عدالت کا پاکستان کے کپتان بابراعظم کے خلاف بلیک میلنگ

عدالت کا پاکستان کے کپتان بابراعظم کے خلاف بلیک میلنگ

بابر اعظم لاہور کی عدالت کا پاکستان کے کپتان بابراعظم کے خلاف بلیک میلنگ، دھمکی آمیز پیغامات بھیجنے کے الزامات میں مقدمہ درج کرنے کا حکم

لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے خلاف بلیک میلنگ، دھمکی آمیز اور نامناسب پیغامات بھیجنے کے الزامات میں مقدمہ درج کیا جائے۔

لاہور سے صحافی عبادالحق کے مطابق حامیزہ مختار نے ایف آئی اے کو دی گئی درخواست میں الزام لگایا تھا کہ بابراعظم کی ایما پر انھیں بلیک میل کیا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ جس کے بعد ایف آئی اے نے اس حوالے سے ابتدائی انکوائری کا آغاز کیا تھا۔

یاد رہے کہ حامیزہ مختار نے گذشتہ سال ایک پریس کانفرنس کر کے بابر اعظم پر کئی الزمات لگائے تھے۔ انھوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستانی کرکٹر بابراعظم کے ساتھ سکول میں پڑھتی تھیں اور دونوں پڑوسی بھی تھے اس دوران دونوں میں محبت ہو گئی تھی لیکن جب انھوں نے بابراعظم سے شادی کا مطالبہ کیا تو انھوں نے مبینہ طور انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا اور تشدد کیا۔

جج حامد حسین کی عدالت میں سماعت کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا ہے کہ حامیزہ مختار نے یہ درخواست ڈرانے دھمکانے، بلیک میل کرنے اور نامناسب میسیجز بھیجنے سے متعلق دی تھی۔

رپورٹ کے مطابق بابر اعظم انکوائری کے دوران بلائے جانے پر ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوئے البتہ ان کے بھائی فیصل اعظم انکوائری کے سامنے پیش ہوئے اور انھوں نے بابراعظم کے تحقیقات کے سامنے پیش ہونے کے لیے مہلت مانگی تھی۔

تاہم ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق ’مہلت کی مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی بابراعظم پیش نہیں ہوئے جو ان کے قصور وار ہونے کو ظاہر کرتا ہے‘ جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

دھوکہ دہی اور جبری طور اسقاط حمل کے الزامات میں مقدمہ

واضح رہے کہ حامیزہ مختار نے اس سے قبل بابراعظم پر دھوکہ دہی اور جبری طور پر اسقاط حمل کروانے کے الزامات پر مقدمہ درج کروانے کے لیے پولیس سے رجوع کیا تھا۔

تاہم پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر مقدمہ درج کرنے سے انکار کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج محمد نعیم کی عدالت نے 25 نومبر 2020 کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت کے حکم پر لاہور کے تھانہ نصیرآباد نے 14 جنوری 2021 کو مقدمہ درج کیا تھا تاہم بابراعظم نے اگلے ہی روز لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور جسٹس اسجد گورال نے اس مقدمے پر کارروائی معطل کرتے ہوئے سماعت اپریل کے مہینے میں کرنے کا حکم دیا تھا۔

واقعے کا پس منظر کیا ہے؟

ہمارے ساتھی عبدالرشید شکور کے مطابق گذشتہ سال نومبر میں حامیزہ مختار نامی خاتون نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بابر اعظم پر متعدد الزامات عائد کیے تھے تاہم ان تمام الزامات کے جواب میں تاحال بابر اعظم کا کوئی وضاحتی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

حامیزہ نے اس پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستانی کرکٹر بابراعظم کے ساتھ سکول میں پڑھتی تھیں اور دونوں پڑوسی بھی تھے اس دوران دونوں میں محبت ہو گئی تھی لیکن جب انھوں نے بابراعظم سے شادی کا مطالبہ کیا تو انھوں نے مبینہ طور انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا اور تشدد کیا۔

حامیزہ مختار کا دعویٰ تھا کہ یہ دس سال پرانا واقعہ ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بابراعظم سے ان کی شادی نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ دونوں کے خاندان والے رضامند نہیں تھے اور اس دوران یہ دونوں مبینہ طور پر گھروں سے بھاگ کر مختلف مقامات پر ساتھ رہے تھے۔ انھوں نے بابر اعظم پر ان سے جبری طور پر اسقاط حمل کروانے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔

حامیزہ مختار نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ انھوں نے بابراعظم کے کریئر کے ابتدائی دنوں میں مبینہ طور پر ان کی مالی مدد بھی کی تھی۔

حامیزہ مختار کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے بھی اس بارے میں رابطہ کیا تھا اور شکایت کی تھی جو اس بنا پر مسترد کر دی گئی کہ یہ ایک کا ذاتی معاملہ ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *