مئی کا بدلہ کیا پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت

مئی کا بدلہ کیا پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت

25 مئی کا بدلہ کیا پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد پولیس افسران کا ’احتساب‘ کرے گی؟

گذشتہ اتوار کو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستان تحریکِ انصاف کے عام سپورٹرز، یوٹیوبرز سے لے کر رہنماؤں تک کے اکاؤنٹس کی جانب سے بار بار یہ بات دہرائی جا رہی کہ ‘پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد اب یہ پی ٹی آئی پر فرض ہے کہ وہ ان تمام پولیس والوں، جنھوں نے اسمبلی پر دھاوا بھول کر زبردستی حمزہ کو وزیر اعلیٰ بنوایا اور جنھوں نے لانگ مارچ کے دوران نہتے عوام، معصوم بچوں اور عورتوں پر تشدد کیا تھا ان کو نشان عبرت بنائیں۔۔۔۔ ان کی وردیاں اتار کر ان کا ٹرائل کیا جائے گا۔۔۔۔‘

پولیس والوں کی وردیاں اتارنے سے لے کر انھیں راجن پور کے کچے میں ٹرانسفر تک کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔

کچھ افراد ان پولیس افسران کی تصاویر شئیر کر رہے ہیں جو گذشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران کسی بھی حوالے سے تحریکِ انصاف کے لیے مشکلات کا باعث بنے۔۔۔

ایسے ہی ایک افسر کے متعلق پی ٹی آئی کے ایک حامی نے لکھا کہ ‘اس پولیس افسر نے جلسہ گاہ کو تہس نہس کر دیا تھا اور خان صاحب کو سکیورٹی نہیں دی تھی۔۔ ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلاؤ اس کے خلاف‘۔

پولیس والوں سے انتقامی کارروائیوں اور بدلے کی یہ باتیں پی ٹی آئی کے کارکنان اور اس جماعت سے وابستہ ٹرول اکاؤنٹس تک ہی محدود نہیں بلکہ جماعت کے اہم عہدیداران بھی ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں۔

گذشتہ روز سابق وزیراعظم عمران خان کے بھانجے اور تحریکِ انصاف کے فوکل پرسن برائے قانونی امور حسان نیازی نے سی سی پی اور لاہور اور ڈی آئی جی کو ٹیگ کر کے پوچھا کہ ‘کیا آپ کو 25 مئی کا دن یاد ہے؟’

حتیٰ کہ عمران خان کی جانب سے بھی گذشتہ روز بنی گالہ میں پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد خطاب میں کہا گیا کہ ’25 مئی کو میں کبھی نہیں بھولوں گا، پنجاب کے اندر پولیس والوں نے پی ٹی آئی کے سپورٹرز پر جو ظلم کیا، وہ ایک ایک پولیس والا مجھے یاد ہے۔‘

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پولیس والوں نے نہ صرف حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنانے میں مدد کی بلکہ مسلم لیگ (ن) کے جیالے بن کر ہمارے خلاف کاروائیاں کیں، ہمیں ایک ایک پولیس والے کی شکل یاد ہے۔‘

@MashwaniAzhar

اب سے کچھ دیر قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل کا کہنا تھا کہ ‘آئی جی پنجاب راؤ سردار نے جس بے شرمی کا اظہار کیا، اس کا جواب کس نے دینا ہے؟ جس دن ہماری حکومت آئے گی اسمبلی کے اندر ایک قرارداد لائیں گے کہ یہ دونوں افسران چیف سیکرٹری اور آئی جی راؤ سردار کے خلاف آرٹیکل چھ لگنا چاہیے۔‘

شہباز گل کا کہنا تھا کہ 25 جون کو ان کے ناک کے نیچے تشدد ہوا، ریاستی مشینری استعمال ہوئی، اسمبلی کے اندر پولیس گردی ہوئی۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سارجنٹ ایٹ آرمز ان کے آئی جی کے بیجز اتاریں تاکہ ان کی نسلوں کو بھی یاد رہے کہ انھوں نے عوام پر ظلم کیا تھا۔

یاد رہے اس سے قبل بھی تحریکِ انصاف کے رہنما بارہا اپنے جلسوں میں یہ پیغام دیتے سنائی دیے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں حمزہ کو وزیر اعظم بنوانے اور تحریکِ عدم اعتماد سے لے کر گذشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنان و رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں کرنے والوں سے ‘بدلہ لیا جائے گا۔‘

سلمان رضا جو ہیڈ آف آپریشنز پی ٹی آئی آفیشل سوشل میڈیا ہیں انھوں نے عمران خان کی 25 مئی کو نہ بھولنے والی بات دہراتے ہوئے ایک پولیس اہلکار کی تصویر لال دائرہ لگا کر شیئر کی ہے جو کسی کی جانب پستول تانے ہوئے ہے۔

سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی سے وابستہ بیشتر افراد ‘بدلے‘ کی باتیں دہراتے ہوئے پنجاب پولیس کے سپاہیوں سے لے کر افسران تک کی تصاویر ایسے عنوانات کے ساتھ شئیر کر رہے ہیں جن میں حکومت میں آنے کے بعد واضح الفاظ میں ‘بدلہ‘ لینے کی بات دہرائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پولیس والوں میں سے اکثر کی نجی معلومات اور ان کے اہلِ خانہ کی تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں۔

جس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی بدلے سے کیا مراد ہے؟ پولیس والوں کی تصاویر و نجی معلومات سوشل میڈیا پر پھیلانے کا مقصد کیا ہے اور کیا پی ٹی آئی ویجلینٹی جسٹس یا ہجوم کے ذریعے انصاف کی طرف جار ہی ہے؟

‘ان اکاؤنٹس کے پیچھے مسلم لیگ (ن) والے ہیں‘

بی بی سی بات کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما افتخار درانی کا کہنا ہے کہ ‘اخلاقاً ان پولیس اہلکاروں کی تصاویر اور شناخت ظاہر نہیں کی جانی چاہیے لیکن 24 مئی کی رات تحریکِ انصاف کے لوگوں کے گھروں میں گھسنے والوں اور اگلے دن ان پر تشدد کرنے پولیس اہلکاروں کی تمام ویڈیوز سوشل میڈیا پر پہلے ہی موجود ہیں اور یہ سب پبلک انفارمیشن ہے۔‘

Getty Images

افتخار درانی پولیس افسران کی نجی معلومات اور ان کے اہلِ خانہ کی تصاویر شئیر کرنے والے اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان اکاؤنٹس کے پیچھے مسلم لیگ (ن) والے ہیں کیونکہ وہ حکومت میں ہیں اور انھیں ان معلومات تک رسائی حاصل ہے اور وہی تحریکِ انصاف کی تصاویر پروفائل میں استعمال کر کے فیک اکاؤنٹ بنا کر پولیس والوں کی ذاتی معلومات پھیلا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جن پولیس والوں نے ڈاکٹر یاسمین کی گاڑی توڑی یا جس نے حماد اظہر پر حملہ کیا اور دوسرے رہنماؤں پر تشدد کیا، ان کے نام اور عہدے کی معلومات پبلک ہیں لیکن پولیس والوں کی نجی معلومات تک ہمیں اور ہماری ٹیموں کو رسائی نہیں۔

سابق وزیرِ اطلاعات اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ اکاؤنٹ تحریکِ انصاف سے تعلق نہیں رکھتے۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے تردید کی کہ پی ٹی آئی کے کسی اکاؤنٹ سے ایسی کوئی تصویر شئیر ہوئی ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘البتہ ہم پوری دنیا کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔’

اس حوالے سے تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں مگر ہماری جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی اکاؤنٹ نے ایسی معلومات نہیں پھیلائیں۔

‘پولیس افسران کی تصاویر شئیر کرنا کسی ڈکشنری میں جرم نہیں‘

HniaziISF

کیا سوشل میڈیا پر پولیس اہلکاروں کی تصاویر شئیر کرنا اور ان سے پوچھنا ‘کیا آپ کو فلاں دن یاد ہے’، ایسا طریقہ کار درست ہے ؟ آپ خود جج، جیوری اور سزا سنانے والے کیسے بن سکتے ہیں، اگر آپ کو یقین ہے کہ کوئی آپ کے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف غیر قانونی کام میں ملوث تھا اور آپ کے پاس اس کے خلاف ثبوت ہیں تو قانونی راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے؟

اس سوال کے جواب میں حسان نیازی کا کہنا ہے ‘ان پولیس افسران کی تصاویر شئیر کرنا کسی ڈکشنری میں جرم نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ 25 مئی کو تحریکِ انصاف کے مظاہرین پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف تقریباً ایک درجن مقدمات پہلے سے درج ہیں اور عدالت نے ان پولیس افسران، سی سی پی او، ڈی آئی جی اور وزیرِ داخلہ کے خلاف سیکشن 154 کے تحت ایف آئی آر بھی درج کرنے کا حکم دے رکھا ہے جو اب تک درج نہیں ہو سکی۔

وہ پوچھتے ہیں کہ ‘اصل سوال تو یہ ہے کہ یہ ایف آئی آر اب تک کیوں نہیں رجسٹر ہوئی؟ کیا یہ افراد قانون سے بالاتر ہیں؟’ وہ کہتے ہیں کہ ‘ان پولیس افسران کی تصاویر شئیر کرنا کسی ڈکشنری میں جرم نہیں تاہم ان کے خاندان کی تصاویر اور ذاتی معلومات شئیر کرنا ایک جرم ہے جس کی پی ٹی آئی مذمت کرتی ہے۔‘

حسان نیازی یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ان پولیس اہکاروں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے ویجلینٹی جسسٹس کا کوئی خطرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ آؤ ان کو مارنے چلیں، مگر ہم چاہتے ہیں کہ جب ہماری حکومت آئے گی تو ان لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر کوئی شہری کسی پولیس افسر کی تصویر شیئر کر کے یہ کہہ رہا ہے کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت بنے تو 25 مئی کو ظلم کرنے والے اس شخص کا احتساب کریں، تو ایسے پولیس افسر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرنا کوئی جرم نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس دن (25 مئی) کو چھ لوگ مر گئے تھے اور ایک کو پولیس نے مبینہ طور پر پل سے نیچے دھکا دیا تھا جن کی بیوہ نے پولیس کے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا ہے، ہر معاملے کی ویڈیو تو نہیں ہو سکتی مگر اس کیس میں گواہ موجود ہیں، ہم بدلہ نہیں لیں گے لیکن جس جس نے لائن کراس کی ہے ان سب کا احتساب ہونا چاہیے۔

‘عمران خان کا ماڈل ریاستِ مدینہ ہے جو رحم اور انصاف کی بنیاد پر بنائی گئی‘

عمران خان

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جن پولیس والوں نے قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، لوگوں پر تشدد کیا ہے، وارنٹ کے بغیر لوگوں کے گھروں میں گھسے ہیں ان پر محکمانہ کارروائیاں ضروری ہیں اور وہ ہوں گی مگر کوئی کارروائی قانون کے دائرے سے باہر نہیں ہو گی۔

اس حوالے سے افتخار درانی کہتے ہیں کہ عمران خان نے آج تک کسی سے انتقام نہیں لیا، عمران خان کا ماڈل ریاستِ مدینہ ہے جو رحم اور انصاف کی بنیاد پر بنائی گئی اور ہمارے کسی ماڈل میں انتقام شامل نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بدلے یا انتقامی کارروائی کی بات کوئی نہیں کر رہا، پولیس کا کام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے اور آئین کے تحت پاکستان کے شہریوں کو آزادیِ رائے اور احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن اگر کسی پولیس اہلکار یا افسر کے خلاف ایسے ثبوت موجود ہیں کہ محکمے کی جانب سے یا ذاتی دلچسپی کےتحت اس نے کسی سیاسی شخصیت کو بچانے کے لیے قانون کی خلاف ورزی یا اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو ایسے پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کے طریقہِ کار موجود ہیں اور وہ تبھی ہو گا جب پنجاب میں حکومت بن جائے گی، کوئی وزیر مقرر ہو گا اور اس کے بعد جا کر محکمانہ کارروائی ہو گی جس میں ابھی بہت وقت ہے۔

افتخار درانی کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ہمیں کوئی جلدی نہیں تاہم ان کا خیال ہے کہ 24 مئی کی رات جن رہنماؤں کے گھروں کی چادر اور چار دیواری کا خیال نہیں کیا گیا، یا گذشتہ چند مہینوں میں جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، انھیں ذاتی طور پر شکایات ضرور ہیں۔

‘کسی سپاہی یا حوالدار کا احتساب تو نہیں ہو گا مگر اہم ذمہ داران کو سبق ضرور سکھانا چاہیے‘

پولیس

احتساب کے حوالے سے زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ نچلے درجے کے کسی سپاہی یا حوالدار کا احتساب تو نہیں ہو گا مگر پولیس کے اہم ذمہ داران جیسے لاہور کے سی سی پی او جنھوں نے عورتوں، بچوں اور بزرگوں پر ظلم ڈھائے اور بنا اجازت گھروں میں گھسنے کے احکامات دیے، اپنی ڈیوٹی نہیں نبھائی، عوام کی حفاظت اور انصاف نہیں کیا، محکمانہ طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے اور قانون کے تحت ڈیوٹی سے غفلت اور نااہلی پر انھیں سبق ضرور سکھانا چاہیے مگر اس حوالے سے ہرگز ایسا کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے کہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر انھیں عبرت کا نشان بنائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے یہ ضرور کہا ہے کہ ایسے افسران جو اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے ہیں، مفادِ عامہ کا خیال نہیں رکھا اور امپورٹڈ حکومت کی حمایت کرتے کرتے ان کے غلام بن گئے اور اپنی ہی عوام پر ظلم کیا ہے اور ان کے خلاف ثبوت موجود ہیں، قانون کے تحت ان کے خلاف کاررائی ہو گی اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہو گا۔

‘دشمنی میں بھی اخلاقی قدروں کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے مگر سوشل میڈیا ہمارے ہاتھ میں نہیں‘

Social Media

پی ٹی آئی رہنماؤں کے دعوؤں کے برعکس سوشل میڈیا پر جس لب و لہجے، انداز اور طریقہ کار سے پولیس اہلکاروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے، اس سے قانون کے تحت احتساب جیسا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔۔۔۔ اور سرکاری اہلکاروں کی تصاویر لگا کر ان کی شناخت، ان کے اہلِ خانہ کی معلومات شیئر کرتے ہوئے بظاہر ایسا تاثر مل رہا ہے کہ شاید لوگوں کو ویجلینٹی جسٹس کی طرف بھڑکایا جا رہا ہے کہ وہ قانون ہاتھ میں لے لیں۔۔تو کیا پی ٹی آئی اس کے سدباب کے لیے کچھ کر رہی ہے؟

زلفی بخاری کہتے ہیں کہ دشمنی میں بھی اخلاقی قدروں کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے اور ہمارے مذہب اور ہماری ثقافت میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے، اور جو بھی ان افسران کے خاندان کے افراد اور خواتین و بچوں کے بارے میں کچھ بھی شیئر یا ری ٹویٹ سے پھیلا رہا ہے وہ چاہے پی ٹی آئی سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں، وہ بہت غلط کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی رہنما کسی کے خاندان کے بارے میں ایسی حرکت نہیں کرے گا مگر سوشل میڈیا ہمارے ہاتھ میں نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *