پاکستان اور انڈیا کا ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی

پاکستان اور انڈیا کا ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی

پاکستان اور انڈیا کا ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق

پاکستان اور انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) نے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے اور ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز نے ہاٹ لائن رابطے کے قائم کردہ طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور دیگر تمام سیکٹرز کی صورتحال کا آزاد، اچھے اور خوشگوار ماحول میں جائزہ لیا۔

دونوں فریقین نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی طرح کی غیر متوقع صورتحال اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے موجودہ ہاٹ لائن رابطے کے طریقہ کار اور بارڈر فلیگ میٹنگز کا استعمال کیا جائے گا۔

یہ پیشرفت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے کہ جب رواں برس فروری میں انڈین فضائیہ کے طیاروں کی پاکستان کے شمالی علاقے بالاکوٹ میں حملے کی کوشش کو دو برس مکمل ہو رہے ہیں۔

واضح رہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات وقتاً فوقتاً پیش آتے رہتے ہیں۔ ان واقعات میں عسکری و سویلین ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں میں واقع املاک کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

دونوں ممالک سرحدی سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔

ڈی جی ایم اوز کا مشترکہ بیان

فوج

انڈیا اور پاکستان کی فوج کے ڈی جی ایم اوز کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایک اچھے ماحول میں لائن آف کنٹرول کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سرحدوں پر پائیدار امن کے لیے ڈی جی ایم اوز نے ایک دوسرے کے خدشات، جو پُرتشدد واقعات کا باعث بنتے ہیں، کو حل کرنے پر اتفاق کیا۔‘

انڈیا اور پاکستان نے 24 اور 25 فروری کی درمیانی شب سے ایل اور سی پر سیز فائر برقرار رکھنے کی حامی بھری ہے۔ دونوں جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے تمام سیکٹرز پر فائر بندی کے حوالے سے تمام معاہدوں اور سمجھوتوں پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہاٹ لائن رابطہ برقرار رکھا جائے گا۔ ’بارڈر فلیگ میٹنگز کے ذریعے ہر قسم کی غلط فہمی دور کی جائے گی۔‘

دونوں ممالک میں حالیہ کشیدگی کا پس منظر

سنہ 2019، فروری میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں انڈین نیم فوجی دستے سی آر پی ایف پر حملے کے نتیجے میں 40 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم مسلح گروپ جیش محمد نے تسلیم کی تو انڈیا نے حملے کی منصوبہ سازی کے لیے براہ راست پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ جس کے بعد انڈین فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پاکستان فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی علاقے بالاکوٹ میں فضائی بمباری کر کے جیش محمد کی تربیت گاہ کو تباہ کرنے اور سینکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

اگلے ہی دن پاکستان کی فضائیہ نے اپنے لڑاکا طیاروں کے ذریعے جوابی کارروائی کی اور انڈیا کے مگ 21 جنگی طیارے کو مار گرایا گیا اور پاکستان نے انڈین پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن دو دن بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔

جبکہ انڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اس جھڑپ میں پاکستان کے ایک ایف 16 جنگی طیارہ بھی مار گرایا تھا۔ پاکستان اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔

اس کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی برقرار رہی اور اس میں ایک مرتبہ اس وقت پھر شدت آئی جب پانچ اگست سنہ 2019 میں انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی آئینی خود مختار حیثیت ختم کر دی گئی۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ برقرار رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

دونوں ممالک کی جانب سے ایل او سی پر سیز فائر کے معاہدے کی خبر سامنے آنے کے فوراً بعد سوشل میڈیا صارفین نے فوری طور پر اس پر اپنا ردعمل دینا شروع کر دیا۔

صحافی نیروپما سبرامنیئم کا کہنا ہے کہ ایل او سی پر تناؤ کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کا سنہ 2013 کے بعد سے یہ پہلا مشترکہ بیان ہے۔ پاکستان اور انڈیا نے سنہ 2015 کے بعد سے کسی بھی تناظر میں پہلا مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔

فاروق محمد لکھتے ہیں کہ ’برصغیر میں عوام کو غربت سے نکالنے کا واحد راستہ تجارتی تعلقات ہیں۔‘

تاہم تمام لوگ اس پیشرفت سے پُرامید نہیں۔

ٹوئٹر صارف شریا ڈھنڈیال کا کہنا ہے کہ ’امن کے لیے یہ ایک موقع ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسداد دہشتگردی کے آپریشنز کی رفتار کم ہو جائے گی۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *