وزیر اعلیٰ  پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک

وزیر اعلیٰ  پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک

وزیر اعلیٰ  پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی آ گئی ، کیا پی ڈی ایم کے پاس نمبر پورے ہیں؟

عمران خان کی پنجاب اور  خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ کے اعلان کے بعد پی ڈی ایم گزشتہ رات اپنی حکمت عملی بھی سامنےلے آئی ہے۔

 ایک طرف گورنر نے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا تو دوسری جانب مسلم لیگ ن کی جانب سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی۔

کیا تحریک عدم اعتماد کے لیے پی ڈی ایم کے پاس نمبر پورے ہیں؟

اس کارروائی کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پی ڈی ایم کا ماسٹر  کارڈ تھا یا اس کے علاوہ بھی ان کے پاس کوئی نئی حکمت عملی موجود ہے؟ اس سوال پر جواب دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے حسن مرتضی کا کہنا تھا کہ ہم کوئی بھی ایسی چیز نہیں کر رہے جو آئین اور قانون کے مطابق نہ کی گئی ہو۔ ہم نے یہی مناسب سمجھا کہ تحریک عدم  لائی جائے۔ جہان تک رہ گئی بات پی ڈی ایم کی تو ہمارے علاوہ 99 فیصد اسمبلی اراکین چاہتے ہیں کہ اسمبلی تحلیل نہ ہو۔ یہ صرف عمران خان ہی ہیں جو یہ کرناچاہتے ہیں۔ جس میں ان کو کامیابی نہیں ہو گی۔

 جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر کی جانب اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے بلایا گیا اجلاس غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اجلاس کا گزٹ نوٹیفیکشن جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

 گزشتہ روز وزیر اعلی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے والے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے خواجہ عمران نذیر کا بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے سوچ سمجھ کر کیا جو بھی کیا ہے۔

کل رات جب گورنر کی جانب سے لیٹر لکھا گیا اور چوہدری پرویز الہی کو کہا گیا کہ آپ اعتماد کا ووٹ لیں تو اس کے ایک گھنٹے کے اندر اندر ہم نے تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی تھی۔

 یہ اس لیے کیا گیا کیونکہ جب کسی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جاتا ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے کارروائی سےپہلے ہی اسمبلی توڑ دے۔

اس کیس میں یہ خدشہ تھا کہ کیونکہ عمران خان اور چوہدری پرویز الہی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اسمبلی تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس لیے ہم نے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تاکہ وہ یہ نہ کر سکیں۔ جب کسی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوجاتی ہے تو اس کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

نمبر گیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے حسن مرتضی کا کہنا تھا کہ ہمارے نمبروں سے زیادہ یہ چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا چوہدری پرویز الہی کے نمبر پورے ہیں۔

ہم خاموشی سے سب کر رہے ہیں اس لیے اپنی کوئی بھی سٹریٹیجی واضع نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جو بھی کر رہے ہی اس میں ہمیں کامیابی ہو گی۔

 پہلے یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ لوگ ضمیر فروشی کرتے ہیں لیکن اس دفعہ سب دیکھیں گے کہ نہ تو ضمیر خریدے گئے ہیں نہ کسی نے بیچے ہیں۔ پارٹی اختلافات کےباوجود بھی پوری اسمبلی چاہتی ہے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہو۔

اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیاست نا ممکنات کا کھیل ہے۔ جس میں آصف علی زرداری اپنا کردار ادا کرکے چیزوں کو ممکن بنا رہے ہیں۔

دوسری جانب نمبر گیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے خواجہ نذیر چوہان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد تک بات تو بعد میں پہنچے گی۔

پہلے پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا جس کے لیے انھیں 186 کا نمبر چاہیے جو ان کے پاس نہیں ہے۔ ان کے ہی ایک ممبر اور سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب دوست مزاری ہیں جو انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ کیونکہ جس طرح انھیں مارا اور جیلوں میں ڈالا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ حکمران اتحاد کے کچھ ایم پی ایز ملک سے باہر ہیں جو سیشن میں موجود نہیں ہوں گے ۔

shujaat hussain, pervaiz elahi
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ چوہدری پرویز الہی پی ڈی ایم کے امیدوار ہوں

مستقبل میں کیا چوہدری پرویز الہی پی ڈی ایم کے وزیراعلی کے امید وار ہو سکتے ہیں؟

 گزشتہ کئی روز سے یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ چوہدری پرویز الہی کے مذاکرات پی ڈی ایم سے جاری ہیں۔ ان خبروں پرردعمل دیتے ہوئے تحریک انصاف چئیرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ چوہدری پرویز الہی کی جماعت ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی جماعتیں ہر کسی سے بات کرتی ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے نجی  چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ چوہدری پرویز الہی ہمارے امیدوار ہوں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے عمران نذیر کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں چوہدری شجاعت حسین مسلسل کام کر رہے تھے۔

دوسری جانب عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام رہنماؤں کا یہ موقف ہے کہ چوہدری پرویز الہی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ وہی کریں گے جو ان سے کرنے کا ہم کہیں گے۔

یہ معاملہ آنے والے دنوں میں کس طرف جائے گا؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے تجریہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ میں اس معاملے کو عدالت کے پاس جاتا دیکھ رہا ہوں۔ یہ بات توطے ہے کہ یہ فیصلہ اسٹبلشمنٹ نے کیا ہے کہ اور اس ملاقات کے بارے میں چوہدری پرویز الہی پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ مجھے کہا گیا ہے کہ اسمبلی نہیں توڑنی ہے۔

 پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دو صوبوں میں پہلے الیکشن کروائے گئے ہوں اور دو میں بعد میں۔ اس معاملے میں ایوان صدر کا کردار اہم ہے۔

 تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا تھا: ’’مجھے اسحاق ڈار نے بھی یہ بات بتائی ہے کہ جلدی الیکشن کے مطالبے پر دونوں فریقین کو سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ ایک دو ماہ حکومت کو چھوڑنے پڑیں گے اور چند ماہ پی ٹی آئی کو۔ اس لیے مجھے تو یہ الیکشن کامعاملہ جولائی میں کہیں نظر آرہا ہے۔‘

اس معاملے کو التو میں ڈالنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کروا کون رہا ہے۔

سلمان غنی نے یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی نے یہ پہلے ہی کہا ہے کہ ہم اسمبلی اس وقت تحلیل کریں گے جب پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔ اس لیے اس وقت کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوں۔ جہاں تک رہی بات پی ڈی ایم تو ان چیزیں پہلے طے کی گئی ہیں اور پھر کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس لیے ابھی تو یہ معاملے عدالت جائے گا۔

 جبکہ تجزیہ کار حبیب اکرم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ بےشک اس تمام سیاسی جماعتیں ہر اقدام کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہوں لیکن انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آنے والے عرصے میں سب کو الیکشن میں جانا ہوگا اور عوام اس وقت عمران خان کے ساتھ  ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *