عمران خان مقدمہ جو دفعات لگانی ہیں

عمران خان مقدمہ جو دفعات لگانی ہیں

عمران خان مقدمہ جو دفعات لگانی ہیں ایک ہی مرتبہ لگائیں، روز روز اضافہ نہ کریں، عدالت کا پراسیکیوٹر کو حکم

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکانے پر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمے کے سماعت جمعرات کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی۔

متعقلہ عدالت کی طرف سے جن مقدمات کو جمعرات کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا اس میں عمران خان کا مقدمہ پہلے نمبر پر تھا چونکہ عدالتوں میں ضمانت کے مقدمات پہلے سنے جاتے ہیں اور یہ تو تھا بھی سابق وزیر اعظم کی ضمانت کا معاملہ اس لیے سب سے پہلے اسے ہی سنا جانا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج جواد عباس عدالتی وقت شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے چیمبر میں موجود تھے لیکن ملزم عمران خان وہاں موجود نہیں تھے۔

عمومی طور پر ملزم جج کا انتظار کرتے ہیں لیکن یہاں پر جج ملزم کا انتظار کر ر ہے تھے۔

ایک مرتبہ پہلے بھی جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج ہوا تھا تو جس دن ان پر فرد جرم عائد ہونا تھی تو وہ عدالت میں نہیں پہنچے تھے اور خصوصی عدالت کے تین جج صاحبان ملزم پرویز مشرف کا انتظار کر رہے تھے۔

بابر اعوان جو کہ عمران خان کے وکیل ہیں وہ عدالت میں آئے اور جج نے ان سے پوچھا کہ ملزم کہاں ہے۔ بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو اسلام اباد پولیس کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے اور کچھ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکن ان کی جان لینے کے درپے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں عمران خان اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کیسے عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جن کو عدالت نے عبوری ضمانت دی ہو تو ملزم کو بھی عدالت کا احترام کرتے ہوئے پیش ہونا چاہیے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت میں آتے ہوئے ان کے موکل کو کوئی نقصان پہنچا تو حکومت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد پولیس کے سربراہ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

imran khan
عمران خان کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے اتنے سخت انتظامات نہیں کیے گئے تھے جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی پیشی کے موقع پر دیکھے گئے تھے

عدالت نے بابر اعوان کو اپنے موکل یعنی عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

عمران خان کی سیکیورٹی کے لیے اتنے حفاظتی اقدامات تو نہیں کیے گئے تھے جتنے ان کے بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران کیے گئے تھے لیکن کسی عام آدمی کو جوڈیشل کمپلکس جہاں پر انسداد دہشت گردی کی عدالت ہے، کی طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔

مقررہ وقت پر جب عمران خان عدالت میں نہ پہنچے تو جج اپنے چیمبر میں چلے گئے اور انھوں نے اپنے سٹاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ملزم آ جائے تو مجھے بلا لیجیے گا۔‘

عمران خان جب عدالت پہنچے تو پھر متعقلہ جج کو ان کی آمد کے بارے میں بتایا گا تو وہ اپنے چیمبر سے کمرہ عدالت میں آ گئے۔

ملزم کے وکیل کی طرف سے اٹھائے گئے نکات پر عدالت نے اس مقدمے کے پراسیکوٹر راجہ نوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں مزید دفعات کا اضافہ کر دیا گیا ہے تو کیا اس حوالے سے ان کے پاس کوئی شواہد ہیں جس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ جب اس مقدمے پر تفصیلی بحث ہوگی تو وہ اس بارے میں عدالت کو آگاہ کریں گے۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے کہا کہ جو دفعات لگانی ہیں وہ ایک ہی مرتبہ لگائیں، ہر چار روز بعد اس مقدمے میں دو دفعات کا اضافہ کرنا کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ اس مقدمے میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کی دفعات کا بھی ذکر ہے اور کیا جن ایگزیکٹیو افسران کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں ان کے بیان حلفی بھی آپ کے پاس موجود ہیں جس پر سرکاری وکیل نے ہاں میں جواب دیا۔

عمران خان کے وکیل نے عدالت کے توسط سے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی کوئی دفع رہ تو نہیں گئی جس کا عمران خان کے خلاف درج مقدمے میں اضافہ کرنا ہو، اس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی پانچ سو سے زائد دفعات ہیں ابھی تو صرف چند کا ہی اضافہ کیا ہے۔

عدالت نے سرکاری وکیل کو اس ضمن میں تمام ریکارڈ پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔

عمران خان جب کمرہ عدالت میں پہنچے تو سینیٹر اعظم سواتی نے اپنی سیٹ خالی کر دی جس پر عمران خان بیٹھ گئے۔

عدالت سے جاتے ہوئے عمران خان نے میڈیا کے متعدد سوالوں کے جواب نہیں دیے لیکن جب صحافیوں نے معافی مانگنے سے متعلق سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تو عمران خان نے صرف اسی جواب پر اکتفا کیا کہ وہ ہر روز مزید خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *