ممنوعہ فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ

ممنوعہ فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ

ممنوعہ فنڈنگ پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ تحریک انصاف پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف پر غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت ہونے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اس جماعت کو لاتعداد قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی بہت سے صارفین یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ کیا ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کے بعد تحریک انصاف پر پابندی لگ جائے گی یا سابق وزیر اعظم عمران خان کو اس کیس کے نتیجے میں الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ شاید ایسا کوئی انتہائی اقدام نہ ہو کیونکہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگنے کی صورت میں ایک ایسی ہلچل مچ سکتی ہے جسے کنٹرول کرنا شاید کسی کے بس میں نہ رہے۔

یاد رہے کہ منگل کے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے اپنے فیصلے میں کہا کہ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اسد عمر الیکشن کمشن کے اس فیصلے کے بارے میں کہتے ہیں کہ دراصل اس فیصلے کا مقصد لوگوں کو سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے اور اس اقدام سے طاقتور ادارے مزید تقویت حاصل کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ مستقبل میں کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت تک اقتدار میں نہیں آ سکتی جب تک وہ ان طاقتور حلقوں کے سامنے جھکتے نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رہی ہے۔

عمران خان

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘کیا ہی بہتر ہوتا کہ الیکشن کمیشن دوسری سیای جماعتوں کی مبینہ ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ بھی ایک ساتھ سُناتا۔‘

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ‘قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔‘

‘حکمراں اتحاد کا پی ٹی آئی کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ‘

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں دیے گئے فیصلے میں ناقابل تردید شواہد کا ذکر ہے اور یہ شواہد خود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو فراہم کیے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی روشنی میں ایک ڈکلریشن جاری کرے گی جس کے جاری ہونے کے پندرہ روز کے اندر اس بارے میں ایک ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا جائے گا۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے چیف جسٹس سے اس معاملے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ اس ڈکلریشن اور ریفرنس میں دیے گئے حقائق سے متفق ہوتی ہے تو پھر نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو کالعدم جماعت قرار دیا جائے گا بلکہ اس کی قیادت کے خلاف بھی ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہی تھی۔

‘پی ٹی آئی کے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جانے کے آپشن موجود ہیں‘

الیکشن امور کی نگرانی کرنے والی وکیل رابعہ باجوہ کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ بیرون ممالک سے آنے والی ہر فنڈنگ، ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتی ہو۔

انھوں نے کہا کہ اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جائے تو پھر اس جماعت کو جتنے پیسے ممنوعہ ذرائع سے آئے ہیں، ان کو بحق سرکار ضبط کیا جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف

رابعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ لینے کے معاملے پر افراد یا جماعت پر پابندیاں لگنا شروع ہو جائیں تو اس سے ملک میں گھٹن کا ماحول پیدا ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ جانے کے آپشن موجود ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دوسرے ارکان کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان ہر عوامی اجتماع میں یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ملک میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کے لیے موجودہ الیکشن کمیشن کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔

حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان ممنوعہ فنڈنگ کے معاملے میں الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لا کر اپنے حق میں فیصلہ کروانا چاہتے تھے۔

واضح رہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اس عہدے پر فائز کیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اس سے بہتر چوائس اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

موجودہ چیف الیکشن کمشنر اور پی ٹی آئی حکومت کے درمیان اختلافات اس وقت کُھل کر سامنے آئے جب سینیٹ کے انتخابات میں ووٹنگ خفیہ رائے شماری کی بجائے ہاتھ کھڑے کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے اس کی مخالفت کی تھی۔

‘سیاسی جماعتیں تب مضبوط ہوں گی جب انھیں آزادانہ پالیسیاں بنانے کی اجازت ہو گی‘

اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار محمل سرفراز کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ وہ سیاسی جماعتیں جو عوام کا ووٹ لے کر ایوانوں تک پہنچتی ہیں، ان کو تکنیکی معاملات میں الجھا کر سیاست سے آؤٹ نہیں کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تکنیکی معاملات میں الجھا کر تاحیات نااہل قرار دینے کا فیصلہ بھی قابل تحسین نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملکی میں سیاسی جماعتیں اس وقت مضبوط ہوں گی جب انھیں آزادانہ پالیسیاں بنانے کی اجازت ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *