مصر میں سوئز نہر بند ہونے سے آپ کی جیب کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟
نہر سوئز میں ’ایور گرین‘ نامی مال بردار بحری جہاز کے پھنسنے کے باعث یومیہ نو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے تجارتی مال کی ترسیل میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ جہاز رانی کے اعداد و شمار کے مطابق مشرق اور مغرب کے درمیان اس اہم آبی تجارتی گزر گاہ پر سفر کرنے والے تجارتی ساز و سامان کی مالیت فی گھنٹہ چالیس کروڑ ڈالر بنتی ہے۔
تجارتی جہاز رانی کے اعداد و شمار رکھنے والے ادارے لائڈ لسٹ کے مطابق اس کینال سے مغرب ممالک کی طرف روزانہ پانچ اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا تجارتی مال آتا ہے جبکہ مشرقی ممالک کے لیے چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا سامان جاتا ہے۔
ایور گرین‘ نامی مال بردار بحری جہاز تائیوان سے تعلق رکھنے والی ’ایور گرین‘ نامی کمپنی کی ملکیت ہے اور اس کی لمبائی فٹبال کے چار میدانوں کے برابر ہے اور اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے کنٹینر بردار جہازوں میں ہوتا ہے۔ دو لاکھ ٹن وزنی اس مال بردار جہاز پر 20 ہزار کنٹینر لادے جا سکتے ہیں۔
نہر سوئز کے بلاک ہونے سے اس آبی گزرگاہ سے گزرنے والے بحری جہازوں کی ایک طویل قطار لگ گئی ہے۔
نہر سوئز کی آبی گزر گاہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے درمیان ہے اور دنیا کے مصروف ترین آبی راستے میں شامل ہے جہاں سے عالمی تجارت کی 12 فیصد آمدورفت ہوتی ہے۔
لائڈ لسٹ کے مطابق 160 سے بحری جہاز نہر کی دونوں جانب اس کو عبور کرنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ ان میں 41 بڑے مال بردار جہاز اور 24 خام تیل لے جانے والے ٹینکر شامل ہیں۔
خام تیل کے علاوہ ان جہازوں پر روز مرہ استعمال میں آنے والی اشیا جن میں کپڑے، فرنیچر اور صنعتی اور گاڑیوں کے پرزہ جات شامل ہیں لدے ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی جہاز رانی کے چیمبر کے سیکریٹری جنرل گائے پلیٹن نے بی بی سی کے ‘ٹوڈے پروگرام’ میں بتایا کہ ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ بین الاقوامی جہاز راں کمپنیوں نے اپنے مال بردار جہازوں کو افریقہ کی طرف موڑنا شروع کر دیا ہے اور وہ جنوبی افریقہ کے ساحل کیپ آف گڈ ہوپ کا چکر کاٹ کر یورپ پہنچیں گے جس سے ان کے سفر میں ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا اضافہ ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جہاز ٹھوس زمین پر پھنس گیا ہے جس کی وجہ سے اس کو نکالنے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے اور یہ ایک پیچیدہ اور بہت محنت طلب کام ہے۔ پلیٹن نے کہا کہ اس حادثے کا مال کی ترسیل کے نظام پر شدید اثر پڑے گا اور اس کی قیمت صارفین کو برداشت کرنی پڑے گی۔
ایور گرین جہاز کو فلیکسٹو کی بندرگاہ پر اپریل میں پہنچنا تھا۔
’کیا جہاز بہت بڑے ہو گئے ہیں؟‘
گذشتہ ایک دہائی میں عالمی تجارت میں اضافہ ہونے کے ساتھ کنٹینر لے جانے والے بحری جہازوں کے حجم بھی بڑھنے لگا اور بڑے بڑے جہاز بنائے جانے لگے جس بنا پر ان کے پھنس جانے کی صورت میں ان کا نکالنے کا کام بھی مشکل ہو گیا۔
جہاز رانی کے بارے میں ایک مشاورتی کمپنی چلانے والے جون مونرو کا کہنا ہے ’ہم کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا جہاز بہت بڑے ہو گئے ہیں؟ جو کنٹینر ان جہازوں پر لادے جاتے ہیں ان کی ترسیل میں زیادہ وقت لگ جاتا ہے اور بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے کے لیے جہازوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔‘
بمکو نامی بین الاقوامی شپنگ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس سے تاخیر میں اضافہ ہو گا اور اس سے مال کی ترسیل پر اثر پڑے گا۔
امریکی کمپنی او ایل کے صدر ایلن بیئر کے مطابق ہر ایک دن کی تاخیر کو پورا کرنے کے لیے مزید دو دن لگیں گے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عموماً تین دن کی تاخیر کو پورا کرنے کے لیے چھ دن درکار ہوتے ہیں لیکن ان کے خیال یہ فارمولا درست نہیں اور اس وقت میں اضافہ ہو گا۔
اس کے علاوہ روز مرہ کے استعمال کی اشیا سے لدے ہزاروں کنٹینروں کی ترسیل میں تاخیر کے علاوہ پھنسے ہوئے بحری جہاز کی وجہ سے بہت سے تجارت اور برآمدات کے لیے درکار خالی کنٹینروں کی دستیابی میں بھی خلل پڑ رہا ہے۔
اگر اس تاخیر کی مدت زیادہ نہ ہوئی تو زیادہ تر کمپنیاں ضائع ہونے والے وقت کا ازالہ کر لیں گی لیکن بحری جہاز کو نکالنے کے کام سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ اس رش کو ختم کرنے میں کئی دن اور کئی ہفتے لگ سکتے ہیں جس سے عالمی سپلائی کو دھچکا لگے گا جو پہلے ہی کووڈ 19 سے دباؤ کو شکار ہے۔
کچھ کمپنیاں اس بات پر غور کر رہی ہیں کہ قیمتی اشیا کو فضائی راستے یا ٹرینوں کے ذریعے پہنچایا جائے۔ دو بڑی جہاز ران کمپنیوں مرسک اور ہیپیگ لائڈ کا کہنا ہے کہ وہ نہر سوئز کا متبادل راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مصر کی نہر سوئز کی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ جہاز کو دوبارہ گہرے پانی میں لے جایا جائے اور اس کے لیے جہازوں کو کھینچنے والی کشتیاں، ڈریجرز اور بھاری مشینری استمعال کی جا رہی ہے۔