مچھاپوچھارے نیپال کی ’مقدس کنواری‘

مچھاپوچھارے نیپال کی ’مقدس کنواری‘

مچھاپوچھارے نیپال کی ’مقدس کنواری‘ چوٹی جسے سر کرنا قانونی طور پر جرم ہے

مجھے ایک بار گرمی کے موسم میں ایک بس کی کھڑکی سے نظر آنے والا وہ منظر یاد ہے جسے دیکھ کر میں مبہوت رہ گئی تھی۔

وہاں سے چٹانوں اور برف کا ایک بڑا سا لیکن دھندلا مثلث نما پہاڑ نظر آ رہا تھا جو کہ نیپال کی پوکھرا وادی کے عقب میں اپنی شاہانہ شان کے ساتھ کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ بادلوں کی ٹکڑی میں گھرا نظر آیا۔

ایک بھرے پرے شہر کے عقب میں افق پر اس قدر بلند اور نمایاں چوٹی کو دیکھنا ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں ایک نایاب منظر تھا۔ اور میں کہہ سکتی ہوں کہ انڈیا اور نیپال میں ہمالیہ کی کوہ پیمائی کے دوران اپنے ایک دہائی لمبے کریئر میں ایسا منظر میں نے نہیں دیکھا۔

میں خوش تھی کہ اس گریزاں خوبصورتی کی جھلک دیکھنے کے لیے مجھے کئی دنوں تک کوہ پیمائی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے تو صرف بس میں بیٹھنا تھا۔

جس پہاڑ نے نادانستہ طور پر میرے تخیل کو اپنی گرفت میں لے لیا وہ نہ تو ایورسٹ تھا اور نہ ہی ملک کی سات دیگر چوٹیوں میں سے کوئی تھا، وہ چوٹیاں جو آٹھ ہزار میٹر یا اس سے زیادہ بلند ہیں۔ یہ ایک نسبتاً کم بلندی والی چوٹی ہے جس کی اونچائی آسانی سے اس کی خوبصورتی کو چھپا لیتی ہے۔

پتہ چلا کہ میں اس کی خوبصورتی کے سحر میں مبتلا ہونے والی تنہا فرد نہیں تھی۔ دہائیوں قبل ایک اور شخص بھی اس پہاڑ کے دامِ الفت میں آ گیا تھا اور وہ اپنے پیچھے عجیب و غریب میراث چھوڑ گیا۔

مچھاپوچھارے (مچھلی کی دم) نامی یہ پہاڑ وسطی نیپال کے انناپورنا پہاڑی سلسلے میں چھ ہزار 993 میٹر بلند ایک مشہور پہاڑ ہے۔ اس انناپورنا پہاڑی سلسلے میں دنیا کی 10 بلند ترین چوٹیوں میں سے تین موجود ہیں۔

لیکن دوسری بلند چوٹیوں سے دور اپنی پوزیشن کے سبب یہ باآسانی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ انناپورنا کے پہاڑی سلسلے میں یہ اپنی پوزیشن کی وجہ سے تنہا نظر آتا ہے اور دوسری چوٹیوں سے کم بلند ہونے کے باوجود علیحدہ ہونے کی وجہ سے بہت بلند نظر آتا ہے۔

اس چوٹی کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ مختلف جگہ سے اس کی مختلف صورت نظر آتی ہے اور کسی بھی زاویے سے دیکھیں تو اس کی عمودی چڑھائی حیرت انگیز طور پر نمایاں نظر آتی ہے۔

مچھاپوچھارے

جڑواں مخروطوں یا بیل کی طرح وہ ایک دوسرے میں گوندھی ہوئی اٹھتی ہیں مچھاپوچھارے کی دو چوٹیاں ایک تیز ڈھلوان پشتے سے ملتی ہیں اور ایسا نظر آتا ہے جیسے وہ خط اتصال پر کھڑا ہے اور دو متناسب مثلث نظر آتے ہیں۔ یہ اس کا دوسرا پہلو ہے۔

اس پہلی جھلک کے بعد میں کئی بار نیپال آئی اور اپنے پسندیدہ پہاڑ کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ وقت نکالا۔ کچھ دن پوکھرا میں گزارے اور پھیوا جھیل میں مچھاپوچھارے کی دیدہ زیب عکس دیکھتی رہی۔

صبح سویرے اور شام کو اس پر پڑنے والی سورج کی روشنی میں باقی وقت اسے دیکھنے پر صرف کرتی۔ دیہی علاقوں کی ڈھلوانوں پر بیگناس جھیل کے آس پاس سے اس کی چوٹی سے بکھرنے والی نمایاں روشنی کو دیکھتی۔ میں دوسرے دنوں میں پہاڑ کو وادی پوکھرا کے آس پاس سارنگ کوٹ یا اسٹام کی طرح کے ڈھلوانوں پر بیٹھ کر نہارا کرتی۔

پتہ چلا کہ میں اپنے جنون میں تنہا نہیں تھی

ایک موسم سرما میں آخر کار میں مچھاپوچھارے کے نیچے ماردی ہمل نامی ایک چھوٹی چوٹی کے بیس کیمپ پہنچی۔ سنہ 2012 میں قائم کیے جانے والے اس بیس کیمپ تک کا سفر پانچ روزہ مختصر سفر ہے جو 40 کلومیٹر ٹریکنگ کے بعد ساڑھے چار ہزار میٹر کی اونچائی پر آتا ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے مچھاپوچھارے کا بہترین نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ماردی ہمل کی چوٹی کی طرف مزید 1000 میٹر کی بلندی والی جگہ مچھاپوچھارے کو دیکھنے کے لیے قریب ترین مقام ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مچھاپوچھارے پر چڑھنا ممنوع ہے، نیپال جیسے ملک میں یہ شاذونادر بات ہونے کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ پہاڑ کی سیاحت کو نیپال نے اتنے جوش و خروش سے اپنایا ہے کہ دنیا کے بلند ترین مقام ماؤنٹ ایورسٹ (8848 میٹر) کی چوٹی سر کرنے کے لیے بھی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔

نیپال میں تجارتی ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کے زور و شور کے باوجود مچھاپوچھارے ایک کنواری چوٹی ہے۔ اور اس کی وجہ ایک شخص ہے: لیفٹیننٹ کرنل جیمز اوون میریون رابرٹس (1916-1997)۔

مچھاپوچھارے

وہ جیمی رابرٹس کے نام سے مشہور ہیں اور برطانوی فوج کے ایک مشہور افسر تھے۔ نیپال میں اور ہمالیہ پہاڑ کی کوہ پیمائی کے سلسلے میں ان کی خدمات گرانقدر ہیں۔ رابرٹس کو سنہ 1958 میں نیپال کے پہلے فوجی اتاشی کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

انھوں نے اپنے مقام ، جذبے اور ہمالیہ کے بارے میں جانکاری کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے دور دراز کے پہاڑوں کو تجارتی کوہ پیمائی اور ٹریکنگ کے لیے کھول دیا۔ یہ ایک ایسی صنعت ثابت ہوئی جس نے نیپال کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کیا اور مقامی ذریعہ معاش پیدا کیا۔

انھوں نے نہ صرف ہمالیہ کی کوہ پیمائی کے سنہرے دور کا در کھولا بلکہ جب انھوں نے سنہ 1964 میں ماؤنٹین ٹریول نامی ملک کی پہلی ٹریکنگ ایجنسی کی بنیاد رکھی تو انھوں نے ہمالیہ کی خوبصورتی کو باقی دنیا کے لیے بھی قابل رسائی بنا دیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے ’ٹریک‘ کی اصطلاح کا انتخاب کیا اور اسے مقبول بھی کیا جو کہ آج ہمالیہ میں کوہ پیمائی کا مترادف بن گیا ہے۔ ان سب چیزوں کے لیے انھیں آج بھی نیپال میں ’بابائے ٹریکنگ‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

پوکھرا اور مچھاپوچھارے میں رابرٹس کی دلچسپی اس وقت بڑھی جب سنہ 1936 میں نیپال سے ایک فوجی افسر کی تحریر انھوں نے پڑھی۔ اس میں انھوں نے پہاڑ اور پھر جھیل کے کنارے آباد ایک دلچسپ شہر کے بارے میں لکھا تھا۔

رابرٹس نے ولفریڈ نویس کی کتاب ’کلائمبنگ دی فشز ٹیل‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’پوکھرا اور ماچاپوچارے اور اس گاؤں کو دیکھنے کا مجھ پر جنون سوار ہو گیا جن میں ہمارے لوگ رہتے تھے، اور خاص طور پر گرونگز (ہمالیہ کا ایک اہم گورکھ قبیلہ) کو دیکھنے کا۔۔۔ لیکن اس زمانے میں نیپال کے اندرون کا حصہ ایک ممنوعہ سرزمین تھی، جو اپنے زمانے میں مکہ یا لہاسا سے بھی زیادہ حفاظت سے بند تھے۔‘

آخرکار سنہ 1950 میں انھوں نے قریب سے اپنے پسندیدہ پہاڑ کو دیکھا۔ انھوں نے اسے دیکھنے کے بارے میں لکھا: ’میں اپنے نجی مکہ (پوکھرا) میں پہلا انگریز تھا۔ چاندنی میں مچھاپوچھارے چمک رہا تھا، ایک بہت بڑا سفید اہرام حیرت انگیز طور پر سب سے علیحدہ نظر آ رہا تھا۔۔۔ اس طرح مچاپوچارے میرے لیے ایک مثالی پہاڑ بن گیا، ایک ذاتی ملکیت تاہم ماورائے دنیا، ناقابل تسخیر لیکن غیر منطقی حق کے ذریعہ میر، ایک ایسے ملک میں جس ملک نے اور جہاں کے لوگوں نے میری باقی زندگی کو تشکیل دیا۔‘

مچھاپوچھارے

سنہ 1957 میں مچھاپوچھارے کو 20 سال سے زیادہ عرصہ تک جاننے کے بعد رابرٹس نے پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے کے لیے پہلی مہم کا اہتمام کیا (نائس کی سربراہی میں جس میں کچھ دوسرے کوہ پیما بھی تھے) کیونکہ اس وقت تک باضابطہ طور پر اسے سر نہیں کیا گیا تھا۔

نائس نے چڑھنے کے بارے میں جو باتیں لکھی ہیں ان میں ایک بات نمایاں نظر آتی ہے کہ جب لاجسٹکس کی وجہ سے کوہ پیماؤں کو دو دو کی ٹکڑی میں کرنے کی بات آئی تو رابرٹس نے انتہائی آسانی کے ساتھ اپنے خواب سے دستبرداری پر رضامندی ظاہر کر دی۔ رابرٹس نے رضاکارانہ طور پر معاون ٹیم کو نیچے لے جانے کے کام ذمہ اٹھا لیا جبکہ نائس اور ایک اور کوہ پیما چوٹی سر کرنے کے لیے آگے بڑھے۔

بالاخر خراب موسم کی وجہ سے انھوں نے بھی چوٹی سے صرف 45 میٹر نیچے سے چوٹی سر کرنے کے خواب کو چھوڑ دیا۔

اس مہم کے بعد رابرٹس نے نیپال حکومت سے ایک عجیب سی درخواست کی کہ: ’چوٹی کے سر کرنے پر پابندی لگا دی جائے، اس طرح مچھاپوچھارے ایک ایسی نمایاں ہمالیائی چوٹی ہے جو ہمیشہ ناقابل تسخیر رہے گی۔‘

حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس گزارش کو تسلیم بھی کر لیا۔

نیپال میں مقیم ایک مصنف اور سیاحت کی صنعت کی تجربہ کار پیشہ ور لیزا چوگیال رابرٹس کو ذاتی طور پر سنہ 1974 سے جانتی ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا: ’جیمی بہت بڑی انا والے کوہ پیما نہیں تھے۔ اگرچہ اس معاملے میں ایسا نظر آتا ہے کہ اگر وہ اس پر نہیں چڑھ سکے تو کوئی اور بھی اس پر نہ چڑھ سکے۔ لیکن حقیقی زندگی میں جتنے وہ شریف انسان تھے اس کا اظہار اس سے نہیں ہوتا ہے۔‘

رابرٹس کا گرونگوں کے ساتھ زبردست لگاؤ تھا۔ وہی لوگ جن کے لیے مچھاپوچھارے ایک مقدس چوٹی ہے اور وہ اس کے حق میں نہیں کہ غیر ملکی کوہ پیما اس کو سر کرنے کی کوشش کریں۔ تاہم نیپال میں متعدد برادریوں اور قبائل کے لیے مختلف پہاڑ مقدس ہیں لیکن حکومت ان پر چڑھنے کے اجازت نامے جاری کرنے سے نہیں رکی، اور نہ ہی روبرٹس دوسرے پہاڑوں پر چڑھنے سے رکے۔ لیکن شاید یہ گرونگ عوام سے ان کی محبت اور اس پہاڑ کے ساتھ ان کا قلبی لگاؤ تھا جس کی وجہ سے رابرٹس نے وہ غیرمعمولی درخواست کی تھی۔

ہمالیہ

اس چوٹی کو سر کرنے ممانعت اسے مزید پراسرار بنا دیتی ہے

بہر حال رابرٹس نیپال کی حکومت کو اس کے لیے کس طرح راضی کرنے میں کامیاب ہوئے یہ ابھی بھی راز ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ان کے جذبات کی بازگشت اچھی طرح سے محسوس کی گئی اور نیپال کے اندر وسیع پیمانے پر یہ قبول کیا گیا ہے کہ اس کنواری چوٹی پر چڑھنا غیر قانونی ہے۔

درحقیقت اس چوٹی کے ساتھ رابرٹس کا لگاؤ بے پناہ تھا جسے وسیع پیمانے پر فراموش کر دیا گیا ہے۔ چوگیال نے کہا کہ اپنے بعد کے سالوں میں ‘وہ مسکراتے ہوئے کہتے تھے کہ ‘یہ بہت اچھا ہے کہ انھوں نے اب تک میرے مشورے کو قبول کیا ہے کہ اس چوٹی کو مقدس رہنا چاہیے۔’ اور اس وقت سے یہ عام طور پر قبول کیا گیا کہ یہ مقدس ہے۔’

آج موجودہ نظریہ یہ ہے کہ یہ پہاڑ مقدس ہے اور اس لیے اس پر چڑھنا ممنوع ہے۔ مچھاپوچھارے کے ایک شاعر اور قدیم رہائشی تریتھا شریشٹھا نے مقامی لوگوں کے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘مچھاپوچھارے کی چوٹی قدم رکھنے کے لیے نہیں ہے، یہ صرف آنکھوں سے چاہنے جانے کے لیے ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘نہ صرف پوکھرا بلکہ پورے پورے ہمالیہ کی خوبصورتی کے بارے میں کوئی بات مچھاپوچھارے کے ذکر کیے بغیر نامکمل ہوگی۔ اس کی خوبصورتی نے شاعروں، مصنفوں اور فنکاروں کو بہت متاثر کیا ہے۔ بہت سارے لوک گانوں میں، پہاڑ کی تعریف کی گئی ہے۔ہمارے لیے مچھاپوچھارے خوبصورتی نچوڑ ہے۔’

مچھاپوچھارے

نہ ہی رابرٹس اور نہ ہی میں اس سے انکار کروں گی۔ اور نہ ہی کوئی دوسرا جو ماردی ہمل ٹریک پر یا وادی پوکھرا کے آس پاس گیا ہو وہ اس کی خوبصورتی کا منکر ہو سکتا ہے۔

جب میں نچلی پہاڑیوں میں صداربہار جھاڑیوں کے جھرمٹ سے گزرتی تو ہر وقت اوپر تیرتے بادل کے درمیان افق پر انناپورنا پہاڑی سلسلے میں مچھاپوچھارے دور پرشکوہ انداز میں کھڑا نظر آتا ہے اور مجھے عجیب سا کیف دیتا ہے۔ اور اس کی قابل تسخیر ممنوعہ چوٹی اسے مزید دلکش بنا دیتی ہے۔

اگرچہ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے کہ رابرٹس ایسا کیوں چاہتے تھے کہ یہ چوٹی ہمیشہ کے لیے ناقابل تسخیر ہو خاص طور پر اس صورت میں جب انھوں نے خود ایک بار اس کو سر کرنے کی کوشش کی تھی اور بہت قریب پہنچ گئے تھے۔

تاہم رابرٹس کے اس اقدام میں غلطی تلاش کرنا مشکل ہے کیوں کہ کتنی ہی جگہ کو حد سے زیادہ سیاحت اور کمرشیل کوہ پیمائی نے تباہ کردیا ہے۔ اس کے برعکس شاید یہ خوشی کی بات ہے کہ جب کہ نیپال کے بہت سے دوسرے پہاڑوں سے انتہائی ضروری آمدنی حاصل ہوتی ہے ایک پہاڑ ایسا بھی ہے جو انسانوں کے لمس اور انا سے محفوظ اپنی مقدس چوٹی اور خامشی سے دنیا پر نگاہ ڈالتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *