ناسا کا انسان کو چاند پر بھیجنے کا منصوبہ

ناسا کا انسان کو چاند پر بھیجنے کا منصوبہ

ناسا کا انسان کو چاند پر بھیجنے کا منصوبہ تکنیکی مسائل کی وجہ سے معطل

امریکی خلائی ایجنسی اپنے نئے راکٹ کی چاند پر روانگی تکنیکی مسائل کی وجہ ملتوی کر دی ہے۔

ناسا 50 سال بعد ایک بار بھر انسان کو چاند پر بھیجنے کی تیاریاں کر چکا تھا اور راکٹ کو مقامی وقت کے مطابق 08:33 (12:33 GMT؛ 13:33 BST) پر کینیڈی سپیس سینٹر سے خلا میں روانہ ہونا تھا لیکن آخری مراحل پر تکنیکی مسائل کی وجہ سے اس روانگی کو مؤخر کر دیا گیا ہے۔

ناسا انجینیئروں نے کئی تکنیکی مسائل کو حل کرنے کی سر توڑ کوشش کی جن میں انجنوں میں مطلوبہ اور یکساں ٹمپریچر مہیا کرنا شامل ہے۔ انجینیئر راکٹ میں اوپر کی جانب ایک شگاف سے متعلق بھی پریشان تھے لیکن معائنے سے معلوم ہوا کہ وہاں برف جمی ہوئی تھی جو دیکھنے میں شگاف لگ رہی تھی۔

ایس ایل ایس ناسا کی تیار کردہ اب تک کی سب سے طاقتور گاڑی ہے، اور یہ اس کے آرٹیمس پروجیکٹ کی بنیاد ہوگی، جس کا مقصد 50 سال کی غیر موجودگی کے بعد لوگوں کو چاند کی سطح پر واپس لانا ہے۔

ناسا کا منصوبہ یہ ہے کہ زمین سے دُور اورین نامی ٹیسٹ کیپسول کو بھیجا جائے۔

یہ خلائی جہاز چھ ہفتوں کے عرصے میں بحر الکاہل میں واپس آنے سے قبل ایک بڑے قوس پر چاند کے گرد چکر لگائے گا۔

اورین بغیر کسی شخص کے اس مشن پر جائے گا لیکن یہ فرض کیا گیا ہے کہ تمام ہارڈ ویئر بالکل اسی طرح کام کر رہے ہیں جس طرح انھیں کرنا چاہیے۔ تاہم خلاباز سنہ 2024 سے شروع ہونے والے مستقبل میں مزید پیچیدہ مشن کی سیریز کے لیے خود خلا میں ایسی گاڑیوں میں سوار ہوں گے۔

ناسا کے خلاباز رینڈی بریسنک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہر وہ چیز جو ہم اس آرٹیمس ون فلائیٹ کے ساتھ کر رہے ہیں، ہم اس بات کو دیکھ کر کر رہے ہیں کہ ہم کیا ثابت کر سکتے ہیں، جو آرٹیمس ٹو کے عملے کے مشن کے لیے خطرہ کم کر دے گا۔‘

امریکی خلائی ایجنسی کے پاس اگلے ہفتے ایس ایل ایس-اورین کو اڑانے کے کئی مواقع ہیں، لیکن وہ اس آپشن پر فوری طور پر عمل کرنا چاہے گی۔

سال کے اس وقت فلوریڈا میں موسم بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، سپیس پورٹ کے اُوپر سے اکثر برقی طوفان گزرتے ہیں۔

درحقیقت پیڈ کے بجلی کے ٹاور حالیہ دنوں میں کئی بار ٹکرا چکے ہیں۔

صبح سویرے وہ وقت ہوتا ہے جب حالات عام طور پر سب سے پُرسکون ہوتے ہیں، جو پیر کو اڑان بھرنے کے لیے بہترین دن بنا دیتا ہے۔

ماہر موسمیات میلوڈی لوون کے مطابق ‘بنیادی طور پر لانچ ونڈو کا آغاز یا صبح 08:30 کے بعد موافق موسم کا 80 فیصد امکان ہوتا ہے۔‘

تاہم اگر تکنیکی مسائل اس راکٹ کی پرواز کو اس کے مقررہ وقت سے دو گھنٹے تاخیر کا باعث بنتے ہیں تو بارش کی وجہ سے اس کا امکان 60 فیصد تک رہ جاتا ہے۔ بارش میں راکٹ کو پرواز بھرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ناسا

تـجزیہ: روبیکا موریل

سائنس ایڈیٹر

کیا آرٹیمس نئی نسل کے لیے اپولو کی حیثیت رکھتا ہے؟

سنہ 1969 میں جب نیل آرمسٹرانگ اور بز ایلڈرین نے چاند پر اپنے قدم رکھے، تو انھوں نے خلائی تحقیق کے سنہری دور کا آغاز کیا۔

اپولو پروگرام نے ہمیں اپنے سیارے اور اپنے آپ کو دیکھنے کے طریقوں کو بدل دیا۔ اب، 50 سال بعد، ایک بار پھر چاند کی تسخیر انسان کا ہدف بن چکا ہے۔ اور ان لوگوں کے لیے جنھوں نے اپولو مشن کو خود کبھی نہیں دیکھا، امید ہے کہ آرٹیمس نئی نسل کو متاثر کرے گا۔

نئے مشن مختلف ہوں گے۔ ناسا پہلی خاتون اور پہلے غیر سفید فام شخص کو چاند پر اتارنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ خلائی تحقیق سب کے لیے اوپن ہے۔ اور چاند کی سطح صرف اس مشن کا آغاز ہے۔ ناسا کے ارادے اس سے بھی وسیع ہیں۔ ناسا کی نگاہیں مریخ پر مرکوز ہیں۔ اور یہ واقعی تجربہ کرنے کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہو گی۔

توقع ہے کہ دو لاکھ سے زیادہ افراد کینیڈیک سینیٹر کے آس پاس کھڑے ہوں گے۔ اب لوگوں کے درمیان اس پرواز کے بہترین نظارے والی جگہ تک پہنچنے کا مقابلہ ہے۔

چاندپر جانے والی گاڑی کی اڑان شاندار ہونی چاہیے۔

ایس ایل ایس پیڈ سے 39.1 میگانیوٹن (8.8 ملین پاؤنڈ) تھرسٹ کے ساتھ اُڑے گی۔ یہ سنہ 1960 اور 70 کی دہائیوں میں اپولو کے خلابازوں کو چاند پر جانے والے سیٹرن فائیو راکٹوں سے 15فیصد کے قریب ہے۔

دوسرے طریقے سے دیکھیں تو ایس ایل ایس انجن ٹیک آف پر تقریباً 60 کانکورڈ سپرسونک جیٹ طیاروں کے برابر طاقت دے سکتے ہیں۔

ناسا

کینیڈی کے ایک بڑے کنٹریکٹر جیکبز سپیس آپریشنز گروپ کی نائب صدر لورنا کینا کا کہنا ہے کہ ‘یہ راکٹ اس سے بڑا، بلند اور زیادہ متاثر کُن ہوگا، جو آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا ‘۔

اس کی پرواز کے وقت خاموشی کا کوئی تصور نہیں ہو گا۔۔ نہ صرف اس کی بلند آواز ہو گی بلکہ ایسی ہو گی کہ لوگ دھل جائیں گے۔

مشن کا بنیادی مقصد دراصل آخر میں آتا ہے۔

انجینئر یہ دیکھنے کے لیے سب سے زیادہ فکر مند ہیں کہ اورین کی ہیٹ شیلڈ اس انتہائی درجہ حرارت کا مقابلہ کرے گی، جس کا سامنا زمین کے ماحول میں دوبارہ داخلے پر ہو گا۔

اورین بہت تیزی سے پرواز کرے گی یعنی 38,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار (24,000 میل فی گھنٹہ)، جو آواز کی رفتار سے 32 گنا زیادہ بنتی ہے۔

ایرو سپیس مینوفیکچرر لاک ہیڈ مارٹن کے اورین پروگرام مینیجر مائیک ہیوز نے کہا کہ ‘یہاں تک کہ مضبوط کاربن۔کاربن جس نے شٹل کو محفوظ کیا، وہ صرف 3,000 ڈگری فارن ہائیٹ (1,600C) کے لیے اچھا تھا۔‘

‘اب، ہم 4,000 ڈگری (2,200C سے زیادہ) پر آ رہے ہیں۔ ہم ایوکوٹ نامی اپولو کو ختم کرنے والے مواد پر واپس چلے گئے ہیں۔ یہ ایک خلا کو بھرنے والے بلاکس میں ہے، اور اس کی تحقیق کرنا ایک اعلیٰ ترجیح ہے۔

ناسا

یہ پرواز نہ صرف ناسا کے لیے بلکہ یورپی خلائی ایجنسی کے لیے ایک بڑا لمحہ ہے۔

اس نے اورین کے لیے سروس ماڈیول فراہم کیا ہے۔ یہ پچھلا حصہ ہے جو کیپسول کو خلا میں دھکیلتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی شراکت ہے، جس کی یورپ کو امید ہے کہ اس کے شہریوں کو چاند کی سطح کے مستقبل کے سفر میں شامل کیا جائے گا۔

فی الحال آرٹیمس IX تک کے مشنز کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

اس مرحلے تک خلابازوں کے استعمال کے لیے چاند پر رہائش اور گھومنے والی گاڑیاں ہونی چاہئیں۔

لیکن بالآخر، آرٹیمس کو لوگوں کو مریخ تک پہنچانے کے لیے ایک قابل بھروسہ مشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے کہا کہ ‘اس کا ٹائم ٹیبل صدر اوباما نے طے کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ سنہ 2033 ( میں مریخ کے لیے پرواز بھرے گا)‘

ان کے مطابق ‘ہر انتظامیہ نے اس پروگرام کی حمایت کی ہے اور حقیقت پسندانہ ٹائم فریم جس کے بارے میں مجھے اب مطلع کیا گیا ہے وہ سنہ 2030 کی دہائی کے آخر میں ہے، شاید 2040 میں ہو گا۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *