاں یار تمہاری بات تو ٹھیک ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’وہاں بہت لوگ تھے۔ ہزاروں تھے۔ نعرے بازی چل رہی تھی۔ میں اندر چلا گیا۔ میں نے سوچا وہاں جا کر دیکھتا ہوں کہ قانونی طور پر نمٹا جائے۔‘

مگر جب ہم نے شاہد کو انھی کی ویڈیوز کا حوالہ دیا، جس میں وہ نعرے بازی کر کے اشتعال دلا رہے تھے اور ہجوم اکٹھا کر رہے تھے تو انھوں نے تسلیم کیا کہ ان سے غلطی ہوئی۔

’اصل میں غلطی ہوئی ہے، ٹھیک ہے؟ انسان خطا کا پتلا ہے۔ وہاں یہ غلط ہوا کہ اس شخص کو مارا اور آگ لگائی گئی۔ پچھتاوا ہے، غلطی تو انسان سے ہی ہوتی ہے اور انسان غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے۔‘

پرتشدد ہجوم میں شامل ان ملزمان کی اس ’غلطی‘ کی وجہ سے ہلاک ہونے والے شخص اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ ان کے کمسن بچے اور بیوہ ہیں جو مجرمان کی سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مشال خان
مشعال خان کو ان کی یونیورسٹی میں پرتشدد ہجوم نے قتل کر دیا

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

گزشتہ بارہ برسوں میں متعدد ایسے واقعات ہوئے ہیں جب پرتشدد ہجوم نے سرکاری املاک، عبادت گاہوں اور عام شہریوں پر حملے کیے۔ ان میں سے بیشتر میں ہلاکتیں بھی ہوئیں جبکہ تمام حملوں میں سرکاری املاک اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا۔

  • سنہ 2017 میں مشعال خان کو ان کی یونیورسٹی میں پرتشدد ہجوم نے قتل کر دیا۔ ان پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا۔
  • سنہ 2014 میں کوٹ رادھا کرشن میں شمع اور شہزاد نامی جوڑے کو ایک ہجوم نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں اینٹوں کے بھٹے میں جلا دی گئیں۔
  • اسی برس ایک مشتعل ہجوم نے گوجرانوالہ میں احمدی کمیونٹی کے گھروں پر حملہ کیا گیا۔ ایک خاتون اور دو کمسن بچیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
  • سنہ 2013 میں بادامی باغ لاہور میں مشتعل ہجوم نے عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں پر دھاوا بول دیا۔ یہاں جوزف کالونی کے ایک رہائشی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔
  • سنہ 2012 میں بہاولپور کے علاقے چنیگوٹھ میں ایک شخص کو زندہ جلا دیا گیا۔ ان پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا اور پولیس نے انھیں گرفتار کیا۔ مشتعل ہجوم نے پولیس سٹیشن پر حملہ کیا اور مذکورہ شخص کا قتل کر دیا۔
  • سنہ 2009 میں شیخوپورہ میں ایک فیکٹری کے مالک محمد نجیب ظفر کو ایک مشتعل ہجوم نے قتل کر دیا۔ پولیس کو واقعے سے پانچ گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ مشتعل ہجوم کے حملے کا خطرہ ہے۔ نجیب ظفر کا فیکٹری کے ورکرز کے ساتھ اس وقت جھگڑا ہوا جب انھوں نے مبینہ طور پر ایک کلینڈر دیوار سے اتارا۔ ان پر بھی توہینِ مذہب کا الزام لگا۔
  • اسی سال ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے گوجرہ میں چھ مسیحی شہریوں کو اس زندہ جلا دیا گیا جب ایک مشتعل ہجوم نے ان کے گھروں پر حملہ کیا۔ ان سے متعلق علاقے میں توہین مذہب کی افواہ پھیلائی گئی۔ قتل ہونے والوں میں چار خواتین اور ایک بچہ شامل تھا۔
  • سنہ 2018 میں کراچی میں جگدیش کمار نامی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے 27 سال کے جگدیش کمار کو ان کے درجنوں ساتھیوں نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ ان پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔

گذشتہ برس مئی کے مہینے میں مشتعل ہجوم نے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کیا۔ یہاں توہینِ مذہب کے الزام میں دو بھائی قید تھے۔

اسی برس اگست میں رحیم یار خان میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر پر حملہ کیا۔ نومبر میں چارسدہ میں ایک پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی گئی اور دسمبر میں ایک ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری کو ہلاک کر دیا۔

سری لنکا
سیالکوٹ میں فیکٹری کے منیجر پریانتھا کمارا کو ہجوم نے قتل کیا اور پھر ان کی لاش کو آگ لگا دی

توہین مذہب کا الزام ہجوم کو جمع کرنے کا عام ذریعہ

توہین مذہب کا الزام پرتشدد ہجوم کو جمع کرنے کا سب سے عام ذریعہ بنتا رہا ہے۔

’گستاخی کی سزا، سر تن سے جدا‘ جیسے نعرے تحریک لبیک پاکستان جیسی شدت پسند مذہبی و سیاسی جماعتوں کے جلسوں سے اتنے عام ہوئے کہ یہ گھر گھر پہنچ گئے۔

یہ خطرہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب اس کی زد میں کوئی بھی آ سکتا ہے۔ حال ہی میں سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے منیجر پریانتھا کمارا کو ہجوم نے قتل کیا اور پھر ان کی لاش کو آگ لگا دی۔

پریانتھا کمارا سری لنکا کے شہری تھے اور یوں پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ان نعروں کا سب سے زیادہ اثر دیہی علاقوں کے نوجوانوں پر ہوا اور وہ بھی ان سے متاثر ہوئے جو کم تعلیم یافتہ تھے مگر ایسا نہیں کہ صرف ایک مخصوص علاقے یا طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے انتہا پسندانہ رویہ اپنایا ہو اور وہ پرتشدد ہجوم کا حصہ بنے ہوں۔

یہ ملک میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ 13 اپریل سنہ 2017 کو مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کا واقعہ اسی رویے کی ایک اور مثال ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر مشتعل طلبا کے ایک ہجوم نے توہین رسالت کا الزام لگایا اور یونیورسٹی کے کیمپس میں طالب علم مشال خان کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔

پاکستان
سنہ 2014 میں کوٹ رادھا کرشن میں شمع اور شہزاد نامی جوڑے کو ایک ہجوم نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں اینٹوں کے بھٹے میں جلا دی گئیں

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں میں پاکستان بھر میں چھ سو سے زائد مسلمانوں، تقریباً 1500 احمدیوں، 200 مسیحی اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔

ان میں سے کئی پرتشدد ہجوم کے حملوں کا شکار ہوئے، کچھ قید کے دوران تو کوئی عدالت کے اندر اور اس کے احاطے میں گولیوں کا نشانہ بنے جبکہ ان میں سے بیشتر اب بھی جیلوں میں ہیں۔

ذیلی عدالتوں کے سو فیصد فیصلے ان افراد کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں، جس کی وجہ ماہرین کے مطابق وہ خوف ہے جو ان عدالتوں میں پایا جاتا ہے اور وہ مناسب سمجھتی ہیں کہ ایسے مقدمات کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ ہی کرے۔

سیالکوٹ حال ہی میں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کی لنچنگ کے واقعے کے بعد خبروں میں رہا تاہم پولیس نے اس بار تیزی سے کارروائی کی اور دو روز میں ہی ویڈیوز میں نظر آنے والے افراد میں سے سو سے زائد کو گرفتار کیا۔

بی بی سی سے سیالکوٹ کے ڈی پی او عمر سعید نے بات کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار ہونے والوں میں 13 مرکزی ملزمان ہیں۔

ان میں حملے پر اکسانے والے اور انھیں مارنے والے ملزمان شامل ہیں لیکن ملک میں پُرتشدد ہجوم کے حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں انھیں بھی تشویش ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اب یہ خوف عام ہو گیا ہے کہ کہیں بھی ہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔

’میں ایک پولیس افسر ہوں، میں بھی عوامی مقامات پر اب محتاط رہتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو دوسروں کی رائے سے مطابقت نہ رکھتی ہو اور وہ مجھ پر کوئی بھی الزام لگا کر حملہ کردیں۔‘

جرم

’وہ دن ایک فلم کی طرح ذہن میں رہتا ہے‘

اگرچہ ایسے واقعات کی تعداد بہت کم ہے مگر یہ بھی ہوا ہے کہ پرتشدد ہجوم کے غیض و غضب کا نشانہ بننے والے کسی شخص کی جان بچائی گئی ہو۔

پنجاب میں ایک سرکاری ادارے میں دو غیر مسلم خواتین پر مشتعل ہجوم نے حملہ کر دیا۔

ان نرسوں کا تعلق مسیحی مذہب سے تھا اور ان پر بھی عملے کے ایک فرد نے توہین مذہب کا الزام لگایا۔ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجُوم جمع ہو گیا۔

اس موقع پر پولیس نے بروقت کارروائی کی اور ان خواتین کو ہجوم سے بچا لیا اور محفوظ مقام پر پہنچایا گیا۔ ان خواتین کا مقدمہ اس وقت زیر سماعت ہے جبکہ انھیں حفاظت کے پیش نظر خفیہ مقام پر رکھا گیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کی حفاظت پر معمور ایک شخص نے بتایا کہ وہ خواتین شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔

’وہ کہتی ہیں کہ جب سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری کو ایک ہجوم نے قتل کیا تو ہمیں وہ دن یاد آیا جب ہم ایسے ہی انسانوں کے سامنے تھے جن کی آنکھوں میں غصے اور نفرت کی آگ تھی۔ ان کے بس میں نہیں تھا کہ ہمیں مار دیتے۔ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، وہ ایک فلم کی طرح ہمارے ذہن میں چل رہا تھا۔‘

’یہ سب ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا تھا۔ ہمیں بچایا نہ جاتا تو شاید ہم بھی اسی طرح مرتیں اور ہمارے جسموں کو بھی یوں ہی آگ لگائی جاتی۔‘

پرتشدد ہجوم سے ملزم کو بچانے والے خطیب

’اب بھی میرے کانوں میں یہ آواز آ رہی ہے جب لوگ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ خطیب کو ہمارے حوالے کرو، پھر اس کے ساتھ ہم نے جو کرنا ہے ہم کریں گے۔‘

چترال میں پولیس سٹیشن پر حملے (اپریل 2017) کو اب چند سال بیت گئے ہیں مگر یہ آوازیں آج بھی شاہی مسجد کے خطیب خلیق الزماں کے کانوں میں گونجتی ہیں۔

انھوں نے کمال ہمت سے ایک ایسے شخص کو پرتشدد ہجوم سے بچا کر پولیس کے حوالے کیا جن پر توہین مذہب کا الزام لگا۔ عدالت میں الزام ثابت ہونے پر وہ شخص آج جیل میں سزا کاٹ رہا ہے

بی بی سی کی نامہ نگار حمیرا کنول نے ان سے بات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ جمعے کی نماز کے دوران یہ واقعہ پیش آیا، جب ایک شخص پر توہین مذہب کا الزام لگا۔ خطیب خلیق الزماں نے جب نمازوں کو مشتعل ہوتے دیکھا تو انھوں نے نمازیوں کو تلقین کی کہ وہ نماز جمعہ اور خطبے کو مکمل ہونے دیں۔

’مجھے خدشہ تھا کہ اس شخص کو لوگ چیر پھاڑ دیں گے۔ یہاں خون خرابہ ہو گا اور مسجد مقتل بن جائے گی۔‘

نماز کے بعد انھوں نے ایک بار پھر مشتعل ہجوم کو سمجھایا کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس شخص نے ایسا کیوں کیا۔

میں نے کہا کہ ’آئین اور قانون میں ایک نظام موجود ہے اسے پولیس کے حوالے کرتے ہیں اور جن لوگوں نے چترال میں فرقہ واریت کی کوشش کی ہے ان کو بھی پکڑیں گے۔‘

تاہم مشتعل ہجوم کو قابو کرنا مشکل تھا۔ انھوں نے اس شخص کو ایک کمرے میں بند کر دیا جبکہ پولیس کو بھی اطلاع کر دی۔

پرتشدد ہجوم

چترال میں مردم شماری کی وجہ سے پولیس مصروف تھی اور ہنگامہ آرائی کے وقت مسجد میں سات سے آٹھ پولیس اہلکار موجود تھے۔

اس وقت چترال میں تعینات ڈی ایس پی معین الدین نے بھی بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ انھوں نے کس طرح مشتعل ہجوم سے ملزم کو بچایا۔

’میں وہاں پہنچا اور ایس ایچ او اور کچھ اہلکاروں کو ہجوم کی توجہ بٹانے کے لیے ایک جانب بھیجا اور خود دوسری جانب چلا گیا۔‘

انھوں نے ملزم کو ہجوم سے بچا کر تھانے منتقل کیا۔

پولیس نے تھانے کا گیٹ بند کر دیا لیکن تب تک یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ مشتعل ہجوم نے کچھ ہی دیر میں تھانے پر دھاوا بول دیا۔ ملزم تک پہنچنے کی کوشش میں انھوں نے تھانے کے شیشے توڑے جبکہ شیلنگ میں کم از کم پانچ افراد زخمی بھی ہوئے۔

بعدازاں ملزم کو شہر سے دور ایک جیل میں منتقل کیا گیا جبکہ 200 کے قریب افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

خیال رہے کہ جب ہجوم نے تھانے پر حملہ کیا تو وہ نہ صرف ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے تھے بلکہ خطیب خلیق الزماں پر بھی بھڑکے ہوئے تھے۔

وہ چاہتے تھے کہ اگر ملزم نہ ملے تو کم از کم خطیب صاحب کو سامنے لایا جائے جنھوں نے ملزم کو بچایا۔ ہجوم نے اشتعال میں آ کر خلیق الزماں کی گاڑی بھی نذر آتش کر دی۔

چترال میں اس وقت شہاب یوسفزئی ڈسٹرکٹ کمشنر کے عہدے پر تعینات تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ حالات معمول پر آنے میں دس دن لگے۔ خود پولیس اہلکار اور افسران مشتعل ہجوم کے نشانے پر تھے۔

’لوگ پولیس لائنز اور تھانے پر پتھراؤ کر رہے تھے، بوتلیں پھینک رہے تھے۔ علاقے کے ناظم نے ہمیں ہجوم سے نکالنے میں مدد دی اور ہم گھروں کی چھتوں سے ہوتے ہوئے دفتر پہنچے۔‘

اس ہجوم کو قابو کرنے والوں کے اہلخانہ بھی خطرے میں تھے تاہم ان تمام سکیورٹی اہلکاروں نے ہجوم قابو میں کرنے کو ترجیح دی۔

شہاب یوسفزئی بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کو بتایا کہ حالات بدتر ہو سکتے ہیں۔

’میں نے اپنی اہلیہ کو فون کر کے کہا کہ ایسی کسی بھی صورتحال میں وہ دریا کی جانب سے ہوتی ہوئی جنگل میں چلی جائیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اس رات علما اور دیگر عمائدین کو بلایا اور انھیں کہا کہ وہ صورتحال قابو کرنے میں مدد کریں۔

’کچھ نے ہمارا ساتھ دیا اور کچھ نے مزید اشتعال دلایا۔‘ توہین رسالت کے ملزم کے خلاف بعد میں مقدمہ سوات میں ہی چلایا گیا اور اسے عمر قید کی سزا ہوئی۔

ریسکیو

ہجوم آخر قانون ہاتھ میں کیوں لیتا ہے؟

بی بی سی نے یہی سوال ماہین احمد سے کیا جو اسلام آباد ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ اور نسٹ یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک ہیں۔

ماہین احمد کہتی ہیں کہ پُرتشدد ہجوم کی ذہنیت ایک جامع سائنس ہے، جس کے مطابق لوگ ہجُوم میں اپنے کسی بھی رویے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

ماہین احمد کے مطابق ’جب آپ ہجوم کا حصہ بن جائیں تو آپ کی انفرادی پہچان تو ختم ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ کی سوچنے سمجھنے کی انفرادی صلاحیت بھی دب جاتی ہے۔ اب آپ وہی کرتے ہیں جو ہجوم کر رہا ہے۔‘

’آپ خود درست اور غلط میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ خود کو بہتر سمجھنے والا مشتعل ہجوم آپ کو کنٹرول کر رہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لیں اور ’فوری انصاف‘ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ ہجوم میں ان کی اور ان کے فعل کی پہچان اب ختم ہو گئی ہے اس لیے انھیں علم ہے کہ ان کی پکڑ نہیں ہو گی۔‘

دوسری جانب وہ سمجھتی ہیں کہ قانون میں سقم بھی موجود ہے۔

’پاکستان میں فی الحال پرتشدد ہجوم کو علیحدہ شامل نہیں کیا گیا۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ بندہ مر گیا تو قتل کا مقدمہ ہو گا، زخمی ہوا تو اس سے متعلق مقدمہ ہو گا مگر آپ ایک پرتشدد ہجوم کا حصہ بنے، اس پر سزا نہیں ملتی۔‘

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، فرسٹریشنز اور ذاتی رنجشیں اور بدلہ لینے کا آسان طریقہ ہونے کی وجہ سے ’موب وائلنس‘ کا تصور عام ہو رہا ہے۔

ڈی پی او سیالکوٹ عمر سعید کے مطابق اگر کسی شخص کو مشتعل ہجوم کا خطرہ یا خدشہ ہے تو وقت ضائع کیے بغیر پولیس کو اطلاع دیے۔

’اگر کسی کے سامنے ہجوم اکٹھا ہو رہا ہے یا اس بارے میں بات کی جا رہی ہے تو قانون نافذ کرنے والوں کو اطلاع دینی چاہیے کیونکہ ایک بار ہجوم اکٹھا ہو گیا تو اس کے حملے سے زندہ بچنا تقریباً ناممکن ہے۔‘

ماہرین کے خیال میں ہجوم میں جرم کی ذمہ داری کسی ایک فرد پر عائد کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جیسے سیالکوٹ میں ہلاک ہونے والے دو بھائیوں منیب اور مغیث کے مجرمان۔

مردان کے مشعال خان قتل واقعے میں مرکزی ملزم ایک تھا جس کی ویڈیو کی بنیاد پر شناخت ہوئی کہ انھوں نے گولی مار کر مشعال خان کو ہلاک کیا لیکن سیالکوٹ میں دونوں بھائیوں پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کے دوران یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ کونسا شخص تھا، جس کی ضرب سے ان بھائیوں کی جان گئی اور شاید یہی وہ خلا ہے جو پُرتشدد ہجوم کو سخت سزاؤں سے بچا رہا ہے۔

تاہم قتل یا اقدام قتل نہ سہی، حملے میں شامل ہونے والے افراد کو ان شقوں کے تحت سزائیں مل سکتی ہیں جو کسی بھی دوسرے شہری کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہیں۔

پرتشددہجوم
توہین مذہب کا الزام پرتشدد ہجوم کو جمع کرنے کا سب سے عام ذریعہ بنتا رہا ہے

’میری بھابی نفسیاتی مریض بن گئی ہیں‘

سیالکوٹ شہر کے بیچ اس قبرستان میں سینکڑوں کچی قبریں ہیں۔ تنگ راہداری کے ایک طرف کچی اینٹوں کا مکان ہے، جو یہاں کے گورکن اور ان کے اہلخانہ کی رہائش گاہ ہے۔ دوسری طرف قبریں ہیں۔ انھی میں مغیث اور منیب کی قبریں بھی ہیں۔

ان کے والدین اس واقعے سے جڑی اذیت کے باعث اب اس کا ذکر نہیں کرتے۔ بی بی سی نے ان کے چچا ضرار بٹ سے بات کی۔ وہ ان کے مقدمے میں مدعی بھی تھے اور ہمیں اس قبرستان میں لے گئے جہاں دونوں بھائی دفن ہیں۔

ضرار بٹ بتاتے ہیں کہ ان کا بڑا بھتیجا تقریباً ایک گھنٹہ مار برداشت کرتا رہا۔ وہ باڈی بلڈنگ کرتا تھا اور یہی چیز نقصان دے گئی

’چھوٹا تو چند منٹ میں مر گیا تھا مگر بڑا بھتیجا اس وقت بھی زندہ تھا جب انھیں ریسیکیو 1122 کے دفتر کے ساتھ ٹینکی کے پائپ پر لٹکایا گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ منیب اور مغیث کی والدہ اب نفسیاتی مریض بن گئی ہیں اور بیمار رہتی ہیں۔

’ایک باپ یا ماں کے لیے اس سے بڑی کیا اذیت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے دو جوان بیٹوں کو قبر میں اتار دیں۔ میری بھابی اس حادثے کے بعد نفسیاتی مریض بن گئی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اندر ہی اندر ختم ہو گئی ہیں۔ فیملی کے سامنے حوصلے سے بات کرتی ہیں مگر اکیلے میں وہ روتی رہتی ہیں۔‘

’میرا بھائی، خدا کی رضا سمجھ کر انھوں نے صبر تو کیا مگر ان کے چہرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس اذیت میں ہیں۔ ہمیں توقع تھی کہ عدالت سے کچھ انصاف ملے گا تو وہ ہمارے زخموں کا مداوا ہو گا مگر جب دس سال بعد ہی انھیں سپریم کورٹ سے رہائی ملی تو بہت دکھ ہوا۔‘

منیب مغیث

خیال رہے کہ ان بھائیوں کے مقدمے میں ستمبر 2011 میں انسداد دہشتگردی عدالت نے واقعے میں ملوث سات افراد کو چار چار مرتبہ سزائے موت اور چھہ ملزمان کو چار چار بار عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ کوتاہی برتنے پر اس وقت کے ڈی پی او سیالکوٹ وقار چوہان سمیت حملے کے وقت ہجوم میں موجود نو پولیس اہلکاروں کو تین تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا مگر عدالت نے یہ فیصلہ برقرار رکھا اور سنہ 2015 میں ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے۔

تاہم سپریم کورٹ میں یہ فیصلہ چیلنج ہوا اور گذشتہ برس ان افراد کی سزا کو کم کیا گیا اور دس سال میں تبدیل کر دیا گیا، جس کے بعد اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے بیشتر ملزمان اپنی سزا پوری کر کے آزاد ہو گئے ہیں۔

ضرار بٹ اور ان کا خاندان عدالتی فیصلے سے مطمئن نہیں اور کہتے ہیں کہ ایک طویل اور کٹھن سفر کے بعد انھیں انصاف نہیں ملا۔

’ساری دنیا کو علم ہے کہ ہمارے بچوں پر ظلم ہوا، شواہد موجود تھے مگر انصاف ڈھونڈنے میں پچیس سے تیس لاکھ روپے لگ گئے۔ ہماری کوشش کا مقصد یہی تھا کہ یہ واقعات دوبارہ نہ ہوں، کسی اور کا گھر نہ اجڑے۔ ہمارے کیس میں عدالت سخت سزا دے دیتی تو معاشرے میں اس قسم کے واقعات میں کمی آ جاتی۔‘

ضرار بٹ کے مطابق ’جب کمزور فیصلے ہوئے تو معاشرے میں بے حسی آئی۔ انھیں علم ہے کہ اگر وہ ہجوم کا حصہ بنیں گے تو انھیں سخت سزا نہیں ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واقعات ختم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے گئے۔‘

مگر ضرار بٹ ان لوگوں کو مشورہ ضرور دیتے ہیں جو زندگی میں کسی موقع پر مشتعل ہجوم کا حصہ بننے کا سوچ سکتے ہیں۔

’ایک بار یہ سوچ لیں کہ ان پر کیا گزرے گی، جن کے جگر گوشے کو آپ مار رہے ہیں۔ خدا کے لیے اس اذیت کو سمجھیں جو ان ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں پر گزرتی ہے اور یہ بھی سوچیں کہ خود آپ کے خاندان پر کیا گزرے گی۔ سکون تو انھیں بھی نہیں ملے گا۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *