عمران خان نگران حکومت آنے تک بطور وزیراعظم کیا

عمران خان نگران حکومت آنے تک بطور وزیراعظم کیا

عمران خان نگران حکومت آنے تک بطور وزیراعظم کیا کیا کر سکتے ہیں؟

اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد قانونی طور پر عمران خان وزیراعظم نہیں رہے تاہم ملک کے صدر عارف علوی نے انھیں نگران وزیراعظم کے چناؤ تک اپنی ذمہ داریاں جاری رکھنے کے لیے کہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان اب کتنے بااختیار وزیراعظم ہیں۔

یاد رہے کہ قومی اسبملی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ووٹنگ کے دن جب سپیکر نے قرارداد مسترد کر دی تو اس کے کچھ ہی دیر بعد عمران خان نے صدر مملکت کو تجویز دی کہ اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور چند ہی گھنٹوں میں صدر نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کر دیں۔ پھر صدر نے ایک ٹوئٹ کی اور عمران خان کو آئین کی شق 94 کے تحت وزیراعظم کے دفتر میں اپنا کام جاری رکھنے کو کہا۔

الیکشن کمیشن کے سابق سربراہ کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ‘عمران خان اب وزیراعظم نہیں لیکن چیف ایگزیکٹو کی عدم موجودگی میں انھیں وزیراعظم کے دفتر میں رہنا ہو گا اور یہ آٹھ دن کی بات ہے۔‘

پارلیمانی امور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ‘آئین میں جو بات لکھی گئی ہے وہی بالاتر ہو گی، یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا معاملہ نہیں بلکہ ریاستی امور کا معاملہ ہے تاکہ وزیراعظم کی عدم موجودگی میں خلا پیدا نہ ہو۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے۔‘

کنور دلشاد کہتے ہیں کہ عمران خان ‘اب بس نمائشی وزیراعظم ہیں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے نہ کوئی ٹرانسفر نہ کوئی حکم نامہ جاری کر سکتے ہیں جو کل اسمبلی تحلیل ہونے سے پہلے تک کر سکتے تھے۔ اس میں سے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اس دفتر میں بیٹھ کر چائے پی سکتے ہیں اور تسبیح پڑھ سکتے ہیں بس۔‘

لیکن اس صورت میں کرسی کھو دینے والا وزیراعظم کیا کیا اختیارات رکھتا ہے اور نگران وزیراعظم کو تعینات کرنے کے لیے کتنے دن کی مہلت ہوتی ہے؟

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اگرچہ وزیراعظم کے پاس تب کوئی اختیار نہیں رہتا لیکن کچھ بھی بلیک اینڈ وائٹ میں لکھا ہوا نہیں، اس لیے لوگ (ان کو کام جاری رکھنے کی صورت میں) ایسے وزرائے اعظم پر اعتبار نہیں کر رہے۔

تاہم کنور دلشاد ان سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ‘آج شام کو عوام سے ٹیلی فون کالز پر بات کرنی ہے۔ وہ وزیراعظم کی حیثیت سے قوم سے رابطہ کرتے تھے، ان کے مسائل سنتے تھے، اب وہ وزیراعظم نہیں، اب انھیں یہ پروگرام سرکاری ٹی وی پر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور اس پر اپوزیشن کو شکایت بھی ہو سکتی ہے۔‘

اس حوالے سے ماہر قانون شاہ خاور کہتے ہیں کہ جیسے نگراں حکومت کچھ نہیں کر سکتی، ایسے ہی اس وقت عمران خان بھی اس عارضی ذمہ داری کے دوران کوئی اہم فیصلہ نہیں کر سکتے۔

‘اس بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ موجود ہے کہ نگراں حکومت نے کوئی اہم فیصلہ نہیں کرنا ہوتا نہ کوئی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کرنی ہوتی ہے۔ یہ سٹاپ گیپ ارینجمنٹ ہوتی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر حکومت چلانے کے لیے آپ ہوتے ہیں اہم فیصلہ نہیں کر سکتے اور میرا خیال ہے اس موجودہ ممکنہ صورت میں بھی ایسا ہی ہو۔‘

کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ‘حکومت ختم ہو چکی ہے۔ کابینہ تو اسمبلی تحلیل ہوتے ہی ختم ہو گئی تو جب کیبنٹ نہیں ہو گی تو حکومت نہیں ہو گی۔ تو پھر وزیراعظم کہاں سے۔‘

سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات قانون فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ قومی اسمبلی میں اب تک قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کو نگراں حکومت کی تشکیل کے لیے وزیرِ اعظم کی جانب دو نام بھیج دیے گئے ہیں۔

کنور دلشاد کہتے ہیں ‘اس وقت کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔ بحران وہاں ہوتا ہے جہاں ڈیڈ لاک ہو اور یہاں ڈیڈ لاک نہیں ہے۔ آئین نے واضح طریقہ بتایا ہے۔‘

‘اس کے لیے آئین کا آرٹیکل 224 ہے۔ واضح طریقہ بتایا ہے کہ لازمی ہو گا کہ تین دن کے اندر نگراں وزیراعظم کے لیے کسی نہ کسی پر اتفاق رائے کرنا ہوگا۔ عمران خان کو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنی ہو گی۔ یا خط و خطابت کرنی ہوگی دونوں جانب سے دو، دو نام تجویز ہوں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ‘چاروں نام پارلیمانی کمیٹی کے پاس جانے ہوتے ہیں لیکن یہاں تو اسمبلی تحلیل ہے ختم ہو گئی ہے تو پھر سینیٹ کے آٹھ اراکین کی کمیٹی بنے گی وہاں بھی اتفاق نہ ہوا تو آئین ان کو حکم دیتا ہے کہ دو دن میں فیصلہ کریں پھر فوری طور پر الیکشن کمیشن کو نام بھجوائیں۔‘

پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب بتاتے ہیں کہ اس کمیٹی میں اپوزیشن سے چار اور حکومت سے چار ارکان کی شمولیت ضروری ہوتی ہے اور تحلیل ہو چکی اسمبلی کے سپیکر ہی اس کمیٹی کا قیام عمل میں لائیں گے۔

آئین کی شق 53 کے تحت جب تک نئی اسمبلی میں نئے سپیکر کا انتخاب عمل میں نہ آ جائے، تب تک موجودہ سپیکر اپنے عہدے پر رہیں گے۔

کنور دلشاد کہتے ہیں ‘یہاں رائے نہیں حکم دنیا ہوتا ہے پھر الیکشن کمیشن کے لیے بھی لازم ہے کہ 48 گھنٹوں میں فیصلہ کریں اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ یعنی وہ کس کو پھر نگران وزیراعظم منتخب کرتا ہے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکتا۔‘

بلاول
،تصویر کا کیپشنعمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے اپوزیشن نے شہباز شریف کے نام پر اتفاق رائے کیا ہے

وہ کہتے ہیں کہ ‘یہاں جو بات کی جا رہی ہے کہ عمران خان شاید زیادہ عرصے تک وزیراعظم کے دفتر میں وقت گزار سکتے ہیں یہ بالکل غلط ہے، غیر معینہ مدت کہنا غلط ہے اصول سات دن کا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمیشن نے لازماً انتخابات کروانے ہیں۔ ‘اگر حکومت پانچ سال پورے کرتی اوراسمبلی تحیلیل ہوتی تو پھر تو 60 دن میں کروانے ہوتے اب اگر صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہو جاتی ہیں تو بھی 90 دن میں انتخابات کا عمل یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نوٹس جاری کرے گا اور ابھی الیکشن کمیشن کو اسمبلی تحلیل ہونے کا نوٹیفکیشن آ گیا ہے تو بس یہ اگلے ایک دو دن یا چند گھنٹوں کی بات ہے۔‘

لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت ازخود نوٹس کی سماعت کر رہی ہے۔

ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ ‘وزیرِ اعظم کا اپنا عہدہ تو ابھی موجود ہے جب تک کہ نگراں سیٹ اپ نہیں آ جاتا، تاہم اگر سپریم کورٹ یہ کہے کہ سارا عمل ہی غلط ہوا ہے اور معاملات کو وہیں جانا چاہیے جہاں وہ سپیکر کی رولنگ سے قبل تھے تو پھر عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی اور اس کے بعد جو بھی صورتحال ہو گی اس پر دیکھنا ہو گا۔‘

ماہرین کہتے ہیں اگر سپریم کورٹ اتوار کے روز اٹھائے جانے والے اقدامات کو غیر آئینی قرار نہیں دیتی تو بھی اب سے لے کر آٹھ یا نو دن کے اندر عمران خان وزیرِ اعظم نہیں رہیں گے اور پاکستان نئے عام انتخابات کے موسم میں چلا جائے گا کیونکہ نگران حکومت کو 90 دن کے اندر انتخابات کروانے ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کے سابق سربراہ کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ‘17 اپریل 1993 کو جب سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے اور انھوں نے کرسی چھوڑنے کا فیصلہ کر دیا تھا تو صدر غلام اسحاق نے رات کو ہی اسمبلی توڑ دی تھی۔‘

‘اس وقت نگراں سیٹ اپ کا سسٹم نہیں تھا اور معین الدین قریشی کو الیکشن تک وزیراعظم کا عہدہ ملا تھا۔ تاہم اب ویسا نہیں اب ہر حال میں ہفتہ دس دن میں نگراں وزیراعظم کا چناؤ ہو گا اور عمران خان ان کی آمد کے ساتھ ہی اس عارضی ذمہ داری سے خود بخود سپکدوش ہو جائیں گے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *