موئن جو دڑو جب 4500 سال پرانا نکاسی

موئن جو دڑو جب 4500 سال پرانا نکاسی

موئن جو دڑو جب 4500 سال پرانا نکاسی آب کا نظام حالیہ بارشوں کا پانی نکالنے میں کام آ گیا

موئن جو دڑو میں پانی کی نکاسی کا 4500 سال پرانا نظام آج بھی کام کر رہا ہے۔‘ یہ کہنا ہے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کوئیٹیز اینڈ آرکیالوجی منظور احمد کا۔

اس بات کا اندازہ انھیں اگست کے وسط میں ہونے والی بارشوں کے دوران ہوا جب پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں 1400 ملی میٹر بارش برسنے کے بعد موئن جو دڑو میں موجود سٹوپا کے باہر بنی حفاظتی دیوار تو گر گئی لیکن انھیں کہیں بھی پانی کھڑا ہوا نظر نہیں آیا۔

موئن جو دڑو میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہاں پانی ٹھہرا ہی نہیں۔ ہم بھاگتے ہوئے یہاں پہنچے تو پتا چلا کہ 4500 سال پرانے اس ڈرین (نالے) سے پانی بہہ کر باہر نکل چکا ہے۔ اس مقام سے پانی نکالنے میں میری ٹیم کا کوئی عمل دخل نہیں، یہ خود ہوا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہوا کہ جب پانی یہاں سے نکل گیا تو باہر جا کر چند سال پرانے بنے کمپاؤنڈ میں جمع ہو گیا جسے نکالنے میں ہمیں تین ہفتے لگے۔`

موئن جو دڑو 4500 سال پرانی تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پائیدار نکاسی آب کے نظام کے لیے بھی مشہور ہے۔ جبکہ یہاں کے شہری آبادکاری کے نظام کی مثال آج بھی دی جاتی ہیں۔ اس وقت یہ جگہ یونیسکو کے زیرِ انتظام ہے جس کی ٹیم ہر ماہ یہاں کا معائنہ کرنے آتی ہے۔

موئن جو دڑو

چند ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ یونیسکو نے موئن جو دڑو کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنی فہرست سے نکال دیا ہے لیکن ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

منظور احمد نے بتایا کہ یونیسکو اتنا بڑا فیصلہ پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ازخود نہیں کر سکتا۔

’اس جگہ کی دیکھ بھال اور سنبھالنے کے لیے چند اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے جو یونیسکو کی تجاویز کے عین مطابق ہوتی ہیں۔ ماہرین نے صرف یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس جگہ کی دیکھ بھال یونیسکو کی تجاویز کے مطابق نہ ہوئی تب موئن جو دڑو کے لیے اس فہرست سے نکلنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ موئن جو دڑو کو فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔`

یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے میری نظر چند مزدوروں پر پڑی جو خاموشی سے موئن جو دڑو کے سٹوپا کے گِرد بنی حفاظتی دیوار دوبارہ سے بنا رہے تھے۔ یہاں آس پاس دیکھنے کے لیے اتنا ہی پرانا حمام جبکہ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں ہیں جن سے گزر کر آپ اس تہذیب کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

موئن جو دڑو

اس سٹوپا کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے اس کے گِرد حفاظتی دیواریں بنائی گئی تھیں۔ بارش اور سیلاب کے نتیجے میں اس کے گِرد بنی دیواریں تو گِر گئیں لیکن سٹوپا بچ گیا ہے۔

منظور احمد کے مطابق موئن جو دڑو میں 1922 سے لے کر اب تک بہت کم کھدائی ہوئی ہے اور اب بھی 90 فیصد کھدائی ہونا باقی ہے۔ اب بھی اس زمین کے نیچے قدیم تہذیب سے منسلک کئی راز دفن ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’موئن جو دڑو کو دریافت ہوئے ایک سو برس گزر چکے ہیں اور ان برسوں میں اتنی بارش کبھی ریکارڈ نہیں کی گئی۔`

لیکن سوال بنتا ہے کہ اگر کھدائی کی جائے تو اسے سنبھالنے کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟

اس وقت موئن جو دڑو کا مقام اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت چلتا ہے۔ موئن جو دڑو کی انتظامیہ مقامی ہے اور تمام تر اخراجات کی ذمہ داری حکومتِ سندھ کی ہے۔

یونیسکو کی ٹیم ہر چند ماہ بعد یہاں دورے کے لیے ضرور آتی ہے۔ اس دورے کا مقصد یہ جانچنا ہوتا ہے کہ موئن جو دڑو کے مقام کی بہتر حفاظت کے لیے کس قسم کی تیاریاں کی گئی ہیں، دیواروں کی حفاظتی تہہ کی دیکھ بال کیسے کی جا رہی ہے اور اس بار یہ بھی جائزہ لیا جائے گا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں یہاں کیا نقصانات ہوئے ہیں۔

موئن جو دڑو

صوبہ سندھ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں بہت بری طرح متاثر ہوا جہاں اب تک کی اطلاعات کے مطابق صوبے کا 70 فیصد حصہ زیرِ آب ہے۔

اس دوران آثارِ قدیمہ کے مقامات کو بچانے کی مہم بھی تیز ہو گئی ہے۔ ماہرین نے موئن جو دڑو جیسی قدیم تہذیب کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کی اپیل بھی کی ہے۔

منظور احمد نے کہا کہ ان مقامات اور خاص طور سے موئن جو دڑو کی حفاظت کی ذمہ داری حکومتِ سندھ کی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’2010 کے سیلاب کے دوران مکلی کے قبرستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو پناہ دی گئی تھی جس سے اس جگہ کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت ان مقامات کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر بنتی تھی لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد اب یہ حکومتِ سندھ کے دائرہ کار میں ہے۔`

انھوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گٹیرس کے حالیہ دورے سے اس جگہ کی حفاظت کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی۔

’اب تک ہمیں بہت اچھا ردعمل ملا ہے۔ سب کو ہی موئن جو دڑو کی فکر ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں ہمیں ان بڑے اداروں کی ضرورت رہے گی تاکہ اسے خبروں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *