لوگوں کا پیٹ بھرنے کی ذمہ داری ہے مگر

لوگوں کا پیٹ بھرنے کی ذمہ داری ہے مگر

10 لوگوں کا پیٹ بھرنے کی ذمہ داری ہے مگر وہ آٹا نہیں مل رہا جس کے لیے روزانہ مزدوری چھوڑتا ہوں

خواتین کے لیے یہ اچھی بات نہیں کہ وہ 20 کلو آٹے کے ایک تھیلے کے لیے کئی روز تک سڑکوں پر بیٹھ کر انتظار کریں۔ بڑی تعداد میں ہم خواتین بھی کئی گھنٹے مختلف مقامات پر آٹے کی خریداری کے لیے بیٹھی رہتی ہیں۔ اس دوران اگر کسی کو پیشاب کی حاجت ہو تو وہ کہاں جائے۔ یہ کوئی عزت کی بات تو نہیں ہے ناں۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بروری روڈ کے علاقے سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ خاتون امام بی بی کا جنھیں پیر کے روز کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے سامنے کئی گھنٹے انتظار کے باوجود سرکاری ریٹ پر ملنے والا آٹے کا تھیلا نہیں مل سکا۔

گذشتہ چند روز سے آٹے کی سرکاری نرخوں پر عدم دستیابی کی خبریں ملک کے مختلف حصوں سے موصول ہو رہی ہیں اور اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو وہاں گزشتہ دو ہفتے سے آٹے کے بحران میں شدت کے باعث صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں 20 کلوآٹے کے تھیلے کی قیمت 2800 روپے جبکہ صوبے کے دیگر علاقوں میں 3200 روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔

آٹے کے سرکاری نرخوں پر حصول کے خواہش مند کم آمدنی والے طبقے کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہے؟ یہی ہمیں بتایا عمر رسیدہ امام بی بی نے جو گذشتہ دو ہفتوں سے اپنے بچوں کے لیے سستا آٹا خریدنے کے لیے تگ و دو کر رہی ہیں تاہم انھیں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔

quetta flour

’میرے دو بچے معذور ہیں اور دوسرے چھوٹے ہیں۔ ایک کمانے والا ہے جو مزدوری کرتا ہے۔ مزدوری بھی کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں ملتی۔ میں خود گھروں میں کام کرتی ہوں۔ گذشتہ 8 روز سے بچے بھوکے ہیں اور میں خود محلے والوں سے مانگ کر بچوں کو تھوڑا بہت کھلا رہی ہوں، کیونکہ عام دکانوں پر آٹا مہنگا ہے جبکہ سستا آٹا آسانی سے ملتا نہیں۔‘

امام بی بی کا کہنا ہے کہ وہ دور سے پیدل آتی ہیں۔ سستے آٹے کی خریداری کے لیے آنے والوں سے کبھی کہا جاتا ہے کہ آٹے کی گاڑی جوائنٹ روڈ پر آئے گی، کبھی کہتے ہیں چمن پھاٹک تو کبھی ریلوے سٹیشن کا بتایا جاتا ہے۔ لیکن جب دوڑ کر لوگ وہاں پہنچتے ہیں تو کچھ بھی نہیں ملتا۔

اُن کے مطابق طویل انتظار کے بعد آٹا نہیں ملتا تو لوگ مجبوراً سڑک ٹریفک کے لیے بطور احتجاج بند کرتے ہیں جس پر پولیس والے آ جاتے ہیں۔ ’ہمیں احتجاج سے پولیس والوں نے دو مرتبہ اٹھایا لیکن یقین دہانی کے باوجود سرکاری آٹا نہیں ملا۔‘

آٹے کی قلت
،تصویر کا کیپشن’آٹا نہ ملنے کے خلاف جب بطور احتجاج سڑک بند کرتے ہیں تو پولیس والے آ کر اٹھا دیتے ہیں‘

’انتظار کے باوجود وہ آٹا ہی نہیں مل رہا جس کے لیے مزدوری چھوڑتا ہوں‘

سرکاری نرخ پر آٹے کے حصول میں پریشان حال صرف امام بی بی نہیں بلکہ ان ہی جیسے بے شمار عمررسیدہ یا محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرنے والے درجنوں افراد پریشان ہیں۔

انھی میں ایک عمر رسیدہ شخص خدائے نظر بھی ہیں جو کوئٹہ سے اندازاً 8 کلومیٹر دور مشرقی بائی پاس کے علاقے بھوسہ منڈی سے شدید سردی کے باوجود صبح پانچ بجے سائیکل پر سفر کر کے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پہنچے ہیں تاکہ وہاں لگنے والی لائن کے شروع میں انھیں جگہ مل جائے۔

کوئٹہ میں سستا آٹا

سات گھنٹے کے انتظار کے باوجود جب وہاں سستے آٹے والی گاڑی کے نہ آنے کا اعلان ہوا تو مایوسی اور غصہ خدائے نظر کے چہرے پر عیاں تھا۔

’میں اپنے خاندان کے 10 افراد کو کھلانے لے لیے محنت مزرودی کرتا ہوں۔ یہاں آٹے کے انتظار میں بیٹھنے کی وجہ سے نہ مزرودی کر پا رہا اور نہ ہی وہ سستا آٹا مل رہا ہے جس کے لیے مزدوری کو چھوڑتا ہوں۔ لائن کے شروع میں جگہ پانے کے لیے شدید سردی میں پانچ بجے آیا اور صبح کی نماز ریلوے سٹیشن کے مسجد میں ادا کی۔ سستے آٹے کے ایک تھیلے کے لیے 10 دن سے آ رہا ہوں، مگرمجھے آٹا نہیں مل رہا۔‘

’یقین کیجیے مجھ میں مارکیٹ سے مہنگا آٹا خریدنے کی سکت بالکل نہیں، اس لیے یہاں سستا آٹے خریدنے کے لیے آتا رہا، لیکن وہ نہیں ملا۔ دس دنوں سے ہم چاول پر گزارا کر رہے ہیں جو آٹے کے مقابلے میں ہم غریبوں کے لیے بہت زیادہ مہنگا پڑ رہا ہے۔‘

دو ہفتوں کے دوران 20 کلو آٹے کی قیمت میں 700 روپے سے زائد کا اضافہ

بلوچستان میں اگرچہ گذشتہ دو تین سال سے آٹے کی قلت کے باعث اس کی قیمتوں اضافے کا سلسلہ جاری ہے لیکن خود حکومت بلوچستان اور آٹے کے کاروبار سے وابستہ افرد کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ صورتحال زیادہ سنگین ہے۔

بلوچستان آٹا ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر سید خدائیداد آغا نے بی بی سی کو بتایا کہ صرف گذشتہ ایک ہفتے کے دوران 20 کلو کے تھیلے کی قیمت میں سے پانچ سو جبکہ ڈیڑھ، دو ہفتے میں 700 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا۔

آٹے کے موجودہ بحران کی وجوہات پر پاکستان فلور ملز ایسوی ایشن کے سابق صدر بدرالدین کاکڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچستان کو موجودہ آبادی کے لحاظ سے سو کلوگرام والی ڈیڑھ کروڑ بوری کی ضرورت ہے جبکہ بلوچستان میں گندم کی سالانہ پیداوارایک کروڑ بوری کے لگ بھگ ہے۔

’اگرچہ بلوچستان میں گندم کی پیداوار بہت زیادہ کم تو نہیں ہے لیکن یہاں لوگوں کے پاس اسے زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے لیے انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کو جلد سے جلد فروخت کریں

رواں سال حکومت بلوچستان نے گندم کی خریداری میں تاخیر کی جبکہ اس کے علاوہ سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری جو قیمت مقررکی گئی تھی وہ بلوچستان کے مقابلے میں زیادہ تھی جس کی وجہ سے نصیرآباد ڈویژن کے کاشتکاروں نے اپنی گندم سندھ میں فروخت کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال حکومت بلوچستان چار ماہ کے دوران پانچ لاکھ بوری گندم خرید سکی جو کہ طلب کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔

بلوچستان کے محکمہ خوراک کے حکام جابر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈالر کے ریٹ بڑھنے اور روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے سرکاری ریٹ کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں اس لیے کاشتکاروں نے اپنی گندم پرائیویٹ لوگوں کو فروخت کی۔

فلورملز مالکان اور آٹا ڈیلرز بلوچستان میں آٹے کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی ذمہ داری سندھ اور پنجاب کے ساتھ بلوچستان حکومت پر عائد کر رہے ہیں ۔

تاہم وزیرخوراک بلوچستان انجینیئر زمرک خان نے وفاقی حکومت کے علاوہ پنجاب ور سندھ کی حکومت کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں وفاق کے ساتھ دونوں صوبائی حکومتوں نے بھی بلوچستان کو گندم دینے سے انکار کیا ہے۔

وزیر خوراک کے مطابق بلوچستان اس وقت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اس لیے وفاق، پنجاب اور سندھ کو اسے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

آٹے کی قلت

’بحران کی بڑی وجہ سندھ اور پنجاب سے آٹے اور گندم کی بندش ہے‘

ڈائریکٹر جنرل محکمہ خوراک بلوچستان ظفراللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں گندم کی سالانہ پیداوار ایک کروڑ بوری ہے لیکن اس سال نصیرآباد میں موسمی حالات کی وجہ سے گندم کی فصل میں 30 فیصد کمی ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ محکمہ خوراک کو فنانس ڈیپارٹمنٹ سے پیسوں کے اجرا میں تاخیر بھی ہوئی۔

’ہمیں پیسے ملیں گے تو ہم خریداری کر سکیں گے۔ ہمیں پیسے اپریل کے آخر میں ملے۔ چونکہ کاشتکاروں کو قرضے چکانے کے علاوہ دیگر اخراجات کرنے ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنی فصل جلدی فروخت کرتے ہیں۔‘

انھوں نے وزیر اعظم ، سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مشکل حالات میں بلوچستان کو تنہا نہیں چھوڑیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *