عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر پر سوشل میڈیا تبصرے

وزیراعظم کے خلاف عدم اعتمد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پورا دن گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک ووٹنگ نہ ہونے پر اب پاکستان کے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر یہ تبصرے ہو رہے ہیں کہ ووٹٹنگ نہ ہوئی تو سپریم کورٹ کی حکم عدولی ہوگی اور ساتھ ہی بعض افراد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے لیے ’مدد‘ کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔

اس تناظر میں آئینی امور کے ماہر وکیل سلمان اکرم راجہ نہ ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے 7 اپریل کے آرڈر پر عمل درآمد کروانے کے لیے کسی ایجنسی کی مدد درکار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے آرڈر پر عمل درآمد قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کسی بھی رکن کی صدارت میں ہو سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ سے ہدایت لی جائے۔ ووٹنگ آج ہونی چاہیے۔ دیر کرنے سے توہین کی کارروائی کو دعوت دی جا رہی ہے۔‘

’بحرانی کیفیت میں جنرل باجوہ کو اپنا رول پلے کرنا چاہیے‘

اس سے پہلے پی پی پی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’اگر آج سپیکر اور حکومت سپریم کورٹ کے واضح حکم پر عمل نہیں کرتے تو پھر اس بحرانی کیفیت میں جنرل باجوہ کو اپنا رول پلے کرنا چاہیے۔ جی ہاں! انھیں بھی ایک بیان جاری کرنا چاہیے کہ وہ ایک پروفیشنل فوجی کی طرح آئین، جمہوریت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

اس کے کچھ دیر بعد انھوں نے ایک دوسری ٹویٹ میں کہا کہ ’عمران خان ملک کو انارکی اور بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ تمام اداروں کو آئین، پارلیمان اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔‘

  • بی بی سی اردو کی لائیو کوریج: عدم اعتماد پر ووٹنگ، قومی اسمبلی کے اجلاس کی تازہ ترین صورتحال
  • پاکستان میں جاری سیاسی بحران: پاکستان میں جاری اس صورتحال سے آپ کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟

ان کی جنرل باجوہ سے متعلق ٹویٹ کے ردعمل میں ایک صارف ذیشان خان نیازی نے کہا کہ ’ایک سیاسی کارکن سے ایسے مطالبے کی اُمید نہیں تھی، کل کو یہی مطالبات یا عمل آپ کے خلاف بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔‘

محمد اویس نے لکھا ’سپریم کورٹ کو انھیں یہ حکم دینے دیں کہ وہ اس کے آرڈر پر عمل کریں۔ آپ کو سپریم کورٹ جانا چاہیے‘۔ انھوں نے اس کے ساتھ یہ مشورہ دیا کہ جنرل باجوہ کو اس سے باہر ہی رہنے دیں۔

اسمبلی میں ووٹنگ میں تاخیر پر ردعمل

اس سے پہلے سپریم کورٹ کے حکم پر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اہم اجلاس سنیچر کی صبح ساڑھے دس بجے شروع ہوا مگر قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کے بعد وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران تقریباً 11 بجے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وقفے کا اعلان کر دیا اور اجلاس دوبارہ ساڑھے بارہ بجے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔

تاہم جب 12:30 بجے اجلاس شروع نہیں ہو سکا تو پھر ایسے میں جیسے جیسے تاخیر ہوتی رہی سوشل میڈیا پر صارفین اپنے تبصروں سے اس صورتحال پر اپنی آرا کا اظہار کرتے رہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے اسے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دیا تو ان کی ہی جماعت کے ایک سینیئر رہنما خواجہ آصف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ووٹنگ نہ کرنے کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘

تاہم تحریکِ انصاف کی رہنما ملائکہ بخاری نے اس الزام کو مسترد کیا کہ یہ ووٹنگ نہ کرانے کا حربہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں پتا عدم اعتماد پر ووٹنگ آج ہو گی یا نہیں مگر ہوگی ضرور۔

البتہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے سنجیدہ تبصروں سے لے کر میمز تک شئیر کیے جانے لگے اور ہر کوئی اپنے تئیں اجلاس ملتوی ہونے کی وجوہات تلاش کرنے میں لگا رہا۔

اس کے بعد اسمبلی کا اجلاس تو شروع ہوگیا لیکن ووٹنگ میں تاخیر کی وجہ سے اپوزیشن کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں بار بار جلد از جلد ووٹنگ کروانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔

سپریم کورٹ فوری از خود نوٹس لے: مریم نواز

پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اب تک شروع نہ کروانے پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی چاہیے۔

ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا ‘سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے فیصلے کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کا فوری از خود نوٹس لے اور عمران خان، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی گرفتاریوں کا حکم دے اس سے پہلے کہ وہ سب تباہ کر دیں۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بیوروکریسی/انتظامیہ کو حکومت کی طرف سے آنے والے کسی بھی قسم کے احکامات کی تعمیل کرنے سے انکار کرنا چاہیے۔’

اس سے پہلے مریم نواز نے ووٹنگ پر تاخیر سے متعلق یہ ٹویٹ کی تھی:

’رمضان میں کھانے کا وقفہ نہیں تو اجلاس ملتوی کرنے کا جواز سمجھنا مشکل‘

صبح اجلاس میں وقفے اور اسے دوبارہ شروع کرنے میں تاخیر پر پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ گھنٹے کے لیے اجلاس ملتوی کرنے کا جواز سمجھنا مشکل ہے۔

انھوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ ‘یہ دوپہر کے کھانے کا وقفہ تو نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ نماز کا وقت بھی نہیں ہے۔ مجھے اس اجلاس کو ملتوی کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی اور میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں پریشان ہوں۔’

’آئین کی خلاف ورزی اور سپریم کورٹ کی حکم عدولی کا انجام بُرا ہو گا‘

صبح اجلاس میں وقفے اور اسے دوبارہ شروع کرنے میں تاخیر پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا تھا کہ ’وزیر اعظم عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے ڈر رہے ہیں اور انھوں نے پورے ملک کا نظام روک دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 22 کروڑ کی آبادی والا ملک کئی ہفتوں سے کسی حکومت کے بغیر ہے ’آئین کی خلاف ورزی اور سپریم کورٹ کی حکم عدولی کا انجام بُرا ہو گا۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’ایک ہوتا ہے ووٹ, ایک ہوتا ہے نوٹ اور ایک ہوتا ہے کھوٹ۔ فیصلہ قوم کرے گی‘۔ اس ٹویٹ کے ساتھ انھوں نے ایک ہیش ٹیگ استعمال کیا ہے جو مبینہ بیرونی سازش سے متعلق ہے اور پاکستان میں آج سارا دن ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرتا رہا ہے۔

جبکہ مریم اورنگزیب نے ایک گیند کی تصویر تویٹ کی جس پر لکھا ہے ’آخری گیند‘۔ اس کے ساتھ انھوں نے لکھا ’آخری گیند عمران صاحب کو ڈھونڈ رہی ہے۔‘

سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اس تاخیر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بیچارے کُرسی سے چپکے ہوئے ہیں کہ مزید تھوڑا وقت بھی مل جائے کیونکہ وہ سلیکٹ ہوئے تھے الیکٹ نہیں. ہر بار سلیکشن تو نہیں ہوتی۔‘

کچھ افراد مسلم لیگ نواز کے رہنما سعد رفیق اور وفاقی وزیر فواد چوہدری کی ایک تصویر شئیر کرتے ہوئے دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں۔

LahoreMarquez

کچھ صارفین نے اس تصویر کو شیئر کر کے اسے فواد چوہدری کی مستقبل کی منصوبہ بندی سے جوڑا ہے تو کسی نے کہا کہ جن سیاستدانوں کے لیے ہم آپس میں دست و گریبان ہیں وہ آپس میں اتنے اچھے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔

’پہلے سالگرہ ہوگی، پھر بارات آئے گی‘

ٹوئٹر پر قومی اسمبلی میں جاری صورتحال پر کئی سیاسی اور قانونی مشورے بھی دیے جا رہے ہیں۔

اسی تناظر میں وکیل حسن اے نیازی نے لکھا کہ ’اس ووٹ کو اب ہو جانا چاہیے تاکہ لاء ٹوئٹر چھٹی پر جا سکے‘۔

ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں زاہد نامی صارف نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’جب تک ووٹنگ نہیں ہوتی تب تک دم نہیں لینگے، نہ خود نہ کسی اور کو۔‘

حسن ہے سہانا نامی صارف نے قومی اسمبلی میں ووٹنگ سے پہلے تقاریر کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ’تصور کریں کہ آپ کسی بارات پر جائیں لیکن وہاں کوئی اس بات پر اصرار کرنے لگے کہ پہلے ان کے بچے کی سالگرہ ہوگی پھر بارات آئے گی۔‘

ساجد اقبال راجہ نے ٹویٹ کیا ’اجلاس تو ایسے لیٹ کیا جیسے میت کے رشتہ دار میانوالی سے پیدل آرہے ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *