میانمار کا دارالحکومت نے پی دا ایسا شہر

میانمار کا دارالحکومت نے پی دا ایسا شہر

میانمار کا دارالحکومت نے پی دا ایسا شہر جسے بسانے کے لیے وہاں کے بھوتوں کو ٹرکوں میں بٹھا کر باہر بھیجا گیا

برمی فوج کے کپتان آنگ کھنت اپنی گلابی رنگ کی کرسی میں آرام سے بیٹھے ہیں۔ 40 برس کی عمر میں وہ ایک پرکشش آدمی تھے جن کا فوجی ریکارڈ بھی ٹھیک تھا۔ میری ابھی ابھی ان سے ملاقات ہوئی تھی اور فوراً ہی ان کی شخصیت کے بارے میں تجسس کا شکار ہو گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا ’ووپی گلوڈبرگ جیسے بعض لوگ ہوتے ہیں جو بھوتوں کے قریب ہوتے ہیں۔‘

یہ بات کہتے ہوئے اُنھوں نے مسکراتے ہوئے اپنی سگریٹ نکالی اور میرے ردعمل کا اتنظار کرنے لگے۔

’وہ عام لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر خصوصی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ وہ بھوت پریتوں کو بتا سکتے ہیں کہ اب جانے کا وقت ہوگیا ہے۔‘

میں نے اپنے ترجمان سے تصدیق کہ کیا کہ وہ واقعی فلم اداکار ووپی گولڈبرگ کی بات کر رہے ہیں۔ اس نے کہا جی ان ہی کی بات کر رہے ہیں۔ اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ کیپٹن کھنت ہالی ووڈ کی فلم ’گھوسٹ‘ کے مداح ہیں جس میں اداکارہ ووپی گولڈبرگ نے بھوت کا کردار ادا کیا ہے۔

میں میانمار کے دارالحکومت نی پی دا اس لیے آیا تھا تاکہ میں کیپٹن کھنت سے مردہ روحوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے سے متعلق لاجسٹکس یا عمل کے بارے میں معلومات حاصل کر سکوں۔ یہ ایک ایسا عمل جو قدم برما کے روحانی عقیدوں پر مبنی ہے۔

ہم ایک سون سان کیفے کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں پپیتے کا جوس پی رہا تھا اور کیٹن کھنت پانی پی رہے تھے۔ ہمارے بالکل قریب ایک بڑے سے نالے نما آبی گزر گاہ تھی جو گرم ہوا کو ٹھنڈا کرتی تھی اور اس آبی گزر گاہ کے کنارے پر نارنگی رنگ کے املی کے پیڑ لگے ہوئے ہیں۔

نے پی دا کا لفظی ترجمہ ہے ’راجاؤں کا گھر‘ — یہ شہر میانمار کے کسی بھی شہر سے جدا ہے۔ یہ بہت بڑا ہے اور آبادی بہت زیادہ نہیں ہے۔ گلیوں میں بہت کم ٹریفک ہے اور یہاں دیکھنے کے لیے بہت زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ماہرین اکثر اس شہر کو ’بھوتوں کا شہر‘ کہتے ہیں لیکن مقامی عقیدوں کے مطابق اصلیت اس سے بھی عجیب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر نے پی دا بھوتوں کا شہر ہے تو یہ ایسا بھوتوں کا شہر جس میں بھوت ہیں ہی نہیں۔

نے پائی تا
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ نے پی دا بھوتوں کا ایسا شہر ہے جہاں بھوت ہیں ہی نہیں

میانمار کے دارالحکومت کو باقاعدہ طور پر 2006 میں رنگون سے نے پی دا منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس منتقلی کی متعدد ملی جلی وجوہات بتائی گئی تھیں جن میں بعض سیاسی خود غرضیوں کے علاوہ یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ چونکہ رنگون سمندر کے قریب ہے تو وہاں بیرونی حملے کا خدشہ ہے اور یہ بھی کہ ملک کے سابق سربراہ تھان شو کو نجومیوں نے بتایا تھا کہ اگر داراحکومت کو منتقل نہیں کیا گیا تو ان کی حکومت گر جائے گی۔ رنگون جس پر نوآبادیاتی ماضی کے بھوتوں کے سائے تھے اس کے برعکس نے پی دا ایک صاف ستھری سلیٹ کی طرح تھا۔

یہی وجہ تھی کہ میں کیپٹن کھنت سے ملاقات کرنے آیا تھا۔ سنہ 2010 میں اُنھیں ٹٹکون نامی شہر میں (وہ شہر جہاں نے پی دا بسا ہے) ایک قبرستان کو مزید ترقیاتی کاموں کے لیے صاف کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ حکومت کا منصوبہ تھا کہ وہ قبرستان کے مقام پر ایک بودھ عبادت گاہ اور ضلعی عدالت کی عمارت تعمیر کرے لیکن یہ سب کرنے سے پہلے اسے قبرستان کو دوسرے مقام پر منتقل کرنا تھا۔

میانمار میں قبرستانوں کی منتقلی ایک متنازع معاملہ ہو سکتا ہے اور وہاں دفن مردہ افراد کے رشتے دار اپنے پیاروں کو قبر سے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرنے پر ناراض ہوتے ہیں۔

یہ 2010 کی بات ہے۔ اس کے ایک برس بعد ہی ملک پر نصف صدی تک حکمرانی کرنے والے فوجی اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ ٹٹکون کے عوام قبرستان کی منتقلی سے ناراض تھے لیکن کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ ٹٹکون سے تعلق رکھنے والے ایک شہری کا کہنا تھا، ’اس وقت فوجی اقتدار ہے۔ ان کے دور میں ہم احتجاج نہیں کرتے۔‘

اس قبرستان کو منتقل کرنے میں ایک اور خطرہ تھا۔ قبرستان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ وہاں رہنے والے بھوتوں کو وہاں سے منتقل کیا جائے۔ ٹٹکون کے قبرستان میں رہنے والے بھوت خاص طور پر بہت پریشان کرتے تھے۔

میانمار کے بودھ مذہب کی ماہر سکالر بینیڈکٹ براک دا لا پیئر نے مجھے بتایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ٹٹکون میں جاپانی فوجیوں کو دفنایا گیا تھا اور برمی عقیدے کے مطابق جن لوگوں کی موت تشدد کے نتیجے میں ہوتی ہے وہ ’ایسی روحانی باقیات بناتے ہیں جنھیں جنازے کبھی پوری طرح سے آزاد نہیں کر سکتے۔‘

میانمار
میانمار میں قبرستانوں کی منتقلی ایک متنازعہ معاملہ ہوسکتا ہے

اس لیے ٹٹکون میں قبرستانی کو ہٹانا ایک خطرناک کام تھا۔ کیپٹن کھنت کا کہنا تھا ’ہمیں بھوتوں سے خوف تھا۔ اگر وہ منتقل نہیں ہونا چاہتے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں اور پھر وہ مقامی رہائشیوں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔‘

کپتان کھنت نے مجھے بتایا کہ اُنھوں نے مردوں کو شہر کے باہر ایک نئے قبرستان میں منتقل کر دیا۔ اس کے بعد وہ مسکراتے ہیں اور بتاتے ہیں ’قبروں کو منتقل کرنے کے بعد حکومت نے بھوتوں کو منتقل کرنے کے لیے ٹرک منگائے۔ اُنھوں نے بھوت پریتوں کو سمجھنے والے ایک عالم یعنی نتسایا کو بلایا جنھوں نے بھوتوں کی منتقلی اور اور بھوتوں کو ٹرکوں میں بٹھانے میں مدد کی۔ 12 ٹرک تھے اور یہ ٹرک ایک دن میں تین تین چکر لگاتے تھے۔‘

12 ٹرک اگر ایک دن میں تین بار بھوتوں کو منتقل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے 108 چکر لگائے گئے۔ یہ نمبر بودھ شماریات میں مبارک سمجھا جاتا ہے۔

بودھ مذہب کی اہم علامت گوتم بودھ کے پیروں کے نقش پر روایتی طور پر 108 پاک نشانات بنے ہوئے ہیں۔

کیپٹن کھنت نے یہ بھی بتایا، ’کم از کم 1000 قبریں تھیں جن کو منتقل کیا گیا اور ہر ایک ٹرک پر 10 بھوت سوار تھے۔‘

مجھے نہیں معلوم کہ ایک وقت میں آپ ایک ٹرک میں کتنے بھوتوں کو بٹھا سکتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ تعداد 12 سے زیادہ ہونی چاہییں۔ لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ برمی سماج میں بھوتوں کا وجود مبہم اور غیر ضروری نہیں ہے۔ جو ان بھوتوں کو دیکھ سکتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان بھوتوں کی لمبائی دو میٹر سے زيادہ ہے۔ وہ نڈر اور لمبے چوڑے ہوتے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے کان، نوکیلے دانت اور لمبی لمبی زبانیں ہوتی ہے۔

براک دا لا پیئر نے مجھے بتایا کہ اس طرح کی کہانیاں بہت عام ہیں۔ 1990 کی دہائی میں ایک رسرچ پروجیکٹ کے دوران اُنھوں نے رنگون میں ایک قبرستان کو ہٹائے جانے سے متعلق اس طرح کی کہانیاں سنی تھیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہاں کے بھوت ٹرکوں کے انجنوں میں پریشانیاں پیدا کر رہے تھے۔ ’ٹرک خود بہ خود رک رہے تھے اور خود بہ خود چل رہے تھے اور ٹرک کے ڈرائیور خوف زدہ تھے۔ مردے اپنی منتقلی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔‘

کیپٹن کھنت نے مجھے بتایا کہ نے پی دا میں بھوت اس لیے لڑ رہے تھے کیونکہ اُنھیں آگے کی سیٹ میں بیٹھ کر سفر کرنا تھا اور جب وہ قابو سے باہر ہوگئے تو اُنھیں قابو کرنے والے عالم یعنی نتسایا نے مداخلت کی اور اُنھیں پیچھے کی سیٹ میں بٹھایا۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ جب ٹرک بھر گیا تو ان کا چلانا مشکل ہوگیا۔ ٹرک نرم زمین پر دھنس رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’بھوت بہت بھاری ہوتے ہیں۔‘

تین دن کے بعد منتقلی کا کام مکمل ہوا۔ لیکن سب کچھ بہت آسانی سے نہیں ہوا۔ جس دن منتقلی کا کام مکمل ہوا اسی رات کیپٹن کھنت کے اسسٹنٹ کو خواب آیا کہ تین بھوت ان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ قبرستان میں ہی رہ گئے ہیں۔ اگلے دن کیپٹن کھنت قبرستان گئے اور اُنھوں نے دیکھا کہ ایک جھاڑی کے نیچے تین قبریں تھیں۔

ایک مزامحت پسند بھوت نے وہاں سے ہلنے سے انکار کردیا۔ وہ کیپٹن کھنت کے اسسٹنٹ کی کار لے کر چلا گیا اس نے علاقے میں چھوٹی موٹی آفات کھڑی کیں۔ ایک جگہ ایک بلڈوزر کھڑا تھا وہ ٹوٹ گیا۔ نے پی دا کی ڈویلپنگ کمیٹی کے ہاؤسنگ کمپاؤنڈ میں ایک بلی رہتی تھی جو اچانک مر گئی۔ اسسٹنٹ نے بتایا کہ بھوت اسے رات میں اسے کے بستر سے دکھائی دے رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد کیپٹن کھنت نے ایک عالم کو بلایا جس نے بودھ منتر پڑھے اور اس کے بعد ان بھوتوں کو قابو کیا۔

نے پائی تا
میانمار میں بھوتوں کی کہانیاں بہت عام ہیں

کیپٹن کھنت اب اس عالم کے رابطے میں نہیں ہیں جس نے بھوتوں کی منتقلی میں ان کی مدد کی تھی، لیکن میرے مترجم نے مجھے بتایا کہ وہ ایسے ہی ایک اور عالم کو جانتا ہے جس نے بڑے پیمانے پر بھوتوں کو بھگانے کا عمل انجام دیا تھا اور وہ ان سے میری ملاقات کروائے گا۔

میں نے کیپٹن کھنت کا شکریہ ادا کیا اور ان کو الوداع کہا۔ جب کیپٹن کھنت جا رہے تھے تو ان کے چہرے پر اپنے کام کو صحیح طرح سے انجام دینے کا سکون تھا۔

اگلے دن یو نین لا شو میرے ہوٹل میں مجھ سے ملنے آئے۔ سفید بالوں والے 60 سالہ عالم نے سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی اور بہت سلیقے سے لنگی باندھی ہوئی تھی جسے میانمار میں سارونگ کہتے ہیں۔ وہ ایک نجومی کے طور پر کام کرتے تھے اور ان کے بزنس کا سلوگن تھا ’بیلیونگ از سینگ‘ یعنی جو یقین ہوتا ہے وہی نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن پر یہ الفاظ خواب میں نازل ہوئے تھے۔

یو نین لا شو دارالحکومت نے پی دا کے قبرستانوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ وہ شہر کے قبرستانوں میں مراقبہ کرنے کے عادی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ما فائی وا کے مرید تھے یہ وہ روح ہے جو کفن لے جانے کا کام کرتی ہے۔ وہ اکثر ان کے پاس آتی ہیں اور ان سے پوچھتی ہیں کہ اُنھیں کیا چاہیے۔ ایک دوسرے سے ان کا بہت اچھے تعلقات تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا ’وہ بورڈ کی چیئرمین ہیں۔ وہ میانمار کے قبرستانوں میں جتنی روحیں ہیں ان سب کی سربراہ ہیں۔ وہ بہت صاف ستھری اور بے حد خوبصورت ہیں۔‘

اُنھوں نے ٹٹکون میں بھوتوں کی منتقلی ہوتے ہوئی دیکھی ہے۔ اُنھوں نے روحوں کو ٹرکوں میں بھرے جاتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طرح سے بھوتوں کے وزن سے ٹرک ریت میں پھنس گیا تھا۔

جب ان بھوتوں کی منتقلی انجام دینے والے عالم نے بھوتوں سے نیچے اترنے کے لیے کہا تو یو نین لا شو نے دیکھا کہ ٹرک خود بہ خود چلنے لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ قبرستان میں ایک الگ قانون ہے۔ وہ ایسا قانون ہے جسے صرف ایک عالم سمجھ سکتا ہے۔ صرف روحوں کو سمجھنے والا ہی زندہ اور مردہ لوگوں کی دنیا کے درمیان کچھ مصالحت کر سکتا ہے۔

اور اسی لیے جیسا کہ براک دے لا پیئر کا کہنا ہے کہ اس سے ان لوگوں کو کچھ آزادی یا یہ کہیں کچھ سکون ملتا ہے جو تشدد کے نتیجے میں اس دنیا سے چلے گئے۔

نے پی دا میں اپنے قیام کے آخری روز میں نے ایک موٹر سائیکل کرائے پر لی اور شہر کو دیکھنے نکل گیا۔ میں آٹھ لین والے ہائی وے پر گیا۔ میں نے اپنے ریئر ویو شیشے سے اکا دکا کاریں دیکھں جو میرے بہت قریب تھیں اور مجھے چھوڑ کر آگئے نکل گئیں۔

لیکن بیشتر اوقعات میں ہائی وے پر اکیلا ہی تھا۔ میں نے گھنٹوں بائیک پر سفر کیا اور راستے میں جگہ جگہ خانقاہوں اور مندروں میں رکا۔ ایک بار جب اندھیرا ہو گیا اس کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ہوٹل سے تقریبا 10 کلومیٹر دور مجھے یہ احساس ہوا کہ میری موٹر بائیک میں پیٹرول کم ہے۔ نے پی دا کی سڑکوں پر سورج غروب ہونے کے بعد ایک عجیب سا سناٹا ہوتا تھا۔

اتنے دنوں تک بھوت پریتوں کی باتیں کرنے اور ان سے متعلق قصے کہانیاں سننے کے بعد یہ سوچ کر میں کانپ گیا کہ کہیں میری موٹر بائیک اس سنسان سڑک پر رک نہ جائے۔ یہ سوچ کر بھی مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ اس خالی اور خاموش ہائی وے پر میں اپنی بائیک گھسیٹ رہا ہوں اور میری واحد ساتھی رات کی ٹھنڈی ہوا ہے۔

لیکن پھر میں نے اپنے آپ کو دلاسا دیا کہ سب ٹھیک ہے اور کیپٹن آنگ کھنت نے یہ سب دیکھا ہے۔ بغیر بھوتوں والے بھوتوں کے اس شہر میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *