عمران خان کی پاکستانی سفیروں کو ڈانٹ کیا وزیراعظم

عمران خان کی پاکستانی سفیروں کو ڈانٹ کیا وزیراعظم

عمران خان کی پاکستانی سفیروں کو ڈانٹ کیا وزیراعظم نے سفارت خانوں کے کام کے متعلق ’انتہائی کم سمجھ بوجھ‘ کا مظاہرہ کیا؟

وزیرِ اعظم عمران خان گاہے بگاہے بیورکریسی پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن گذشتہ روز ان کی جانب سے بیرون ممالک سفارت خانوں میں تعینات پاکستانی سفیروں پر تنقید نہ صرف براہ راست نشر کی گئی بلکہ وزیرِ اعظم کی جانب سے اسے ٹویٹ بھی کیا گیا۔

گذشتہ شام عمران خان نے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں سے ویڈیو لنک پر خطاب کیا اور وزیر اعظم آفس کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ اس خطاب کو براہ راست نشر کیا جائے گا۔ اپنے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ ’پاکستانی سفارتخانے جس طرح چلائے جا رہے ہيں وہ اس طرح نہيں چل سکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس قسم کا نظام برطانوی سامراج کے دور میں تو چل سکتا ہے لیکن آج کے پاکستان میں یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے۔‘

جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو ان کے دائیں اور بائیں جانب وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے جبکہ اس موقع پر وزارتِ خارجہ کے دیگر عہدیدار بھی بیٹھے تھے۔

وزیر اعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے سٹیزن پورٹل پر ملنے والی چند شکایات پڑھ کر سنائیں اور کہا کہ سفارت خانوں کا اولین مقصد بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کی خدمت کرنا ہے اور اس کے بعد انھیں ملک میں سرمایہ کاری لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

بات یہیں نہیں رکی، انھوں نے ہمسایہ ملک انڈیا کے سفارتخانوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی نسبت انڈین سفارتخانے سرمایہ لانے کے لیے بہت زيادہ متحرک ہیں۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں سعودی سفارتخانے سے پریشان کن اطلاعات مل رہی تھیں اور بدقسمتی سے پاکستانی سفارتخانوں کا اپنے شہریوں سے مناسب رویہ نہیں ہوتا۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی شکایات ملنے کے بعد پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر سمیت سفارتی عملے کے چھ افسران کو بھی واپس بلا لیا گیا تھا اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر نے بطور سفیر چارج سنبھال لیا تھا۔

وزیراعظم نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم بھی مقرر کر دی ہے جو صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کے بعد تحقیقات سامنے لانے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے۔ تاہم اس تنقید کے بعد سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر ملے جلے تاثرات دکھائی دے رہے ہیں۔

جہاں چند سابق سیکریٹری خارجہ عمران خان کی تنقید کو حقائق کے منافی قرار دے رہے ہیں وہیں سوشل میڈیا پر موجود عام صارفین وزیر اعظم کے اس بیان کی حمایت کرتے اور بیرونِ ملک سفارت خانوں پر تنقید بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔

بیرون ملک پاکستانیوں کی اپنے سفارت خانوں سے کیا شکایات ہیں؟

وزارتِ خِارجہ

وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ملنے والی شکایت کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’بہت سے پاکستانی سفارتی عملے کے رویوں سے ناخوش ہیں اور ان کی شکایت ہے کہ روز مرہ کی سہولیات کے حصول میں غیر ضروری تاخیر کی جاتی ہے۔‘

’عملہ دیے گئے وقت کی پابندی نہیں کرتا اور دور دراز علاقوں سے آئے پاکستانیوں کو عملے کی غیر موجودگی کے باعث واپس جانا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’سفارت خانے کا عملے پاکستانیوں کی شکایات کو لے کر لاپرواہی برتتا ہے اور مسلسل آنے والی شکایات کا مستقل حل تلاش کرنے کے بجائے مسائل کو انفرادی طور پر حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بیرونی ملک پاکستانی اپنے سفارت خانوں سے تعلیمی، مالی اور ذاتی دستاویزات جیسا کہ شادی اور طلاق کا سرٹیفیکیٹ وغیرہ کو تصدیق کروانے کے لیے سفارت خانوں سے رجوع کرتے ہیں لیکن انھیں اس میں تاخیر اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’اس کے علاوہ جیل میں قید بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی کوئی پرسانِ حال نہیں۔ انھیں چھوٹے موٹے جرائم میں قید کر دیا جاتا ہے جس کا ریکارڈ اکثر سفارت خانوں کے پاس موجود نہیں ہوتا جس کی وجہ سے حکومت پاکستان ان کا جرمانہ ادا کر کے ان کی رہائی میں مدد فراہم نہیں کر پاتی۔‘

‘ملک کے سفیروں کی تذلیل براہ راست نشر کرنا درست عمل نہیں’

پاکستان کے سابق سفیر اور سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد نے وزیراعظم عمران کے پاکستانی سفیروں سے خطاب پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو کسی صورت زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح ساری دنیا کے سامنے پاکستانی سفیروں کی تذلیل کریں۔

’اس خطاب میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جو بند کمرے میں نہیں ہو سکتی تھی اور جسے ساری دنیا کے سامنے کرنا ضروری تھا۔‘

’اگر وزیر اعظم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ پہلے ملک کے اندر گورننس کے مسائل حل کریں کیونکہ بیرون ملک بیٹھا سفیر پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے ملک میں مختلف وزارتوں سے رابطہ کرتا ہے اور ان کی جانب سے تاخیر کی بنا پر بہت سے کام نہیں ہو پاتے۔‘

شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ حکومت تمام ملکوں میں سفیر تعینات کرتی ہے اور اکثر مملک میں تعینات کیے جانے والے سفیر اور دیگر عملہ دفتر خارجہ سے ہوتا ہی نہیں اور نہ ہی انھیں سفارتکاری کا کوئی تجربہ ہوتا ہے۔

’انھیں صرف سیاسی وابستگیوں کے بنا پر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کارکردگی کے لیے حکومت بھی اتنی ہی قصوروار ہے۔‘

پاکستان کے دفتر خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم کا بی بی بی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے سفارت کاروں اس طرح سر عام تذلیل کرنے سے دفتر خارجہ کے تمام عملے کا حوصلہ پست ہو گا۔

’یہ لوگ اس ملک کے سفیر ہیں اور بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب اس طرح اپنے سفیروں کو سب کے سامنے شرمندہ کرنا اور اسے براہ راست نشر کرنا مایوس کن بات ہے۔ وزیر اعظم نے جو شکایات پڑھ کر سنائیں ان کا نہ سر تھا نہ پیر۔‘

تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو شاید یہ علم نہیں کہ ایک سفارت خانے میں صرف سفارتی عملہ نہیں ہوتا۔ اس میں بہت سے دیگر اداروں جیسا کہ نادرا، محکمہ تجارت وغیرہ کا عملہ بھی ہوتا ہے جو وزارت خارجہ کے ماتحت نہیں ہوتا لہٰذا پاکستانیوں کے دستاویزات سے متعلق بہت سے مسائل اس لیے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان اداروں کا نظام ٹھیک نہیں اور یہ سب گورننس کے مسائل ہیں جن کو حکومت نے ٹھیک کرنا ہے سفیروں نے نہیں۔‘

تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا کے آغاز میں بیرون ملک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب عمارات میں پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے سفارتی عملے نے دن رات محنت کی لیکن جس طرح آج سعودی سفیر کی سرعام تذلیل کی گئی وہ نہایت افسوسناک ہے۔

’وزیر اعظم نے انڈین سفارت کاروں کی تعریف کی لیکن اچھا ہو اگر وزیر اعظم انڈین سفیروں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھ لیں جس میں انھوں نے پاکستانی سفارت کاروں کو سراہا ہے۔‘

شمشاد احمد اور تسنیم اسلم دونوں کا کہنا تھا ہے کہ خامیوں کی نشاندہی اور ان مسائل کا حل بند کمرے میں تلاش کیا جانا چاہیے نہ کہ اس طرح براہِ راست نشر کر کے۔

سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی وزارتِ خارجہ کے سابق عہدیداروں کی جانب سے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

سابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ ’وزارتِ خارجہ پر کی جانے والی تنقید پر مجھے گہرا دکھ ہے۔ اس حوالے سے سفارت خانوں کے کام کے متعلق انتہائی کم سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ انھیں ملنے والے وسائل کی کمی اور اکثر محکمے تو ان کے کنٹرول میں بھی نہیں آتے۔‘

انھوں نے عمران خان کی جانب سے سفیروں کا موازنہ انگریز سامراج سے کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا بالکل بھی نہیں ہے، کورونا کی وبا کے دوران سفارت خانوں نے ووہان میں اور دیگر ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں کی مدد کی۔ معیار میں بہتری لانے کے لیے نظام سے جڑے مسائل حل کرنا ہوں گے، یہ کام ٹویٹس سے نہیں ہو سکتا۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *