قرض معاہدے کی نظرثانی درخواست پر آئی ایم ایف کا

قرض معاہدے کی نظرثانی درخواست پر آئی ایم ایف کا

قرض معاہدے کی نظرثانی درخواست پر آئی ایم ایف کا ردعمل اب پاکستان کو کیا کرنا ہو گا؟

بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ طے پانے والے موجودہ پروگرام پر نظر ثانی کرنے کی پاکستان کی درخواست کا جائزہ فی الحال نہیں لیا جا رہا بلکہ یہ اس وقت لیا جائے جب قرض معاہدے کے چھٹے جائزے کے حوالے سے پاکستانی حکام سے بات چیت ہو گی۔

یاد رہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے مابین قرض معاہدے کا آئندہ جائزہ، یعنی چھٹا جائزہ، رواں برس جولائی میں ہو گا۔

جمعہ کے روز دی جانے والی بریفنگ میں آئی ایم ایف نمائندے سے پوچھا گیا تھا کہ آیا بین الاقوامی مالیاتی ادارہ پاکستان کی قرض معاہدے میں نظر ثانی کی درخواست پر غور کر رہا ہے؟

یاد رہے کہ پیر کے روز پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے موجودہ معاہدے پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بہت مشکل ہے، آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھیں ہیں جن کی سیاسی قیمت ہے، ہم آئی ایم ایف پروگرام سے نہیں نکلیں گے، پروگرام چل رہا ہے البتہ آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر ہے، ہمیں سہولت دینا ہو گی۔‘

معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف کا یہ بیان پاکستان کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔

’اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی حالیہ نظر ثانی کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے کوئی سپیشل جائزہ اجلاس نہیں ہو گا بلکہ اب اس حوالے سے بات چیت جولائی میں ہی ہو گی جب شیڈول کے مطابق چھٹا جائزہ اجلاس منعقد ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران پاکستان کو ان تمام شرائط پر عمل پیرا ہونا پڑے گا جس پر پہلے سے اتفاق ہے اور جس کے تحت پاور سیکٹر کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنا بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ جائزہ اجلاس میں پاکستان کو قرض معاہدے میں مزید رعایتیں نہ دینے کی بات کی گئی تھی۔

پاکستان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں آئی ایم ایف نمائندے کا مزید کہنا تھا کہ ’(فی الحال) پاکستان کے بارے میں ایک سٹیٹس رپورٹ پیش کر سکتا ہوں جو ہم نے زیر التوا جائزے مکمل کرنے کے بعد تقریباً ایک ماہ قبل ہی مکمل کی ہے۔۔۔ جس کے تحت پاکستان کو لگ بھگ 50 ملین ڈالر کی قسط کا اجرا کیا گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ کورونا وبا سے درپیش مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سپورٹ کرنے کو تیار ہے پاکستانی حکام کے ساتھ گفتگو کرنے کا منتظر ہے مگر اس وقت جب قرض معاہدے کا چھٹا جائزہ لینے کا وقت شروع ہو گا (یعنی جولائی 2021 میں)۔

کرنسی

واضح رہے کہ جولائی 2019 میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلیٹی (ای ایف ایف) کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا قرضہ بیرونی ادائیگیوں اور پائیدار معاشی ترقی کے لیے دیا جانا ہے۔

ایک تعطل کے بعد رواں برس فروری میں یہ معاہدہ پھر بحال ہوا تھا اور مارچ 2021 میں پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قرضے کی قسط جاری کی گئی تھی، جس کے ساتھ پاکستان کو مجموعی طور پر دو ارب ڈالر کی رقم آئی ایم ایف سے وصول ہو چکی ہے۔

آئی ایم ایف کا پاکستان سے موجودہ پروگرام اس وقت التوا کا شکار ہو گیا تھا جب گذشتہ برس فروری میں پاکستان نے آئی ایم ایف شرائط کے تحت پاور سیکٹر کے نرخوں میں مزید اضافے کو جون کے مہینے تک ملتوی کرنے کا کہا تھا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا اس پروگرام پر دوسرا نظرثانی جائزہ نہیں ہو سکا تھا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے اس پروگرام کے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق کچھ شرائط تھیں جن میں نمایاں بجلی کے قانون یعنی نیپرا ایکٹ میں ترامیم، سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکٹ میں ترامیم، اضافی ٹیکس کی وصولی اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ اور مختلف شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ شامل تھی۔

پاکستان کے نئے وزیر خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟

شوکت ترین
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں آئی ایم ایف کو ثابت کرنا ہے کہ ہم جو اقدامات کریں گے اس سے پیسے بنا سکیں گے۔’

پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے دو روز قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے پانے والے موجودہ پروگرام سے نکلے گا نہیں البتہ اس کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے گی۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں آئی ایم ایف کو ثابت کرنا ہے کہ ہم جو اقدامات کریں گے اس سے پیسے بنا سکیں گے۔‘

شوکت ترین کے مطابق اس موجودہ پروگرام کی وجہ سے معیشت متاثر ہو رہی ہے اور عوام پر بہت زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے جس میں خاص طور پر بجلی کے نرخوں میں اضافے کی شرائط شامل ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *