نوے کی سیاست، قیادت کے بحران اور بیانیے

نوے کی سیاست، قیادت کے بحران اور بیانیے

نوے کی سیاست، قیادت کے بحران اور بیانیے میں اختلاف کا طعنہ: کیا نون لیگ کو حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے؟

چند ماہ پہلے تک سیاسی میدان میں دور کھڑی تحریک انصاف اب مسلم لیگ نون کو بظاہر کافی ٹف ٹائم دے رہی ہے اور چند سیاسی ماہرین کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس موقع پر مسلم لیگ ن کو روایتی طریقوں سے نکل کر ایک نئی اور تخلیقی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آئندہ عام انتخابات سے قبل مقابلے کے لیے اپنی صفوں کو درست کر سکے۔

گذشتہ چار ماہ میں ہونے والے سیاسی واقعات سے مسلم لیگ نون کا ووٹر تذبذب اور کنفیوژن کا شکار نظر آتا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق پارٹی نے گذشتہ حکومتوں میں ترقی اور استحکام کا جو بیانیہ قائم کر رکھا تھا اب اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ موجودہ حکومت آنے کے بعد سے مسلم لیگ ن عوام خصوصاً اپنے ووٹرز کو یہ پیغام دینے میں ناکام رہی ہے کہ شہباز شریف سے منسوب خوشحالی و ترقی کا ماڈل عملی طور پر عوام کو کوئی فائدہ پہنچا رہا ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کا غلبہ تھا لیکن اب پنجاب میں ضمنی الیکشن کے نتائج اور مختلف شہروں میں احتجاجی جلسوں سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی عوامی سطح پر بھی پہلے سے مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے۔

ضمنی الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ٹویٹر بیان میں کہا تھا کہ ’جہاں جہاں کمزوریاں ہیں، اُن کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔‘

ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن روایتی سیاست تک محدود ہو گئی ہے جس سے اُن کی عوامی حمایت میں کمی اور سیاسی جوڑ توڑ، الیکشن انجینیئرنگ میں اضافہ ہوا۔

سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ نئے تخلیقی اقدامات کی بجائے مسلم لیگ ن کیا ابھی تک نوے کی دہائی کی روایتی سیاست سے باہر نہیں نکل پا رہی؟

نوے کی سیاست ایک طعنہ کیوں؟

ن لیگ

حکومت ہو یا اپوزیشن، ہر سیاستدان کی تقریر اور تحریر میں ’نوے کی سیاست‘ کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ عموماً اسے 1988 سے 1999کے درمیان ہونے والے سیاسی واقعات سے جوڑا جاتا ہے۔

اگر ان برسوں میں ہونے والے واقعات کو سامنے رکھیں تو انتقامی سیاست، سیاسی جوڑ توڑ، جھوٹے مقدمے، پولیس اور مقامی انتظامیہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا، دھڑوں اور برادریوں کی سیاست، الیکشن میں دھاندلی، سیاسی جماعتوں میں فارورڈ بلاک بنانا، اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی، الزام تراشی، جیلوں میں سیاسی قیدیوں کا ہونا اور اسمبلیوں کا مدت پوری نہ کرنا جیسی مثالیں سامنے آتی ہیں۔

اور ان برسوں میں مسلم لیگ ن پاکستانی سیاست کی مرکزی کھلاڑی رہی ہے۔

اسی لیے سیاستدان ’نوے کی دہائی کی سیاست‘ کو ایک محاروے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے زور دیتے ہیں کہ اب اس طرز کی سیاست سے آگے نکلنا چاہیے۔

مسلم لیگ نون کی آئندہ کی حکمت عملی

آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف ایک مضبوط حریف بن کر مسلم لیگ ن کا سامنا کرے گی۔ اہم سوال ہے کہ کیا مسلم لیگ نون کی قیادت اپنی سیاسی حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت محسوس کرتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کن اُمور پر کام کیا جانا چاہیے؟

مسلم لیگ نون کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری اور سابق وزیر طلال چوہدری اس سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’ہر الیکشن میں جانے سے پہلے نئی حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور اصلاحات کی جاتی ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے ضرور حکمت عملی ازسر نو مرتب کی جائے گی۔‘

لیگ

طلال چوہدری کی رائے میں ’سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ الیکشن میں مسلم لیگ نون کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے۔ سب پر ایک جیسے قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ ہمارے ساتھ آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ اور توہین عدالت کی بنیاد پر پولیٹیکل انجینیئرنگ کی جاتی ہے جس کو ختم ہونا چاہیے۔ اگر اگلے الیکشن میں ہمیں سیاسی میدان میں یکساں مواقع نہیں ملیں گے تو مزید سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا۔‘

دوسری طرف سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن کو نئی حکمت عملی کی بالکل ضرورت ہے۔ انھیں حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے سیکھنا چاہیے اور از سر نو حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔ اگر یہ عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کرتے ہیں تو کیا یہ عوامی فلاح کے ایسے منصوبے لا سکتے ہیں جن سے عوام اُن کی طرف متوجہ ہو؟ اگر اب بھی اقتصادی متبادل نہیں تو ان کو آئندہ الیکشن میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

مسلم لیگ نون میں بیانیے کا اختلاف

مسلم لیگ نون میں بیانیے کے معاملے پر اختلاف کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ’ووٹ کو عزت دو اور عوامی بالادستی مسلم لیگ نون کا بیانیہ ہے اور آج تحریک انصاف اور عمران خان اسی بیانیے پر کھڑی ہے۔‘

’ہمیں بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ پانامہ درخواست سے لے کر نیب کی سزاؤں تک ہم گذشتہ چار پانچ سال میں اداروں کی عزت کی خاطر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیاں قبول کرتے رہے ہیں۔ ہم نے ان معاملات پر نرم رویہ رکھا جو آج ہماری کمزوری بنا ہوا ہے۔‘

شہباز

جبکہ ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق ’مسلم لیگ نون جب سے حکومت میں آئی ہے، ان کی کوئی مربوط پالیسی نہیں۔ مثال کے طور پر اگر عمران خان اپنے ساڑھے چار سال میں کچھ ڈیلیور نہیں کر سکے تو انھوں نے کیا کیا؟ یہ ابھی تک بہتر متبادل کے طور پر سامنے نہیں آئے۔ پارٹی کے اندر یکسوئی نہیں اور سوچ میں اختلافات ہیں۔‘

کیا یہ درست ہے کہ پارٹی میں بیانیے کے معاملے پر اندرونی اختلاف رائے موجود ہے جس کی وجہ سے واضح مؤقف نہیں اپنایا جا رہا؟ اس سوال کے جواب میں طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ’ہمارا بیانیہ مضبوط ہے اور ہمیں بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ پورا پاکستان یہاں تک کہ عمران خان ہمارے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے۔‘

مسلم لیگ نون: قیادت کا بحران

مسلم لیگ نون کے رہنما طلال چوہدری پارٹی کی مشکلات پر کچھ ایسے روشنی ڈالتے ہیں کہ ’ہم لیڈر کے بغیر لڑ رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے لیڈر کو نااہل رکھ کر سیاست سے دور رکھا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہمیں حکومت ملی ہے جس میں مشکل ترین اقتصادی حالات اور مشکل ترین اتحادی ہیں، اس طرح ہمیں مشکل ترین سیاسی و معاشی حالات کا سامنا ہے۔ ہم نے حکومت میں آ کر ایسے فیصلے کیے جن کا مقصد سیاست نہیں پاکستان بچانا تھا۔ مشکل معاشی فیصلوں اور منحرف ارکان کو ٹکٹ دینے کو ہمارے کارکنوں نے ضمنی انتخابات میں قبول نہیں کیا۔ اس کے باوجود ابھی بھی ہم پنجاب میں پیچھے نہیں۔‘

دوسری جانب ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اسے یکسر مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق ’مسلم لیگ نون کے اندر قیادت میں یکسوئی نہیں۔ لیڈ کون اور کس طرح کرے گا اس پر اختلافات موجود ہیں اور ابھی تک اس کا حل نہیں سامنے آیا۔ مریم نواز ایک طرف اور کئی دوسرے اہم رہنما دوسری طرف ہیں۔ اندرونی طور پر قیادت کا بحران موجود ہے۔‘

مسلم لیگ نون کی پہچان: نظریات یا مفادات

ویسے تو مسلم لیگ تقسیم برصغیر سے پہلے سے قائم شدہ سیاسی جماعت ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد ہر دور میں اس کے حصے بخرے ہوتے رہے۔ زیادہ تر فوجی حکمرانوں نے اس کے نام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ نوے کی دہائی میں اسے دائیں بازو کی جماعت جبکہ پیپلز پارٹی کو بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظریاتی تقسیم بھی کمزور پڑتی گئی۔

سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق ’موجودہ دور میں مسلم لیگ دوہری مشکل کا شکار ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کی شناخت کبھی بھی نظریاتی طور پر مضبوط پارٹی کے طور پر نہیں رہی بلکہ اسے نظریاتی طور پر کمزور پارٹی سمجھا جاتا تھا۔‘

ڈاکٹر رضوی کے خیال میں مسلم لیگ نون نظریات سے زیادہ مفادات پر چلتی رہی ہے۔ گذشتہ پانچ سات برسوں میں تحریک انصاف کے سامنے آنے کے بعد اب چونکہ لیڈر شپ کے نظریات بھی واضح نہیں اور دوسری طرف مفادات کا تحفظ بھی نہیں ہو رہا، اس لیے مسلم لیگ ن کی مشکلات دگنی ہو گئی ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *