عرب لیگ میں بشار الاسد کی فاتحانہ واپسی جس

عرب لیگ میں بشار الاسد کی فاتحانہ واپسی جس

عرب لیگ میں بشار الاسد کی فاتحانہ واپسی جس نے مایوسی اور خوف کو جنم دیا

صدر بشار الاسد جدہ میں عرب لیگ کے اجلاس میں پہنچے تو شاید وہ شام کی جنگ میں اپنی فتح کی اتنی واضح توثیق پر خوش تھے۔

بشار الاسد سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بغل گیر ہوئے۔ ایک دہائی قبل، سعودی حکومت اسد مخالف جنگوؤں کی فنڈنگ کر رہی تھی۔ اب شہزادہ محمد بن سلمان ’ایم بی ایس‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور مشرق وسطی کے لیے ان کے خواب کی تکمیل میں ان کو شام کی ضرورت ہے۔

ایک تقریر کے دوران صدر بشار الاسد نے اصرار کیا کہ شام ہمیشہ عرب دنیا کا حصہ رہے گا لیکن دوسرے ممالک شام کے اندر مداخلت نہیں کر سکتے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ اہم ہے کہ اندرونی معاملات ملک کے لوگوں پر چھوڑ دیے جائیں کیوں کہ وہی ان کو حل کرنا جانتے ہیں۔‘

لوگوں سے صدر بشار الاسد کی مراد حکمران اور ان کے اتحادی ہیں۔ عرب لیگ کے اس اجلاس میں موجود شہزادے اور صدور اپنے ہزاروں مخالفین کو پابند سلاسل کر چکے ہیں۔

جدہ میں ہونے والے اس اجلاس کو شام کے کئی شہری مایوسی سے دیکھ رہے ہیں جو صدر بشار الاسد کو ملک کی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن سے لبنان میں میری بات چیت ہوئی۔

لبنان ایک چھوٹا اور غریب ملک ہے جسے شام کی خانہ جنگی سے فرار ہونے والے تقریبا دس لاکھ باشندوں کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ یہ لبنان کی مجموعی آبادی کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ ہے۔

لیکن اب لبنان کی اکثریت تنگ آ چکی ہے اور لوگ اپنے ملک کے معاشی اور سیاسی مسائل کے لیے شام کے لوگوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

لبنان

گذشتہ چند ہفتوں میں لبنان کی فوج نے 1500 شامی باشندوں کو بندوق کی نوک پر سرحد کے پار بھیجا۔ ان میں ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کو والدین کے بغیر زبردستی بھیجوا دیا گیا۔ ایسے بچے بھی ہیں جون کے والدین کو تو بھیج دیا گیا لیکن وہ خود لبنان میں ہی رہ گئے۔

ایک ایسے ہی خاندان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیروت کے قریبی قصبے میں اپنی زندگی کے بارے میں بات چیت کی جہاں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

بچوں کو سکول سے نکال دیا گیا۔ ان کی زندگی کا احوال ان کی نوجوان بیٹی کے بنائے گئے آرٹ نمونوں میں واضح ہوتا ہے۔ ان کے والد عرب لیگ کے حکمرانوں اور بشار الاسد کے بغل گیر ہونے کو نفرت اور خوف سے دیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اسد حکومت ایک آمریت ہے ایسے ہی جیسے دیگر عرب حکومتیں ہیں۔ وہ عوام کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔‘

لبنان کے ایک اور مقام پر تارکین وطن کی بستی میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا گیا۔ ناصر اور مروی 2013 سے یہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کو خوف ہے کہ بشار الاسد کی عرب لیگ میں واپسی کو بہانہ بنا کر اور لوگوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔

مروی کہتی ہیں کہ وہ ہر صبح اٹھ کر خدا کا شکر ادا کرتی ہیں کہ ان کو اب تک نکالا نہیں گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں ہمیشہ ریڈ کا خدشہ رہتا ہے۔ میں ہر وقت تصور کرتی ہوں کہ وہ آئیں گے اور سب مردوں کو لے جائیں گے۔‘

ناصر کہتے ہیں کہ ان کو خدشہ ہے کہ اگر وہ شام لوٹے تو ان کو جبری فوج میں بھرتی کر لیا جائے گا۔ وہ حکومت کی جانب سے لڑنے سے بچنے کے لیے ہی شام سے فرار ہوئے تھے۔ ان کو خوف ہے کہ شام واپسی کی صورت میں ان کی اہلیہ اور 18 ماہ کی بیٹی پر کیا بیتے گی۔

لبنان
ناصر اور مروی

ناصر کو عرب لیگ میں شام کی بحالی کے فیصلے پر افسوس ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے جو کچھ کیا اس کے باوجود ان کی میزبانی کی جا رہی ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی۔ شام میں اتنی اموات اور تباہی کے بعد یہ قابل قبول نہیں ہے۔‘

واضح رہے کہ شام اور صدر بشار الاسد کی حکومت پر اب بھی امریکہ اور یورپ کی پابندیاں موجود ہیں۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ بشار الاسد نے شام کو ’ذبح خانہ‘ بنا دیا تھا۔

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت کو چاہیے کہ بشار الاسد کی بین الاقوامی طور پر شناخت کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرے۔

عرب لیگ کے چند اراکین اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ قطر، جس نے شام میں اسد مخالف گروہوں کی مالی مدد کی تھی، عرب لیگ میں بشار الاسد کی بتدریج واپسی کے خلاف ہے۔

لیکن دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بشار الاسد حکومت مشرق وسطی کی حقیقت ہے اور ان کو شام کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی بشار الاسد کو خوش آمدید کہنے کی وجوہات ہیں۔

اردن اور سعودی حکمران شام میں بننے والی ’کیپٹاگون‘ نامی منشیات کو روکنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ایک ایمفیٹامین ہے جو جنگجوؤں کی صلاحیت بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تاہم اب یہ تفریحی منشیات بن چکی ہے۔

شام
کیپٹاگون میں کیفین کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے

امریکہ اور برطانیہ نے بشار الاسد کے خاندان کے چند اراکین پر یہ الزام لگاتے ہوئے پابندی لگائی ہے کہ وہ اس منشیات کی تجارت میں ملوث ہیں۔ چند اندازوں کے مطابق منشیات کے اس کاروبار کا سالانہ حجم 50 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

اقوام متحدہ میں بشار الاسد کی عرب لیگ میں واپسی سے ایک محتاط امید جڑی ہے کہ شاید جمہوری ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔

اقوام متحدہ کے نائب خصوصی کوآرڈینیٹر برائے لبنان عمران رضا مثبت چیز تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر خطے میں اس پیش رفت سے سیاسی حل تلاش کرنے کی امید پیدا ہوتی ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔‘

تاہم اقوام متحدہ جبری طور پر لوگوں کی واپسی کی حمایت نہیں کر رہی۔ اقوام متحدہ کا اصرار ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک واپس نہیں جا سکتے جب تک شام محفوظ ملک نہیں بن جاتا۔ اور ایسا ہونے میں ابھی کافی وقت ہے۔

صدر بشار الاسد نے اپنی حکومت بچانے کے لیے ملک کو توڑ کر رکھ دیا۔ ان کا نشانہ بننے والوں کو اب تک انصاف نہیں مل سکا۔

لیکن آمریت پسند حکمرانوں کے لیے اس میں ایک سبق ہے جن میں بشار الاسد کے قریبی اتحادی روسی صدر ولادیمیر پوتن بھی شامل ہیں جن کی 2015 میں فیصلہ کن عسکری مداخلت نے ہی بشار الاسد حکومت کو فتح دلوائی۔

اور وہ سبق یہ ہے کہ آپ طوفان ختم ہونے کا انتظار کریں تو آپ اپنے دشمنوں کو شکست دے سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *