لاپتہ جوہری بم جنھیں کوئی تلاش نہ کر سکا

لاپتہ جوہری بم جنھیں کوئی تلاش نہ کر سکا

لاپتہ جوہری بم جنھیں کوئی تلاش نہ کر سکا

سرد جنگ کے عروج کے دوران یہ ایک سرد صبح کی بات ہے۔ 17 جنوری 1966 کو صبح کے قریب 10 بج کر 30 منٹ کا وقت تھا۔ کچھ ہسپانوی مچھیروں نے آسمان سے گِرتا ایک سفید پارسل دیکھا جو بحیرۂ البحران کی طرف خاموشی سے بڑھ رہا تھا۔ اس کے نیچے کچھ عجیب تھا۔ انھیں یہ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہے۔ پھر یہ پارسل سمندری لہروں میں گم ہو گیا۔

قریب ہی پالوماریس نامی گاؤں میں مقامی لوگوں نے آسمان میں کچھ الگ منظر دیکھا۔ دو بڑے آگ کے گولے ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کچھ ہی سیکنڈز میں یہ علاقہ تباہ ہوگیا۔ عمارتیں ہِل کر رہ گئیں، دھماکے سے زمین دھنس گئی اور جسم کے ٹکڑے نیچے آگرے۔

کچھ ہفتوں بعد فلپ مائرز کو ٹیلی پرنٹر (فیکس جیسی مشین جس سے پیغامات بھیجے اور وصول کیے جاتے تھے) پر پیغام آیا۔ وہ مشرقی سسلی کے نیول ایئر اڈے پر بطور بم ڈسپوزل افسر کام کر رہے تھے۔ انھیں کہا گیا کہ سپین میں ایک ٹاپ سیکرٹ ایمرجنسی ہے اور انھیں تین روز میں وہاں پہنچنا ہوگا۔

تاہم یہ مشن اتنا خفیہ نہ تھا جتنی فوجی کو توقع تھی۔ مائرز کہتے ہیں کہ ’بلائے جانا کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی۔‘ عام لوگوں کو معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

جب ایک دعوت پر انھوں نے اس پراسرار دورے کا ذکر کیا تو اس میں دیا گیا ٹاپ سیکرٹ آپریشن کا پیغام مذاق بن گیا۔ ’یہ شرمندگی کا باعث تھا۔ اسے خفیہ رکھنے کا ارادہ تھا مگر میرے دوست مجھے بتا رہے تھے کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔‘

کئی ہفتوں سے دنیا بھر کے اخبار اس افسوس ناک واقعے کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ فضا میں دو امریکی فوجی طیارے ٹکرا گئے تھے جس سے پالوماریس پر چار بی ٹو ایٹ تھرمو نیوکلیئر بموں کا ملبہ گرا۔ انھیں جلد زمین پر ضبط کر لیا گیا تاہم ان میں سے ایک بم جنوب مشرق میں بحیرہ روم میں لاپتہ ہوگیا۔

پالوماریس پر چار بی ٹو ایٹ تھرمو نیوکلیئر بموں کا ملبہ گرا
پالوماریس پر چار بی ٹو ایٹ تھرمو نیوکلیئر بموں کا ملبہ گرا

ایک نامعلوم نمبر

درحقیقت یہ وہ واحد واقعہ نہیں جس میں کوئی جوہری ہتھیار لاپتہ ہوا۔ سنہ 1950 کے بعد سے ایسے کم از کم 32 ’بروکن ایرو‘ واقعات ہوئے ہیں جن میں تباہ کن ہتھیار گمشدہ قرار دیے گئے۔

کئی واقعات میں یہ ہتھیار غلطی سے گرائے گئے یا ایمرجنسی کے دوران پھینکے گئے۔ بعد میں ان میں سے اکثر کو ڈھونڈ لیا گیا۔ مگر مجموعی طور پر تین امریکی بم لاپتہ ہوئے ہیں۔ وہ آج تک لاپتہ ہیں جو زمین یا پانی میں کہیں چھپے پڑے ہیں۔

کیلیفورنیا میں جیمز مارٹن سینٹر فار نان پرولفریشن میں ایسٹ ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر جیفری لیوس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں زیادہ تر امریکی کیسز کا علم ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ 1980 کی دہائی میں امریکی محکمہ دفاع کی مکمل فہرست ڈی کلاسیفائی کی گئی تھی۔

کئی جوہری ہتھیار سرد جنگ کے دوران لاپتہ ہوئے جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی۔ 1960 سے 1968 کے دوران فضا میں ہر وقت طیارے جوہری ہتھیاروں کے ساتھ گھومتے تھے۔ اسے آپریشن ڈوم کا نام دیا گیا تھا۔

لیوس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں دوسرے ممالک کے بارے میں نہیں پتا۔ ہمیں برطانیہ، فرانس، روس یا چین کے بارے میں کچھ نہیں پتا۔ مجھے نہیں لگتا اس کی مکمل اکاؤنٹنگ ہوئی ہے۔‘

سوویت یونین کی جوہری تاریخ خاص طور سے تاریک ہے۔ 1986 تک اس نے 45 ہزار جوہری ہتھیار جمع کر لیے تھے۔ ایسے کئی واقعات منظر عام پر آئے ہیں جن میں کسی ملک نے جوہری بم کھو دیے اور بعد میں انھیں ڈھونڈ لیا۔ مگر امریکہ کے کیس میں تمام واقعات آبدوزوں پر ہوئے اور اگر ان تک پہنچنا مشکل تھا بھی تو ان کی لوکیشن معلوم تھی۔

8 اپریل 1970 کو جوہری توانائی سے چلنے والی سوویت آبدوز کے-8 کے ایئرکنڈشننگ سسٹم میں آگ لگ گئی۔ یہ سب مرین اس وقت خلیجِ بِسکے سے گزر رہی تھی جو شمال مشرقی بحر اوقیاس کے سپین اور فرانس کو چھونے والے ساحل کا ایک انتہائی خطرناک حصہ ہے۔ یہ علاقہ شدید سمندری طوفانوں کے لیے بد نام ہے اور کئی بحری جہاز یہیں اپنے انجام کو پہنچے ہیں۔ مذکورہ آبدوز پر چار نیوکلیئر تارپیڈو لدے ہوئے تھے اور جب یہ غرقآب ہوئی تو یہ تابکار مادہ بھی اس کے ساتھ سمندر کی تہہ میں چلا گیا۔

البتہ یہ آبدوزیں یا بحری جہاز جہاں ڈوبتے تھےہمیشہ وہیں نہیں رہتے تھے۔ سنہ 1974 میں ایک سوویت کے-129 ہوائی کے شمال مغرب میں بحرالکاہل میں ڈوبی تھی، اس پر تین نیوکلیئر میزائل بھی تھے۔ لوئیس کا کہنا ہے کہ امریکہ جو جلد ہی اس کا پتہ چل گیا اور اس نے اس جوہری انعام کو پانے کی خفیہ کوشش کی، ’جو اپنے آپ میں ایک حقیقی پاگل پن کا قصہ تھا۔‘

لاپتہ جوہری بم

امریکی ارب پتی ہاورڈ ہیوز نے، جو پائلٹ ہونے سے فلم ڈائریکٹر تک اپنی وسیع سرگرمیوں کے لیے شہرت رکھتے تھے، گہرے سمندر میں کان کنی کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ لوئیس کے بقول ’در حقیقت یہ سمندر کی گہرائی میں مائننگ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک ایسا طاقتور پنجہ بنانے کی کوشش تھی جو سمندر کی تہہ سے آبدوز کو نکال لائے۔ جب اسے اوپر اٹھایا جا رہا تھا تو آبدوز ٹوٹ گئی۔

’اور وہ جوہری ہتھیار پھر سے سمندر کی تہہ میں چلے گئے۔‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ہتھیار آج بھی زنگ چڑھتے خولوں کے اندر وہیں پڑے ہوئے ہیں، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ بعد میں انھیں نکال لیا گیا تھا۔

ہر کچھ عرصے کے بعد خبریں آتی ہیں کہ امریکہ کے کھوئے ہوئے جوہری ہتھیار بازیاب ہو گئے ہیں۔

سنہ 1998 میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر اور ان کی پارٹنر کو 1958 میں جورجیا کے ٹائبی آئلینڈ کے قریب گرائے گئے بم کو ڈھونڈنے کا جنون سوار ہو گیا۔ انھوں نے اس پائلٹ سے بات کی جس نے بم کو کھو دیا تھا، پھر ان لوگوں سے بات کی جنھوں نے اسے ان برسوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح ان کی تلاش کا دائرہ وساؤ ساؤنڈ تک محدود ہوگیا جو بحر اوقیانوس کے قریب واقع ایک خلیج ہے۔ اس جوڑے نے کئی برس تک اس علاقے میں تابکار شعاعوں میں اضافے کا پتہ چلانے کی کوشش کی۔

اور ایک دن بالکل اسی جگہ جس کی نشاندہی پائلٹ کی تھی دوسری جگہوں کے مقابلے میں تاربکار شعاعوں میں 10 گنا اضافہ نظر آیا۔ حکومت نے فوراً وہاں پر تحقیقات ٹیم بھیجی۔ مگر افسوس کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار نہیں نکلا۔ تاربکار شعاعوں میں یہ اضافہ سمندر کی تہہ میں موجود معدنیات سے قدرتی طور پر خارج ہونے والی تابکاری کی وجہ سے تھا۔

لہذا اب امریکہ کے گمشدہ تین ہائڈروجن بم اور کم سے کم کئی سوویت تارپیڈو اب سمندر میں ایٹمی جنگ کے خطرات کی یادگاریں ہیں، اگرچہ زیادہ تر لوگ اب انھیں بھول چکے ہیں۔ یہ ہتھیار ہمیں مل کیوں نہیں پائے؟ کیا ان کے پھٹنے کا خطرہ ہے؟ اور کیا کبھی وہ ہمیں واپس ملیں گے؟

لپٹی ہوئی چیز

مائیرز بالآخر جب پالوماریس پہنچے، جہاں 1966 میں ایک بی52 طیارہ گرا تھا، تو حکام کو ایک گمشدہ ایٹم بم کی تلاش میں مصروف پایا۔ انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ہر رات خیموں میں گزاری جن میں سخت سردی اور رطوبت تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’یہ بالکل انگلش وِنٹر (انگلینڈ کی سردی) کی طرح تھا۔‘ دن میں بھی وہ زیادہ کام نہیں کر پاتے تھے، یہ ایک طویل انتظار کا کھیل تھا۔

مائیرز کہتے ہیں، ’فوج کے اندر یہ معمول کی بات ہے، جلدی کرو اور پھر انتظار۔ ہم ایک کام میں جلدی کرتے اور پھر دو ہفتے تک کرنے کو کچھ نہ ہوتا۔ اور اس کے بعد زیر آب تلاش کا کام سنگین ہوگیا۔‘

الوِن آبدوز
الوِن آبدوز

تلاش کے لیے جانے والی ٹیم نے دو انتہائی ذہانت سے کی گئیں ایجادوں سے مدد حاصل کی۔ ایک تو 18ویں صدی میں شوقیہ میتھمیٹشیئن پریسبائٹیرین کا پیش کردہ تیھورم یا کلیہ تھا جسے استعمال کرکے لوگ پرانے واقعات کی بنیاد پر حساب لگا کر ان کے دوبارہ واقع ہونے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اس طریقے کو انھوں نے بم کی تلاش کے لیے ممکنہ درست جگہ کا تعین کرنے کے لیے استعمال کیا تاکہ اس کے ملنے کے امکان کو زیادہ سے زیادہ کیا جا سکے۔

دوسری چیز ’الوِن‘ تھی، ایک ایسی جدید ترین آبدوز جو سمندر کی تہہ میں ان گہرائیوں تک اترنے کی اہل تھی جہاں تک پہلے کوئی نہیں جا سکا تھا۔ یہ سفید شارک کی طرح بحیرۂ روم کے پانیوں میں روزانہ اترتی چلی جاتی اور اس کے پیٹ میں عملہ سوار ہوتا تھا۔

آخر کار یکم مارچ 1966 کو اسے کوئی چیز نظر آئی، وہ راستہ جو بم نے سمندر کی تہہ میں گرتے وقت بنایا تھا۔ بعد کی تصویروں سے پتا چلا کہ اس سر پر کوئی چیز منڈھی ہوئی ہے، جو دراصل اس سفید پیرا شوٹ کا ٹکڑا تھا جو گرتے وقت آدھا کھل گیا تھا اور اس کے بعد آنے والے سامان میں الجھ گیا تھا۔ دھات کا یہ خطرناک ٹکڑا ایک ایسے شخص کی صورت اختیار کر گیا تھا جس نے بستر کی کوئی چادر اڑھ رکھی ہو۔

مگر یہ کوشش ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اب یہ مائیرز کی ذمہ داری تھی کہ وہ بم کو سمندر کی 869 مٹیر گہری تہہ سے باہر لائے۔ انھوں نے مضبوط نائیلون اور دھاتے کنڈے کی مدد سے ایک رسی بنائی تاکہ اسے بم میں اٹکا کر اسے اس حد تک اوپر لایا جائے کہ غوطہ خور نیچے جا کر اسے زیادہ بہتر انداز میں جکڑ سکیں۔ مائیرز کہتے ہیں، ’پلان یہ ہی تھی، مگر چلا نہیں۔

’یہ بہت آہستگی اور احتیاط کے ساتھ کیا گیا۔ ہم ایک طرح سے انتظار کرتے رہے، ہم گھبرائے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کے جب وہ اوپر آئے تو ہم اپنے اگلے قدم کے لیے تیار ہوں۔‘ وہ کنڈا ایٹم بم میں ڈالنے میں کامیاب رہے اور اسے پانے سے نکالنے کے لیے اوپر کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ انھوں نے اسے تہہ سے اوپر اٹھا لیا تھا جب مصیبت آ گئی۔ پیراشوٹ جاگ اٹھا اور اپنا کام شروع کر دیا، یعنی اس نے بم کو اوپر کی جانب لانے کی رفتار کم کر دی۔

مائیرز کہتے ہیں، ’آپ کو اندازہ ہوا کہ پیراشوٹ پانی کے اندر بھی ویسے ہی کام کرتے ہیں جیسا کہ زمین پر؟‘ آخر کار پیراشوٹ کے دباؤ کی وجہ رسی ٹوٹ گئی اور بم واپس تہہ میں جانے لگا۔ اس بار وہ پہلے سے بھی زیادہ گہرائی میں چلا گیا۔ (الوِن اور اس پر موجودہ عملہ بمشکل خود کو اس کے ساتھ نیچے تہہ میں جانے سے بچا سکا۔‘

امریکی بحری جہاز یو ایس ایس ٹائی کونڈیروگا سے لاپتہ ہونے والے بم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اب بھی جاپان کے شہر اوکیناوا کے ساحل سے 50 میل دور کہیں موجود ہے
امریکی بحری جہاز یو ایس ایس ٹائی کونڈیروگا سے لاپتہ ہونے والے بم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اب بھی جاپان کے شہر اوکیناوا کے ساحل سے 50 میل دور کہیں موجود ہے

مائیرز پر تو جیسے مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ وہ کہتے ہیں، ’یہ بہت مایوس کن تھا۔‘ بم تک پہنچنا اب پہلے سے دشوار ہو گیا تھا۔ ان کی رسی اتنی لمبی نہیں تھا کہ اس تک پہنچی اس لیے یہ ذمہ دار ایک دوسری ٹیم کو سونپ دی گئی۔

اس مرتبہ انھوں نے ایک دوسری طرح کی روبوٹک سبمیرین استعمال کی۔ انھوں نے ایک زیر آب گاڑی کی مدد سے بم کو اس کے ساتھ لگے ہوئے پیراشوٹ سے پکڑا اور اوپر کی طرف کھینچا۔ وہ اپنے خول میں پہلو بدل چکا تھا اس لیے اسے معمول کے طریقے ناکارہ نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ ماہرین کو ایک خطرناک راستہ اختیار کرنا پڑا۔ انھوں نے نیوکلیئر بم کو کاٹ کر جگہ بنائی۔ مائیرم کا کہنا ہے، ’ہائیڈروجن بم کے اندر سوراخ کرنا اعصاب شکن ہوتا۔ مگر انھوں نے کیا۔ وہ اس کے لیے تیار تھے۔‘

دلدلی معمہ

بدقسمتی سے تین گمشدہ بموں کی تلاش کامیاب نہیں رہی۔ البتہ ان کی وجہ سے کسی ایٹمی دھاکے کے خدشات کو کم تصور کیا جایا ہے۔

ایسا کیوں ہے، یہ جاننے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایٹم بم کام کیسے کرتے ہیں۔

ستمبر 1905 میں البرٹ آئنسٹائن نے وہ مشہور نظریہ پیش کیا جو E = mc2 سے جانا جاتا ہے، یعنی توانائی کسی شے کی کمیت کو روشنی کی رفتار کے مربع سے ضرب کے برابر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں موجود ہر ایٹم کو توانائی میں بدلا جا سکتا ہے اور توانائی سے ایٹم بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر اس عمل کا پتا چل جائے تو اس کے کرنے سے بہت زیادہ توانائی خارج ہوگی، یہ ہی عمل سورج کو اتنا طاقتور بناتا ہے۔

34 برس بعد آئنسٹائن نے امریکی صدر فرینکلین روزویلٹ کو لکھا کہ جرمن نازی ان کے نظریے کو عملی شکل دے کر ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد جو ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ مینہیٹن پراجیکٹ پر بہت تیزی سے عمل ہوا، اور 1945 میں امریکہ نے پہلا ایٹم بم گرایا۔

مارشل جزائر کے پاس بکنی اٹول میں کیا جانے والا ایٹمی تجربہ
مارشل جزائر کے پاس بکنی اٹول میں کیا جانے والا ایٹمی تجربہ

جاپانی شہروں ہیروشیما اور – چند روز بعد – ناگاساکی پر گرائے جانے والے خالص ایٹم بم تھے۔ اس عمل کے دوران تاربکار عناصر کے ایٹموں کو ایک دوسرے سے ٹکرایا گیا تاکہ وہ ٹوٹ کر دوسرے عناصر میں بن جائیں۔ اس عمل کو فِیژن کہتے ہیں اور اس کے ردعمل میں اتنی توانائی خارج ہوتی ہے کہ اس سے دوسرے ایٹم ٹوٹتے ہیں، یہاں تک کہ یہ ردعمل قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ جب پہلی بار اس کی آزمائش کی گئی تو سائنسدانوں کو یقین نہیں تھا کہ یہ ردعمل کبھی رکے گا بھی، ان کا خیال تھا کہ شاید اس سے دنیا واقعی میں ختم ہو جائے۔

نیوکلیئر فیِژن حاصل کرنے کے لیے ایٹم بموں کے اندر ایک طرح سے بندوق چلانے کا عمل کیا جاتا ہے یعنی ان کے اندر موجود یورینیم 235 میں مزید یورینیم235 کی ایک گولی چلائی جاتی ہے، یا پلوٹونیم 239 کے ایٹموں کو دبانے کے لیے رواتی طریقے سے دھماکے کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ٹوٹنے لگ جاتے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے ان ابتدائی بموں کے نتیجے میں شہر زمیں بوس ہوگئے، میلوں تک کے علاقے میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے، جن میں سے کچھ تو دھماکے کی جگہ پر بھاپ میں تبدیل ہو گئے تھے، جبکہ دوسرے تاربکاری کے سبب جل جانے اور بیمار پڑنے سے آنے والے دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے دوران ہلاک ہوئے۔

ان بموں کی اگلی قسم- جو 1950 اور 1960 کی دہائی میں بنائی گئیں، جس دوران دنیا کے ایٹمی ہتھیاروں کی اکثریت گم ہوئی – پہلے بموں کے مقابلوں میں ہزاروں گنا طاقتور تھی۔ یہ تھرمونیوکلیئر یا ہائیڈروجن بم تھے، اور ان میں ایک دوسرا نیوکلئیر ری ایکشن (جوہری ردعمل) بھی موجود تھا۔

پہلا ایٹم بموں کی طرح فیژن تھا، جس میں توانائی یکے بعد دیگر الگ الگ مقدار میں خارج ہوتی ہے۔ اس کے بعد دوسرا رد عمل شروع ہوتا ہے جس میں ہائیدروجن کے آئیسوٹوپ ڈیوٹریئم (بھاری ہائیڈروجن) اور ٹرائیٹیئم (تابکار ہائیڈروجن) کو آپس میں ٹکرایا جاتا ہے جس سے وہ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً اور زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے اور ہیلیم اور آزاد نیوٹرون وجود میں آتے ہیں۔

اس عمل نے حفاظتی آلات کا استعمال ممکن بنایا۔

گمشدہ ٹائبی بم کو ہی لیں جو کہ امریکی ریاست جارجیا کی خلیج میں واسا ساؤنڈ جزیرے کی مٹی میں کہیں پڑا ہوا ہے۔ 5 فروری سنہ 1958 کو یہ 7,600 پاؤنڈ یعنی 3400 کلوگرام وزنی مارک 15 تھرمونیوکلیئر ہتھیار بی-47 بمبار طیارے پر لادا گیا تھا جو ایک اور بی-47 بمبار طیارے کے ساتھ ایک طویل تربیتی مشن پر شامل ہونے والا تھا۔ یہ خیال سوویت یونین پر حملے کی نقل کرنا تھا، جس میں امریکہ کے ورجینیا میں ریڈفورڈ شہر کو ماسکو کے طور پر سمجھ کر اس پر مشق کرنا تھا۔ پائلٹ فلوریڈا سے روانہ ہوئے اور اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے وہ طیارے پر بھاری ہتھیاروں کے ساتھ کئی گھنٹوں تک آڑا ترچھا سفر کیا۔

لاپتہ جوہری بم

ان کا سفر ٹھیک رہا لیکن اڈے پر واپسی کے راستے میں انھیں جنوبی کیرولینا میں جاری ایک دوسرے تربیتی مشن کا سامنا ہو گیا۔ اس گروپ کا منصوبہ بی-47 طیاروں میں سے ایک کو روکنا تھا۔ لیکن کچھ الٹ پلٹ ہو گیا اور دوسرا طیارہ انھیں نظر نہیں آیا جو کہ جوہری ہتھیار لے کر جا رہا تھا۔ آنے والے حادثے میں جوہری بم لے جانے والے B-47 کو نقصان پہنچا۔

پائلٹ نے ایٹمی بم کو پانی میں گرانے کا فیصلہ کیا، اور پھر طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کی۔ بم ٹائیبی جزیرے کے پانی میں 30,000 فٹ (9,144 میٹر) کی بلندی سے گرا۔ اتنی اونچائی سے گرنے کے باوجود یہ نہیں پھٹا۔ حیرت انگیز طور پر 32 ٹوٹے ہوئے تیر کے حادثات میں سے کوئی بھی جوہری ہتھیار میں دھماکے کا باعث نہیں بن سکا، البتہ دو کے تابکار مواد پھیلے جس سے وسیع علاقے میں آلودگی پیدا ہوئی۔

خوش قسمتی یہ رہی کہ اس میں دھماکے کے لیے ایک ممکنہ عنصر فِشن ری ایکشن درکار ہوتا ہے جو جوہری مواد کو ہتھیار سے الگ رکھنے کا نظام ہے۔ کیپسول یا ‘ٹپ’ جو پلوٹونیم پر مشتمل ہوتا ہے اسے آخری لمحات میں ضرورت پڑنے پر ہتھیار سے شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہتھیار پرواز کے دوران چل بھی جاتا ہے تو تابکار مواد اتنا گرم نہیں ہوگا کہ حقیقت میں کوئی ایٹم میں تقسیم کا باعث بن سکے۔

لیوس یہ بھی بتاتے ہیں کہ ٹائیبی بم کے آسمان سے سمندر تک کے طویل سفر کے باوجود اس کو دھچکہ کم لگا ہوگا کیونکہ خلائی کیپسول کی عام طور پر زمین پر گرنے کے بجائے ‘سپلیش ڈاؤن’ لینڈنگ ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ بموں میں ‘ون پوائنٹ سیفٹی’ جیسی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں جو یہ یقینی بناتی ہیں کہ جوہری آلات بغیر ایکٹیویٹ کیے نہ چل سکیں۔ ان جوہری ہتھیاروں میں روایتی دھماکہ خیز مواد تو چل سکتا ہے لیکن یہ تابکار مواد میں دھماکہ نہیں پیدا کر سکتا کیونکہ اسے دبانے سے پہلے نچوڑ لیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر دھماکہ خیز مواد چل جاتا ہے، تو آپ چاہتے ہیں کہ یہ ناہموار طریقے سے چلے، اگر یہ آپ کا مقصد نہیں ہے تو پھر آپ چاہتے ہیں کہ اس کا پلوٹونیم کسی طرح نکل جائے۔’

ایسے میں بہت سی حفاظتی خصوصیات کا ہونا انتہائی ضروری ہے، ایسا اس لیے بھی کہ عام طور پر وہ ہمیشہ کام نہیں کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر سنہ 1961 میں ایک معاملہ اس وقت سامنے آيا تھا جب شمالی کیرولائنا کے گولڈسبورو کے اوپر پرواز کرتے ہوئے ایک بی-52 طیارہ ٹوٹ گیا اور اس سے دو ایٹمی ہتھیار زمین پر گر گئے۔اس میں سے ایک کو پیراشوٹ کے کامیابی کے ساتھ کھلنے کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچا لیکن بعد میں کی گئی جانچ سے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں چار میں سے تین حفاظتی اقدامات ناکام ہو گئے تھے۔

پالومیرس بم کو ایک روبوٹک آبدوز کے زریعے نکالا گیا
پالومیرس بم کو ایک روبوٹک آبدوز کے زریعے نکالا گیا

1963 کی ایک ڈی کلاسیفائڈ دستاویز میں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع نے اس واقعے کا لب لباب اس طرح پیش کیا تھا کہ ‘صرف قسمت سے، سچ کہیں تو دو تاروں کے نہ جڑنے سے، ایک جوہری دھماکہ ہونے سے بال بال بچے۔’

دوسرا ایٹمی بم زمین پر گرا، جہاں وہ ٹوٹ کر ایک کھیت میں سرایت کر گیا۔ اس کے زیادہ تر حصوں کو برآمد کر لیا گیا ہے لیکن یورینیم پر مشتمل ایک حصہ 50 فٹ یعنی 15 میٹر سے زیادہ اندر کیچڑ میں پھنسا ہوا ہے۔ امریکی فضائیہ نے لوگوں کو کھدائی سے روکنے کے لیے اس کے اردگرد کی زمین خرید لی۔

کچھ واقعات اتنے چونکا دینے والے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ بنائے گئے ہیں۔ ایسا ہی شاید سب سے زیادہ غیر معمولی واقعہ اس وقت پیش آیا جب سنہ 1965 میں یو ایس ایس ٹائیکوڈیروگا ایک تربیتی مشق کے دوران غلطی کا شکار ہو گیا۔ ایک سکائی ہاک کو طیارے کی لفٹ تک پہنچایا جا رہا تھا جبکہ بی-43 ایٹمی بم سے لدا ہوا تھا۔ یہ سست رفتاری میں ہونے والی ایک تباہی تھی، پھر ڈیک پر موجود عملے کو جلدی سے احساس ہوا کہ طیارہ گرنے والا ہے، اور اس نے پائلٹ کو بریک لگانے کے لیے اشارہ کیا۔ افسوس کہ پائلٹ نے اسے نہیں دیکھا، اور نوجوان لیفٹیننٹ، طیارہ اور ہتھیار سمیت فلپائنی سمندر میں غائب ہو گئے۔ وہ آج بھی ایک جاپانی جزیرے کے قریب 16,000 فیٹ (4,900 میٹر) پانی کے نیچے موجود ہیں۔

ایک مبہم تصویر

تقریباً 10 ہفتوں کی تلاش کے باوجود ٹائیبی جزیرے کے بم کے لیے 16 اپریل سنہ 1958 کو ناقابل حصول کے طور پر گم ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ اسے گرانے والے پائلٹ کی طرف سے لکھی گئی رسید کے مطابق، ہتھیار میں کیپسول نہیں تھا کیونکہ اسے مشق سے پہلے اس کے ساتھ نہیں جوڑا گیا تھا۔ کچھ لوگ فکر مند ہیں کہ یہ بات درست نہیں بھی ہوسکتی ہے۔ سنہ 1966 میں اس وقت کے سیکریٹری دفاع کے معاون نے ایک خط لکھا جس میں انھوں نے بم کو ‘مکمل’ قرار دیا تھا یعنی اس میں پلوٹونیم لگا ہوا تھا۔ اگر یہ سچ تھا تو، مارک 15 اب بھی مکمل طور پر تھرمونیوکلیئر دھماکہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

آج سمجھا جاتا ہے کہ یہ بم سمندری فرش پر 5 سے 15 فیٹ یا ڈیڑھ سے ساڑھے چار میٹر گاد کے نیچے پڑا ہے۔ سنہ 2001 میں شائع ہونے والی ہتھیاروں کے بارے میں ایک حتمی رپورٹ میں، ایئر فورس نیوکلیئر ویپنز اینڈ کاؤنٹر پروفلیشین ایجنسی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر اندر موجود روایتی دھماکہ خیز مواد اب بھی برقرار ہے، تو یہ اہلکاروں اور ماحولیات کے لیے ‘سنگین دھماکے کا خطرہ’ پیدا کر سکتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس کی بازیابی کی کوشش کرکے اسے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔

لیکن کیا ایٹمی ہتھیار پانی کے اندر پھٹ سکتے ہیں؟

بیکر ٹیسٹ کے دوران ڈوبنے والا جہاز
بیکر ٹیسٹ کے دوران ڈوبنے والا جہاز

ایسا ہو سکتا ہے۔ 25 جولائی سنہ 1946 کو امریکہ نے بکنی ایٹول جزیرے پر ایٹم بم کا دھماکہ کیا۔ یہ جزیرہ افیروزی مرجان کی چٹانوں سے گھرا ہوا بحر الکاہل کے گہرے نیلے پانی میں موجود ٹراپیکل جزیروں کے سلسلے میں سے ایک ہے۔ انھوں نے اس آلے کو سوروں اور چوہوں سے بھرے ہوئے جہازوں کے نیچے رکھ کر چلا دیا۔ کئی جہاز فوری طور پر ڈوب گئے، اور جانوروں کی اکثریت ابتدائی دھماکے یا بعد میں ہونے والی تابکاری کے زہر سے مر گئی۔ اس دن سفید کھمبی کے بڑے بادل جیسی ایک حیرت انگیز تصویر ساحل کے سامنے ابھری۔

اس اور دیگر تجربوں کے نتیجے میں جزیرے کا وہ سلسلہ اتنا تابکار ہو گیا کہ پلاکٹن فوٹو گرافی کی پلیٹوں پر چمکنے لگا۔ یہ علاقہ آج تک آلودہ ہے۔ جو لوگ کبھی وہاں آباد تھے وہ کبھی واپس نہیں جا سکے اور چرنوبل کی طرح یہ جنگلی حیات کے لیے نخلستان بن گیا ہے۔

ایک مستقل نقصان

لیوس کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہم تین لاپتہ ایٹمی بموں کو تلاش کر سکیں۔ یہ جزوی طور پر انہی وجوہات کی بنا پر جو پہلی جگہ نہ ملنے کا سبب تھے۔

ایک یہ کہ وہ عام طور پر دیکھ کر ہی تلاش کیے جا سکتے ہیں اور سمندر کی گہرائیوں میں یہ انتہائی مشکل ہے۔

جب طیارے حادثے کا شکار ہو کر سمندر میں گرتے ہیں، تو بلیک باکس اکثر دنوں یا ہفتوں بعد حکام کو مل جاتے ہیں جس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ کیا ہوا تھا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ پانی کے ان وسیع و عریض حصوں میں ایسی اشیاء کو تلاش کرنا آسان ہے۔ لیکن ان کے پاس ایک راز ہے جو اس عمل میں مدد کرتا ہے۔ یہ ‘پانی کے اندر لوکیشن بیکن’ ہے جو بار بار الیکٹرانک پلس چھوڑتا ہے اور تلاش کرنے والی ٹیموں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے سگنل بھیجتا ہے۔

کھوئے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ایسا کوئی آلہ نصب نہیں تھا۔ اس کے بجائے اس طرح کی تلاش میں پہلے اس حصے کو نشان زد کیا جائے گا اور پھر انسانی غوطہ خوروں یا آبدوزوں کی مدد سے اسے تھوڑا تھوڑا تلاش کیا جائے گآ جو کہ ایک صبر آزما اور ناکارہ عمل ہے۔

اس کا ایک متبادل یہ ہوگا کہ تابکاری میں ابھار کی تلاش کی جائے، جیسا کہ ریٹائرڈ فوجی افسر ڈیرک ڈیوک نے ٹائیبی بم کی تلاش میں کیا تھا۔ لیکن یہ بھی انتہائی مشکل ہے۔ جزوی طور پر اس لیے کہ جوہری بم دراصل خاص طور پر تابکار نہیں ہوتے۔

لیوس کا کہنا ہے کہ ‘انہیں اس لیے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ان کو سنبھالنے والے لوگوں کے لیے تابکاری خطرہ نہ ہو۔ لہذا ان میں تابکاری کے عوامل ہوتے ہیں، اگرجہ بہت اہم نہیں بھی ہوں لیکن آپ کو اس کے کافی قریب ہونا پڑتا ہے۔’

یو ایس ایس سکورپیئن دو مارک 45تارپیڈوز کے ساتھ ڈوب گئی تھی 54 سال سے زیر آب ہے
یو ایس ایس سکورپیئن دو مارک 45تارپیڈوز کے ساتھ ڈوب گئی تھی اور 54 سال سے زیر آب ہے

سنہ 1989 میں کے-278 کومسومولتس نامی ایک اور سوویت ایٹمی آبدوز ناروے کے ساحل سے دور بحیرۂ بیرنٹس میں ڈوب گئی۔ کے-8 کی طرح یہ بھی جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوز تھی، اور اس وقت اس میں دو ایٹمی ٹارپیڈو رکھے تھے۔ کئی دہائیوں سے اس کا ملبہ آرکٹک کے پانی میں ایک میل (1.7 کلومیٹر) گہرا نیچے پڑا ہے۔

لیکن سنہ 2019 میں سائنسدانوں نے ڈوبے ہوئے جہاز کا پھر دورہ کیا اور انھوں نے یہ پایا کہ اس کے وینٹیلیشن پائپ سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں تابکاری کی سطح سمندر کے پانی میں عام طور پر توقع سے 100,000 گنا زیادہ تھی۔ کسی بھی طور یہ غیر معمولی بات تھی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے جوہری ٹارپیڈو کے برخلاف جوہری ری ایکٹر سے تابکار عناصر اس سوراخ سے باہر نکل رہے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر اس کے ٹوٹنے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ لیکن پائپ سے صرف آدھا میٹر (1.6 فٹ) مزید دور، آئسوٹوپس اس قدر زیادہ مل گئے تھے کہ تابکاری کی سطح معمول کے مطابق تھی۔

کھوئے ہوئے جوہری ہتھیاروں میں لیوس کی دلچسپی اس سے ممکنہ لاحق خطرات نہیں ہیں بلکہ خطرناک ایجادات کو محفوظ طریقے سے سنبھالنے کے لیے ہمارے بظاہر جدید ترین نظام کی کمزوری میں ہیں۔

لیوس کہتے ہیں: ‘میرے خیال میں ہمارے پاس یہ تصور ہے کہ جو لوگ جوہری ہتھیاروں کو سنبھالتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ان تمام لوگوں سے مختلف ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں، کم غلطیاں کرتے ہیں، یا یہ کہ وہ کسی نہ کسی طرح زیادہ ہوشیار ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تنظیمیں جو جوہری ہتھیاروں کو ہینڈل کرتی ہیں وہ کسی دوسری انسانی تنظیم کی طرح ہی ہیں۔ وہ غلطیاں کرتی ہیں۔ وہ ناقص ہیں۔’

یہاں تک کہ پیلومارس میں جہاں گرائے گئے تمام جوہری بموں کو بالآخر ہٹا لیا گیا ہے لیکن وہاں کی زمین اب بھی دو بموں کی تابکاری سے آلودہ ہے جو روایتی دھماکہ خیز مواد سے پھٹا تھا۔ کچھ امریکی فوجی اہلکار جنھوں نے صفائی کی ابتدائی کوششوں میں مدد کی تھی اور جنھوں نے وہاں کی مٹی کو کھوٹ کر بیرل میں ڈالا تھا ان میں پراسرار کینسر پیدا ہو چکے ہیں اور اپنی بیماری کے بارے میں ان کا کہنا کہ یہ اس صفائی کے کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ سنہ 2020 میں بچ جانے والوں کی ایک بڑی تعداد نے سابق فوجیوں کے امور کے سکریٹری کے خلاف کلاس ایکشن مقدمل دائر کیا ہے، اگر چہ ان میں سے بہت سے دعویدار اس وقت اپنی عمر کی 70 اور 80 کی دہائی کے آخر میں ہیں۔

دریں اثنا مقامی برادریاں کئی دہائیوں سے مزید مکمل صفائی کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔ پیلوماریس کو ‘یورپ کا سب سے زیادہ تابکار شہر’ کہا گیا ہے، اور مقامی ماہرین ماحولیات اس وقت ایک برطانوی کمپنی کی جانب سے اس علاقے میں چھٹیوں کا تفریحی مقام بنانے کے منصوبے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

لاپتہ پالوماریس بم بازیابی کی بعد
لاپتہ پالوماریس بم بازیابی کی بعد

لیوس کو یقین ہے کہ سرد جنگ کے دوران ہونے والے نقصانات کے دوبارہ ہونے کا امکان نہیں ہے، زیادہ تر اس وجہ سے کہ آپریشن کروم ڈوم سنہ 1968 میں ختم ہو چکا ہے اور یہ کہ جوہری بم لے جانے والے طیارے اب باقاعدہ تربیتی مشقوں کے دوران ادھر ادھر نہیں اڑتے۔ وہ کہتے ہیں: ‘ہوا سے متعلق انتباہات کا خاتمہ ہو گیا اور ہم جانتے ہیں کہ کیوں ہوا ہے۔ کیونکہ بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ بہت خطرناک ہیں۔’

اس پیشرفت میں استثنی بھی ہے جو کہ جوہری آبدوزیں ہیں اور آج بھی وہ بال بال بچ رہی ہیں۔ امریکہ کے پاس اس وقت 14 بیلسٹک میزائل آبدوزیں (SSBNs) ہیں، جب کہ فرانس اور برطانیہ کے پاس چار چار ہیں۔

نیوکلیئر ڈیٹرنٹ کے طور پر کام کرنے کے لیے ان آبدوزوں کا سمندر میں آپریشن کے دوران مخفی رہنا ضروری ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سطح پر کوئی سگنل نہیں بھیج سکتیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کا محل وقوع کہاں ہے۔ اس کے بجائے انھیں زیادہ تر زیادہ تر جھٹکے سے چلنا چاہیے جس میں عملہ بنایادی طور پر گائروسکوپس سے لیس مشینوں پر انحصار کرتا ہے تاکہ یہ اندازہ لگا سکے کہ آبدوز کس وقت کہاں ہے، اس بنیاد پر کہ یہ آخری بار کہاں تھی، اس کا رخ کس طرف تھا اور یہ کتنی تیزی سے سفر کر رہی تھی۔ ممکنہ طور پر حساب کتاب کے اس غلط نظام کے نتیجے میں متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں سنہ 2018 میں ایک برطانوی SSBN ایک کشتی تقریباً سے ٹکرا گیا تھا۔

ایسے میں یوں لگتا ہے کہ گمشدہ جوہری ہتھیاروں کا دور شاید ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

*اس مضمون کو 5 اگست 2022 کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ اصل ورژن میں کہا گیا تھا کہ پروجیکٹ ایزوین میں کے-29 کے بجائے کے-8 آبدوز شامل تھی جبکہ ایسا نہیں تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *