وطن کی محبت میں پاکستان لوٹنے والے دو ڈاکٹر

وطن کی محبت میں پاکستان لوٹنے والے دو ڈاکٹر

وطن کی محبت میں پاکستان لوٹنے والے دو ڈاکٹر: ’جو باہر نہیں جا سکتے ان کو کون سکھائے گا

سانپوں کے پیچھے بھٹکنا ویسے تو سپیروں اور جوگیوں کا کام ہے، لیکن پروفیسر ڈاکٹر مہتاب عالم ان کی تلاش میں کبھی سندھ کے ساحلی علاقوں تو کبھی صحرا اور میدانوں میں بھٹکتے رہے ہیں۔

انھیں ان زہریلے سانپوں کے زہر کی ضرورت ہے جن پر وہ تحقیق کر رہے ہیں۔ پاکستان میں وینم لیب یعنی زہر کی لیبارٹری بنانا اُن کا خواب ہے۔

دماغ روشن ہو اور آگے بڑھنے کی جستجو ہو تو کئی افراد کا اگلا قدم پاکستان سے باہر آباد ہونے کا ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر مہتاب عالم نے ابھی تک اُن پیشکشوں کو ٹھکرایا ہوا ہے۔

زہر سے علاج

ڈاکٹر مہتاب عالم بائیو کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ رکھتے ہیں، اور ان کی مہارت پروٹین کیمسٹری میں ہے۔

ڈاکٹر صاحب کو دلچسپی پاکستان کے زہریلے جانداروں میں ہے، جن سے وہ زہر کی کیسمٹری دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ بقول ان کے سانپ ہو، بچھو یا کن کھجورے، ان کے زہر کی کیسمٹری ابھی تک معلوم نہیں کی گئی ہے۔

’پوری دنیا میں اس وقت یہ اہم موضوع ہے کیونکہ زہر میں سے فارماسیٹوکل کمپاؤنڈ دریافت ہو رہے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں درد کی ادویات زہر سے بنائی جائیں گی، جیسے محاورہ ہے کہ زہر کو زہر مارتا ہے اس میں اینٹی کینسر کمپاونڈ، پین کلرز، خون کو پتلا کرنے والے اور چکنائی کم کرنے والے کیمکلز موجود ہیں۔‘

حیدر آباد اور اطراف میں کچھ ایسے مریض بھی سامنے آئے جن پر اینٹی بائیوٹکس ادویات بے اثر ہو چکی تھیں۔ ڈاکٹر مہتاب عالم کے مطابق پاکستان کے اس ریجن میں اینٹی بائیوٹکس کی مدافعت زیادہ ہو چکی ہے اسی وجہ سے یہ ادویات کام نہیں کر رہی ہیں، اس سلسلے میں جو زہر ہے وہ مکمل طور پر نئی دریافت ہے۔

سانپ

’یہ زہر پروٹین کے بنے ہوئے ہوتے ہیں جو نقصان دہ نہیں ہوتے جبکہ مارکیٹ میں جو اس وقت اینٹی بائیوٹکس دستیاب ہیں وہ جگر کو متاثر کر رہی ہیں۔ یہ ایک طرح کا قدرتی وسیلہ یا دوائی ہے، اس میں اینٹی بائیوٹک کے ساتھ اینٹی الرجی اور اینٹی ملیریا کمپاونڈ بھی شامل ہیں۔‘

پاکستان میں سہولیات کا فقدان

پاکستان میں اس وقت کہیں بھی وینم لیب موجود نہیں۔ تاہم اسلام آباد سمیت سندھ میں اینٹی وینم پر کام کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر مہتاب عالم نے کراچی میں محمد علی جناح یونیورسٹی میں ایک لیب بنائی ہے جہاں وہ اپنی پی ایچ ڈی اور ایم فل طالب علموں کے ذریعے تحقیق کرتے ہیں۔

لیبارٹری میں انھوں نے پانچ کوبرا سانپ سمیت سانپوں کی دیگر اقسام کا ہمارے سامنے زہر نکالا، کپڑے کے ایک تھیلے سے سانپ نکال کا راڈ سے اس کو پکڑا جاتا ہے پھر اس کے سر کو مضبوطی سے پکڑ کے انگوٹھے کی طاقت سے زور لگایا جاتا ہے، اور یہ زہر بیکر میں نکالا جاتا ہے جس کو چھوٹی چھوٹی ٹیوبز میں منتقل کر کے منفی 26 ڈگری سینٹی گریڈ پر محفوظ کیا جاتا ہے۔ اور بوقت ضرورت مختلف مشینری کے ذریعے ان کے پروٹین کی درجہ بندی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم بتاتے ہیں کہ پاکستان میں زہر کے حوالے سے ایک ڈر موجود ہے لیکن اس میں کئی ادویات کے فارمولے چھپے ہوئے ہیں۔

‘اس پر کسی نے کام ہی نہیں کیا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک بڑی ٹیم اور وسائل درکار ہیں، دوسرا یہ ایک خطرناک کام بھی ہے کیونکہ زہر کو جمع کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔‘

سانپ

جرمنی چھوڑ کر پاکستان آ گیا

ڈاکٹر مہتاب عالم نے کراچی یونورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنس سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ وہ جرمنی اور چین میں بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جرمنی میں بہت سارے مواقع تھے لیکن میں پاکستان واپس آیا کیونکہ پاکستان کی زہریلے جانوروں پر کام نہیں کیا گیا تھا۔ ہماری قوم کو اس شعبے میں سپیلائزیشن کی بھی ضرورت ہے، اس لیے میں جرمنی چھوڑ کر پاکستان میں آیا۔

’اگر سارے پڑھے لکھے لوگ پاکستان سے چلے جائیں گے تو یہاں تبدیلی کون لائےگا۔ ہمارے جو طالب علم باہر نہیں جا سکتے ان کو کون سکھائے گا، مجھے چین میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی پیشکش ہوئی۔ میں ووہان یونیورسٹی میں رہ کر آیا تھا۔ وہاں پر ہم پاکستان کے تمام بچھوؤں کی لائبریری بنا رہے تھے۔‘

ڈاکٹر مہتاب عالم ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی اور ’آزاد کشمیر یونیورسٹی‘ میں کام کر چکے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی ان کے پاس آسٹریلیا کا آپشن موجود ہے، دنیا میں سائنسدان پاکستان کے زہریلے جانوروں کی کیمسٹری معلوم کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ میں نےکسی کو پاکستان کا زہر نہیں دیا اس کی کیمسٹری ہم دریافت کریں گے۔

’میں نے پاکستان کے پیلے بچھوں پر کام کر لیا ہے اس میں سے اینٹی کینسر کمپاؤنڈ دریافت کر لیے ہیں یہ تحقیق ایک عالمی جریدے میں شائع ہو چکی ہے، جس میں جرمنی کی ٹیوبنگن یونیورسٹی سے اشتراک تھا جس میں پروفیسر ولٹا اور اولبرٹ کال باخر نے مدد فراہم کی اور یہ سکھایا کہ لیبارٹری میں کس طرح مصنوعی طریقے سے زہر بنایا جاسکتا ہے۔‘

زندگی کے آخری ایام کا لطف لیا نہ لوگوں کی خدمت کی

ڈاکٹر علی رضا میرجت 25 سال قبل مروجہ نظام سے ٹکرانے کے بجائے پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے، جہاں انھوں نے سائیکٹری میں ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی کیا اور وہاں ایک خوشحال اور خوشگوار زندگی گزاری لیکن ایک دن انھوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا اور ٹنڈو آدم کے قریب اپنے گاؤں واپس آ گئے اور ایک ہسپتال کی بنیاد ڈالی۔

وہ بتاتے ہیں کئی بزرگ دوست و احباب کی تدفین دیار غیر میں ہوئی ہے وہ زندگی کے آخری ایام کے مزا نہ لے سکے اور نہ ہی اپنی دھرتی اور لوگوں کی خدمت کر سکے، ہم چاہتے ہیں کہ اس دن سے بچیں اور خدا کی طرف سے یہ بیداری کی آواز ہے۔

’جس دھرتی پر ہم پیدا ہوئے پلے بڑھے کچھ اس کے لیے بھی وقف کریں وہ لوگ جو بیرون ملک آباد ہیں ان کےبچے جوان ہیں اور جس مقصد کے لیے وہ گئے تھے بچوں کی تربیت اور پڑھائی بھی ہوگئی اب انہیں لوٹنا چاہیے۔‘

نظام کے باغی

ڈاکٹر علی رضا میرجت

ڈاکٹر علی رضا میرجت نے لیاقت میڈیکل کالج جام شورو سے ایم بی بی ایس کیا اس سے قبل وہ طلبہ سیاست سے بھی وابستہ رہے۔ 1995 میں انھوں نے بطور ڈاکٹر محکمہ صحت میں ملازمت اختیار کی لیکن ان کا یہ تجربہ مثبت نہیں رہا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جوائننگ کے کچھ عرصے میں سات مرتبہ ان کا تبادلہ کیا گیا کیونکہ کبھی سیاست دان ناراض تو کبھی بیورو کریٹ رشوت طلب کرتے وہ اس نظام کے حصہ نہیں بن پا رہے تھے کیونکہ بقول ان کے وہ طبعیت کے باغی تھے۔

’میں نے اسپشلائزیشن کے لیے لندن میں کوشش کی اور میرا داخلہ ہوگیا اور میں ملازمت چھوڑ کر وہاں چلا گیا، ابتدائی دنوں میں کافی مشکل زندگی تھی کیونکہ فیس اور اخراجات زیادہ تھے میں اپنے بزرگوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔پھر صبح ہسپتال و یونیورسٹی اور شام کو پارٹ ٹائم ملازمت کرتا تھا۔‘

بھائی کی موت کے بعد واپسی

ڈاکٹر علی رضا میر جت کہتے ہیں کہ بڑے بھائی کی وفات نے انھیں سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ ان کے مطابق ان کے بڑے بھائی کو عارضہ قلب تھا انھیں کراچی کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا وہاں کنسلٹنٹ کا رویہ مایوس کن تھا۔

’بیرون ملک جب ہمارے پاس کوئی ایسے مریض آتے ہیں جس کو متعدد امراض ہیں یعنی مثلا یورولوجی کا مسئلہ ہے، نیفرولوجی یا کارڈیولوجی کا ہے تو مختلف شعبوں کے کنسلٹنٹ باہمی مشاورت سے مریض کی دیکھ بھال کرتے ہیں لیکن یہاں میں نے دیکھا ڈاکٹر ایک دوسروں کو مشورہ دینے کے لیے تیار نہیں اور ایک دوسرے سے خوف زدہ ہیں اس کے نتیجے میں میں نے اپنا بھائی گنوا دیا۔‘

ڈاکٹر علی رضا کے مطابق دو ڈاکٹر اس فیصلے پر اتفاق نہیں کر سکے کہ پیس میکر لگانا چاہیے یا نہیں، وہ جب آئی سی یو میں تھے تو وہاں ان کو انفیکشن ہو گیا۔ ہم نے بھرپور کوشش کی کہ وہ بچ جائیں آخری فیصلہ لے کر پیس میکر لگوایا لیکن بچ نہیں سکے۔

سانپ

بڑے شہروں سے دور بڑا ہسپتال

ڈاکٹر علی رضا میرجت اور ان کے ساتھیوں نے حیدرآباد سے کوئی ڈیڑہ سو کلومیٹر دور ٹنڈو آدم کے قریب گلوبل ہیلتھ کے نام سے ہسپتال قائم کیا ہے، گزشتہ ماہ شروع کیے گئے منصوبے میں اس وقت او پی ڈی مریضوں کو دیکھا جاتا ہے۔

بقول ڈاکٹر علی رضا تمام دوستوں کے ساتھ ذاتی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آچکا تھا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور تین ہم خیال ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ مقامی لوگوں کو بیرون ملک کے معیار کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ مشکلات سے بچ سکیں۔

“یہ کمرشل ہسپتال نہیں بلکہ ایسا ادارہ بنانا چاہتے ہیں جو اپنے پیروں پر خود کھڑا ہو اور پائیداری آئے، اس وقت میں اور میرے دوست اس کو جیب سے دس ملین روپے خرچہ کرچکے ہیں ۔ہمیں کسی اور کی مدد حاصل نہیں ہے۔ مریضوں سے دوسو روپے فیس چارج کرتے ہیں۔”

ٹنڈو آدم اور اس ہسپتال کے آس پاس کے علاقے کے مریضوں کو ماہرین کی مشاورت کے لیے حیدرآباد یا پھر کراچی جانا پڑتا تھا جس میں وقت اور پیسہ دونوں کا خرچہ زیادہ تھا، ڈاکٹر علی رضا کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ خواتین، بچوں، امراض قلب سمیت تمام شعبوں کے ماہرین یہاں آئیں اور رعایتی فیس پر مریضوں کو دیکھیں اس کے علاوہ انہوں نے بیرون ملک مقیم دوست ڈاکٹروں کی مدد حاصل کی ہے اور ٹیلی میڈیسن کی سہولیات بھی میسر ہے۔

ڈاکٹر علی رضا سے جب ان کی ہسپتال میں ملاقات ہوئی تو اس روز شدید گرمی تھی، جبکہ بجلی اور موبائیل سگنلز بھی لاپتہ تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ آرام دہ زندگی چھوڑ کر آنا بڑا مشکل ہوتا ہے اسی لیے لوگ انہیں کہتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب لیکن انہیں یقین ہے کہ وہ اس ادارے کو بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *