پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ یہ ورلڈ کپ

پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ یہ ورلڈ کپ

پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ یہ ورلڈ کپ 1992 کے عالمی کپ کی یاد کیوں دلا رہا ہے؟

سنہ 1992 اور 2022 میں تھوڑا بہت نہیں بلکہ پورے 30 سال کا فرق ہے لیکن اِن 30 برسوں کے دوران شاید ہی کوئی ایسا موقع ہو جب 1992 کے عالمی کپ کی جیت کو کسی نے یاد نہ کیا ہو۔ بلاشبہ اُس عالمی کپ کی جیت کو پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا سب سے یادگار لمحہ کہا جا سکتا ہے۔

آج 30 سال گزرنے کے بعد 1992 کے عالمی کپ کو پھر سے یاد کیا جا رہا ہے لیکن اس کی وجہ کچھ مختلف اور دلچسپ ہے۔ اس وقت اسے یاد کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کی 30ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے کیونکہ وہ تو اس سال 25 مارچ کو منائی جا چکی لیکن اب اسے یاد کرنے کا بڑا سبب پاکستان کی موجودہ کرکٹ ٹیم بنی ہے جو اس وقت آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیل رہی ہے۔

یہاں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ  1992 کے عالمی کپ کا 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے کیا تعلق؟ یقیناً آپ یہی سوچیں گے کہ دونوں مختلف فارمیٹ کے ٹورنامنٹس ہیں۔ 1992 کا عالمی کپ پچاس اوورز کا ٹورنامنٹ تھا جبکہ موجودہ ٹورنامنٹ بیس اوورز کے مختصر دورانیے کی کرکٹ کا ہے لیکن دونوں میں ایک بات قدِر مشترک ہے اور وہ ہے پاکستانی کرکٹ ٹیم۔

پاکستانی ٹیم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے پُرستاروں کو جتنی تیزی سے مایوس کر دیتی ہے اتنی ہی تیزی سے انھیں خوش کرنے کا فن بھی جانتی ہے اور اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس کی کارکردگی کچھ اسی طرح کی رہی ہے کہ پہلے شائقین جتنا مایوس ہو سکتے تھے وہ ہو گئے لیکن اب ہر کوئی ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے پر خوش ہے۔

سنہ 1992 کے عالمی کپ میں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ رہا تھا جب ایک کے بعد ایک شکست کے نتیجے میں کوئی بھی اس کی جیت تو درکنار اس کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے بارے میں بھی یقین نہیں کر رہا تھا لیکن وہ ٹیم نہ صرف فائنل میں پہنچی بلکہ انگلینڈ کو ہراکر فاتح بھی بنی۔

92
1992 ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں پاکستان کو ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں دس وکٹوں کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا، اس میچ میں کپتان عمران خان کندھے کی تکلیف کی وجہ سے نہیں کھیلے تھے اور کپتانی جاوید میانداد نے کی تھی

1992 کے عالمی کپ میں کیا ہوا تھا؟

پہلے پاکستانی ٹیم کے 92 ورلڈ کپ کے سفر پر نظر ڈالتے ہوئے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔

یہ ورلڈ کپ بھی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ میزبانی میں ہوا تھا۔ پاکستانی ٹیم کا سفر میلبرن سے شروع ہوا تھا لیکن پہلے ہی میچ میں اسے ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں دس وکٹوں کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس میچ میں کپتان عمران خان کندھے کی تکلیف کی وجہ سے نہیں کھیلے تھے اور کپتانی جاوید میانداد نے کی تھی۔

پاکستانی ٹیم نے اگلے میچ میں زمبابوے کو 53 رنز سے ہرایا لیکن ایڈیلیڈ میں انگلینڈ کے خلاف میچ میں پوری ٹیم صرف 74 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی تھی۔ انگلینڈ نے ایک وکٹ پر 24 رنز بنا لیے تھے اور اس کی جیت یقینی نظر آ رہی تھی کہ بارش کی وجہ سے میچ ختم کر دینا پڑا اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دے دیا گیا۔

اگلے دو میچوں میں پاکستانی ٹیم انڈیا اور جنوبی افریقہ سے ہاری تو پاکستانی شائقین کی مایوسی میں اضافہ ہو چکا تھا اور ٹیم کے آگے بڑھنےکے بارے میں بے یقینی بڑھنے لگی تھی اور کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ ٹیم سیمی فائنل میں بھی جائے گی۔

92

وہ ایک قیمتی پوائنٹ

ان تین لگاتار کامیابیوں کے بعد پاکستانی ٹیم کے اگرچہ 9 پوائنٹس ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود اس کا سیمی فائنل میں پہنچنا اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں تھا اور تمام تر نظریں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ورلڈ کپ کے آخری لیگ میچ پر لگی ہوئی تھیں۔

اس وقت صورتحال یہ تھی کہ آسٹریلیا کے چھ اور ویسٹ انڈیز کے آٹھ پوائنٹس تھے۔ ویسٹ انڈیز وہ میچ جیت جاتی تو پاکستان کو باہر کرتے ہوئے دس پوائنٹس کے ساتھ  سیمی فائنل میں پہنچ جاتی لیکن میلبرن میں کھیلے گئے اس میچ میں آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو57 رنز سے ہرا کر پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو وہ ایک پوائنٹ سیمی فائنل میں لے گیا جو اسے انگلینڈ کے خلاف بارش سے متاثرہ میچ میں ملا تھا۔

بابر اعظم

اس ورلڈ کپ میں کیا مماثلت ہے؟

پاکستانی ٹیم کی 92 ورلڈ کپ کی کارکردگی کے بعد اگر ہم اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کارکردگی دیکھیں تو یہ سفر 30 سال پہلے والا ہی نظر آتا ہے۔

اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کا سفر میلبرن میں شکست سے شروع ہوا۔ تیس سال پہلے ٹیم ویسٹ انڈیز تھی اس مرتبہ اسے انڈیا نے ناکامی سے دوچار کیا۔

بانوے کے عالمی کپ کے آخری تین لیگ میچوں میں پاکستانی ٹیم نے کامیابیاں حاصل کی تھیں اسی طرح اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا اور زمبابوے سے ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے ہالینڈ جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف لگاتار تین میچ جیتے۔

بانوے کے عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم کو آخر وقت تک سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے انتظار کرنا پڑا تھا جسے آسٹریلیا کی ویسٹ انڈیز کے خلاف جیت نے ممکن بنا دیا تھا اس مرتبہ گروپ میچوں کے آخری دن ہالینڈ کی جنوبی افریقہ کے خلاف ڈرامائی جیت نے پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔

ٹیم

میلبرن سے میلبرن تک

پاکستانی ٹیم سڈنی میں کھیلے جانے والے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے مقابلہ کرنے والی ہے۔ بانوے کے عالمی کپ میں بھی اس نے اپنا سیمی فائنل نیوزی لینڈ کے خلاف جیتا تھا۔

بانوے کے عالمی کپ میں اس کا سفر میلبرن میں شکست سے  شروع ہوکر میلبرن میں ہی فاتحانہ انداز میں ختم ہوا تھا۔اس مرتبہ بھی اس نے پہلا میچ میلبرن میں ہارا اور اب پاکستانی شائقین یہی دعا کر رہے ہیں کہ ٹیم کا یہ سفر میلبرن میں جیت کے ساتھ اختتام پذیر ہو۔

سوشل میڈیا پر ’وزیراعظم بابر اعظم‘

پاکستانی ٹیم نے جس طریقے سے اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی ہے، سوشل میڈیا پر لوگوں نے دلچسپ تبصروں کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔

ٹوئٹر پر ایک صارف نے ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ایک شخص تیزی سے آنے والی گاڑیوں سے بچتے ہوئے سڑک عبور کر رہا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی لکھا ہےکہ قدرت  کا نظام جیت گیا۔

ایک اور صارف سیف اللہ نے بھی ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ایک فوجی کو دروازے کو لات مار کر کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اس دوران ایک اور فوجی آ کر اطمینان سے دورازے کو کھول دیتا ہے، اس فوجی کو ہالینڈ سے تشبیہ دی گئی ہے۔

ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں کار ( پاکستانی ٹیم)  کو سڑک پر لگے ہوئے ایئرپورٹ اور سیمی فائنل کے اشاروں میں سیمی فائنل کی طرف مڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر کچھ اس طرح کے تبصرے بھی ہوئے ہیں کہ عمران خان نے 1992 میں ورلڈ کپ جیتا اور 2018 میں وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے تو کیا بابر اعظم 2022 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد 2048 میں ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *