ٹیریئن وائٹ عمران خان کے خلاف

ٹیریئن وائٹ عمران خان کے خلاف

ٹیریئن وائٹ عمران خان کے خلاف پرانا کیس کیا نئی مشکل کھڑی کر سکتا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے طرف سے ٹیریئن وائٹ کی مبینہ ولدیت کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر اُن کے خلاف نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت میں عمران خان کو 27 جنوری تک عبوری جواب جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

یاد رہے کہ فی الحال اسلام آباد ہائی کورٹ اس ضمن میں دائر ہونے والی ایک درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا لگ بھگ گذشتہ پانچ ماہ سے جائزہ لے رہی ہے۔

جمعرات کے روز ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے موکل عمران خان کی جانب سے جمع کروائے گئے عبوری جواب کی کاپی درخواست گزار کو بھی دیں۔

اس کیس کی گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران ایک اور پیش رفت یہ سامنے آئی کہ پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ پہلی مرتبہ درخواست گزار کے وکیل کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔

یاد رہے کہ سلمان اسلم بٹ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں اٹارنی جنرل تھے جبکہ ماضی میں وہ شریف فیملی کے ٹیکس سے متعلق مقدمات کی بھی مختلف عدالتوں میں پیروی کرتے رہے ہیں۔

آخری سماعت پر کیا ہوا؟

پاکستان

جمعرات کو اس درخواست کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ عمران خان کی جانب سے جمع کروائے گئے ابتدائی جواب (جس میں کہا گیا تھا کہ یہ درخواست ناقابل سماعت ہے) پر اُن کے انگوٹھے کا نشان نہیں ہے۔

عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے مؤکل کے انگوٹھے کا نشان لینے کے لیے دو ہفتے دیے جائیں کیونکہ اُن کے بقول عمران خان کی آج کل طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

عمران خان کے وکیل کی اس بات پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آج کل کے دور میں انگوٹھوں کا نشان لینا کون سا مسئلہ ہے؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آج کل تو ملک کے ہر حصے میں موبائل سِم حاصل کرنے والی دکانوں پر بائیو میٹرک باآسانی ہو جاتی ہے اور بائیو میٹرک مشین سے ایک رسید نکلتی ہے جسے درخواست کے ساتھ لگا دیں۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود اور اُن کا موکل اتنے بااثر ہیں کہ وہ بائیو میٹرک کی مشین گھر پر لے جا سکتے ہیں۔

دوران سماعت سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ٹیریئن وائٹ کے معاملے پر الیکشن کمیشن فیصلہ دے چکا ہے اس لیے وہ اس درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے پر دلائل دیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے موکل نہ تو اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے اس لیے یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں ہے جس پر درخواست گزار ساجد محمود کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگرچہ عمران خان رکن اسمبلی نہیں ہیں لیکن ایک سیاسی جماعت کے سربراہ تو ہیں۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اس بارے میں بیان دینا چاہتے ہیں اور یہ عبوری بیان ہوگا۔

عدالت نے سلمان اکرم راجہ کی اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے عمران خان کو 27 جنوری سے پہلے جواب جمع کروانے کا حکم دیا اور عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ اس عبوری بیان کی کاپی درخواست گزار ساجد محمود کے وکیل کو بھی دے دی جائے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ابھی تو وہ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں دلائل دیں گے جس پر چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ’یہ آپ پر ہے کہ آپ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں دلائل دیتے ہیں اور یا پھر اس درخواست کے مندرجات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر دلائل دیں کیونکہ عدالت کسی کو بھی مجبور نہیں کر سکتی۔‘

یاد رہے کہ اس درخواست میں درخواست گزار کا موقف ہے کہ چونکہ عمران خان نے اپنی مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے اس لیے انھیں آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل کیا جائے۔

آئین کے اس آرٹیکل کے تحت کسی بھی رکن پارلیمان کی نااہلی عمر بھر کے لیے ہوتی ہے۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست میں ایک امریکی عدالت کی رولنگ کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان ٹیریئن وائٹ کے حقیقی والد ہیں۔

ماضی میں مسترد ہونے والی درخواست

یاد رہے کہ ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ عمران خان کے خلاف ایسی ہی ایک درخواست کو مسترد کر چکا ہے۔

اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ موقف اپنایا تھا کہ ایسی پٹیشن کو سنتے ہوئے اس بچی کے حقوق متاثر ہوں گے کیونکہ ایسی درخواست کی سماعت کے دوران بہت سے اسلامی نکات سامنے آئیں گے جو کہ میڈیا پر رپورٹ ہوں گے اور اس سے مذکورہ بچی کے حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ٹیریئن وائٹ خود آ کر اس ضمن میں عدالت میں درخواست دیں تو پھرعدالت اس معاملے کو سن سکتی ہے۔

قانونی ماہر اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ عدالت کی طرف سے گذشتہ چند ماہ کے دوران اس درخواست کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کرنا اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس معاملے کو نمٹانا چاہتی ہے۔

امجد شاہ کا کہنا تھا کہ اُن کی نظر میں عمران خان کے لیے اس درخواست کے باعث آئندہ آنے والے دنوں میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔

کیا یہ کیس عمران خان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے؟

عدالتی سماعتوں کے بیچ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور عمران خان کی حکومت مخالف مہم کے عروج پر اس معاملے کو ازسر نو کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل عابد ساقی کا کہنا ہے کہ اس کیس میں بظاہر قانونی پچیدگیاں کم اور سیاسی پچیدگیاں زیادہ ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’بدقسمتی سے سیاسی مقاصد  قانون کی آڑ میں حاصل کیے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔‘

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر ایسی باتیں عدالتوں میں نہیں آنی چاہییں اور نہ ہی عدالتوں کو ذاتی معاملات میں پڑنا چاہیے کیونکہ اس قسم کی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنا خود عدالتوں کے لیے بھی نیک نامی نہیں لے کر آتا۔

صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’ملک میں جاری سیاسی تناؤ میں ہو سکتا ہے کہ عمران خان اس معاملے میں نااہل ہو جائیں لیکن انھیں سیاسی طور پر کسی طور ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انتظامی اور عدالتی فیصلوں سے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ اٹھایا جائے لیکن عمران خان کے حمایتی اس فیصلے کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔‘

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’جس طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا لیکن اس فیصلے کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے حمایتیوں نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سنہ 50 کی دہائی میں بھی سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا گیا لیکن ایسے سیاست دانوں کو عوام کے دلوں سے نہیں نکلا جا سکا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں عدلیہ کا کردار بھی متنازع رہا ہے اور اب یہ تمام تر ذمہ داری پارلیمنٹ پر ہے کہ وہ اس بارے میں قانون سازی کرے یا کوئی ایسا طریقہ کار وضح کرے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیاست دان ایک دوسرے کی مخالفت اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے عدالتوں یا کسی ادارے کی طرف نہ دیکھیں۔‘

عمران خان

’لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ ایسی درخواستیں کہاں سے آتی ہیں‘

میانوالی سے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد خان کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ذاتی معاملات کو عدالتوں میں لے کر جا رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’رجیم چینج یعنی عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے بعد جس طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں، اس سے ایسے حربے استعمال کرنے والے عوام کے سامنے ایکسپوز ہو گئے ہیں۔‘

امجد علی خان کا کہنا ہے کہ ’لوگ سیاسی طور پر باشعور ہو چکے ہیں اور لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ ایسی درخواستیں کہاں سے آتی ہیں اور ایسے معاملات میں درخواست گزار کون ہوتے ہیں۔‘

درخواست گزار کون ہیں اور ان کا ’گمنامی‘ میں رہنا کیس پر کیسے اثرانداز ہو گا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف درخواست دینے والے ساجد محمود ابھی تک اس درخواست پر جتنی بھی سماعتیں ہو چکی ہیں اس میں پیش نہیں ہوئے۔

جب اُن کے وکیل سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ درخواست گزار کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس لیے درخواست گزار کا کمرہ عدالت میں حاضر ہونا ضروری نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ پہلی مرتبہ اس کیس میں پیش ہوئے ہیں اس لیے وہ درخواست گزار کے حوالے سے زیادہ نہیں بتا پائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ جب عدالت درخواست گزار کو طلب کرے گی تو وہ عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔

تحریک انصاف کے رہنما امجد علی خان کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ انھیں یا ان کی پارٹی کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ درخواست گزار کون ہے اور نہ ہی وہ درخواست گزار کے حوالے سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی درخواستیں عموماً ’دلوائی‘ جاتی ہیں اور دینے والے کم ہی سامنے آتے ہیں اور یہ امر اس چیز کا واضح اظہار ہے کہ اس کیس کا واحد مقصد ’کیچڑ اچھالنا‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے بھی اس قسم کی درخواستیں خود اسلام آباد ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن مسترد کر چکا ہے۔ ’توشہ خانہ میں بھی ایسے ہی کسی سے درخواست دلوائی گئی تھی، جس (درخواست گزار) کا آج تک نہیں پتہ چل سکا۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ انھیں نااہل کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’اس طرح کے معاملات کو عدالت میں نہیں جانا چاہیے‘

حکمراں اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن چوہدری بشیر ورک کا کہنا ہے کہ ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عمران خان ٹیریئن کو اپنی بیٹی تسلیم نہیں کر رہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب کوئی عوامی عہدہ رکھتا ہے تو اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور کسی بھی رکن پارلیمان کی ساکھ کو کوئی بھی شہری چیلنج کر سکتا ہے۔‘

بشیر ورک کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے معاملات کو عدالتوں میں نہیں جانا چاہیے اور اس وقت ملکی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس میں ایک دوسرے کے خلاف زیادہ سے زیادہ کیچڑ اچھالنے کو سیاسی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں اٹارنی جنرل کے عہدے پر رہنے والے سلمان اسلم بٹ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’بطور وکیل کسی پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی کہ فلاں بندے کی وکالت کر سکتے ہیں اور فلاں کی طرف سے پیش نہیں ہو سکتے۔‘

سیتا وائٹ کون تھیں؟

2004 میں امریکہ میں مقیم 43 سالہ برطانوی سیتا وائٹ کی موت ہوئی تو برطابوی اخبار دی مرر اور امریکی اخبار دی نیو یارک پوسٹ نے لکھا کہ وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ’عمران خان کی گرل فرینڈ تھیں‘۔ رپورٹ کے مطابق سیتا کے ہاں بیٹی (ٹیریئن وائٹ) پیدا ہوئیں جن کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا وہ عمران خان کی بیٹی ہیں۔

اخباری رپورٹس کے مطابق سیتا وائٹ کی موت کیلیفورنیا میں سانتا مونیکا کی یوگا کلاس کے دوران ہوئی تھی جو بیورلے ہلز میں ان کے شاندار مکان کے قریب واقع تھا۔

اخباری رپورٹس کے مطابق ان کی موت سے صرف چند ہفتے پہلے ہی انھیں آٹھ سال کی قانونی لڑائی کے بعد اپنے مرحوم باپ کی جائیداد سے ایک تصفیہ کے ذریعے تین ملین ڈالر کی رقم ملی تھی۔

سیتا وائٹ ایک یوگا سٹوڈیو میں قدیم ورزشوں اور روحانی مشقوں کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *