فیفا کا پی ایف ایف کی رکنیت معطلی کا فیصلہ پاکستانی

فیفا کا پی ایف ایف کی رکنیت معطلی کا فیصلہ پاکستانی

فیفا کا پی ایف ایف کی رکنیت معطلی کا فیصلہ پاکستانی فٹبال کی پریشانیوں میں مزید کتنا اضافہ کرے گا؟

فٹبال کے بین الاقوامی نگراں ادارے کی جانب سے پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف ) کی رکنیت معطل کیے جانے کا فیصلہ کسی طور بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ اگر ایسٹر کی چھٹیاں نہ ہوتیں تو معطلی کا یہ اعلان چند روز پہلے ہی آ چکا ہوتا۔

اس وقت سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستانی فٹبال جو پہلے ہی کسی نمایاں مقام پر نہیں ہے اس معطلی کے فیصلے کے نتیجے میں اب کہاں جا کر کھڑی ہو گی اور یہ فیصلہ اس کی پریشانیوں میں مزید کتنا اضافہ کرے گا؟

مفاد پرستوں کو صرف اپنے اقتدار کی بھوک ہے

پاکستان کے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار نادر شاہ عادل کا فٹبال سے گہرا تعلق رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لیاری میں پیدا ہوئے اور وہاں کلب فٹبال کھیلنے کے بعد اس پر ان کی گہری نظر رہی ہے۔

نادر شاہ عادل کہتے ہیں کہ ʹپاکستانی فٹبال میں اختلافات اور مداخلتوں کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب لیاری میں واقع فٹبال ہاؤس کے سلسلے میں اختلافات سامنے آئے اور وہ پہلا موقع تھا جب فیفا کو مداخلت کرنی پڑی۔ ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب حسین ہارون اور سردار خیر محمد کی سربراہی میں دو فٹبال فیڈریشنیں اپنی اپنی چیمپئن شپ کراتی رہیں لیکن ان مشکل ادوار میں بھی پاکستان کی فٹبال جاری رہی اور فٹبالر میدانوں میں نظر آئے۔‘

نادر شاہ عادل مزید کہتے ہیں کہ ’پچاس سے ستر کی دہائی تک اگر ہم دیکھیں تو پاکستانی فٹبال لیاری کے گرد گھوم رہی تھی یہ وہ دور ہے جب لیاری نے بین الاقوامی معیار کے فٹبالر پاکستان کو دیے۔ یہ وہ دور ہے جب ایران، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات اور مسقط اومان کی ٹیمیں کراچی آ کر دوستانہ میچ کھیلتی تھیں اور کراچی کی ٹیموں سے ہارتی تھیں لیکن پھر یہ ممالک انٹرنیشنل سطح پر بہت آگے نکل گئیں اور ہم پیچھے رہ گئے۔‘

نادرشاہ عادل کہتے ہیں کہ ʹپاکستانی فٹبال کا زوال اس وقت شروع ہوا جب اسے اغوا کر کے کراچی سے پنجاب پہنچایا گیا جہاں غیرجمہوری طاقتوں نے اسے جکڑ لیا۔ پاکستانی فٹبال کو پہلے بھی ائر مارشل نور خان جیسے طاقتور ایڈمنسٹریٹر ( منتظم ) کی ضرورت تھی اور آج پہلے سے زیادہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پاکستانی فٹبال آج تک کوالیفائنگ راؤنڈ سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ فٹبال پر قابض مفاد پرستوں کا اپنا کھیل ہے انھیں صرف اپنے مفاد سے دلچسپی ہے انھیں پاکستانی فٹبال کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انھیں کوئی میراڈونا کوئی رونالڈو کوئی میسی نہیں چاہیے۔‘

نادر شاہ عادل کا کہنا ہے کہ ʹپاکستانی سیاست میں آج جو بحران ہے اس کا عکس پاکستانی فٹبال میں بھی نظر آتا ہے۔‘

فٹبالر آخر کہاں جائیں گے؟

فٹبال
انٹرنیشنل فٹبالر اور قومی ٹیم کی کپتان حاجرہ خان

پاکستان کے سابق فٹبال کوچ اختر محی الدین کہتے ہیں کہ ʹملک میں فٹبال کی صورتحال پہلے ہی خراب ہے۔ کئی اداروں نے اپنی فٹبال ٹیمیں ختم کر دی ہیں اور مزید کچھ ادارے ٹیموں کو ختم کرنے والے ہیں ایسے میں فیفا کی جانب سے معطلی کا سب سے بڑا دھچکہ ان فٹبالروں کے لیے ہے۔‘

اختر محی الدین کہتے ہیں کہ ’فیفا کے اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستانی فٹبالر کسی بھی انٹرنیشنل ایونٹ میں شرکت سے محروم ہو جائیں گے، اسی طرح فیفا اور اے ایف سی کے تحت کوچ اور دیگر ٹیکنیکل کورسز میں پاکستانی حکام شرکت سے محروم رہیں گے۔ کھلاڑی کی عمر بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اگر نوجوان باصلاحیت کھلاڑی اس مرحلے پر اپنے ایج گروپ میں کسی مقابلے میں شرکت سے محروم ہو گئے تو یہ ان کا بہت بڑا نقصان ہو گا۔‘

اختر محی الدین کا کہنا ہے کہ ’میں نے نارملائزیشن کمیٹی کو یہ تجویز دی تھی کہ وہ پہلی فرصت میں پاکستان پریمیئر لیگ دوبارہ شروع کرے تاکہ ادارے اس جانب راغب ہوسکیں اور اپنی ٹیموں کو دوبارہ تیار کر کے اس میں شرکت کرسکیں لیکن اس تجویز پر کسی نے توجہ نہیں دی۔‘

اخترمحی الدین کے خیال میں بہتر یہی تھا کہ تمام سٹیک ہولڈر مذاکرات کی میز پر آتے تمام معاملات پر بات کرتے اور کسی ایسے فیصلے پر پہنچتے جو پاکستانی فٹبال کے بہترین مفاد میں ہوتا۔

ہاکی فیڈریشن پر کیوں قبضہ نہیں ہوتا؟

فٹبال

پاکستان کے سابق انٹرنیشنل فٹبالر علی نواز کہتے ہیں کہ ’جب فٹبال نہیں ہو گی تو ادارے فٹبالروں کو بٹھا کر تنخواہیں کیوں دیں گے؟ وہ ٹیمیں ہی بند کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔ فیفا نے یہ پابندی نہیں لگائی بلکہ یہ پابندی ہمارے اپنے لوگوں کی وجہ سے لگی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ وہ لوگ ہیں جو فیفا کی جانب سے ملنے والے کروڑوں روپے کے فنڈ پر نظریں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ میرا صرف یہی سوال ہے کہ آخر پاکستان ہاکی فیڈریشن پر کوئی گروپ قبضہ کیوں نہیں کرتا ؟ اس کا جواب سیدھا سادہ ہے کہ وہاں فیفا کی طرح کے بڑی مالیت کے فنڈ نہیں آتے ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *