عامر لیاقت کی موت پر شبہات عدالت نے قبر کشائی

عامر لیاقت کی موت پر شبہات عدالت نے قبر کشائی

عامر لیاقت کی موت پر شبہات عدالت نے قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کروانے کا حکم دے دیا

کراچی کی ایک مقامی عدالت نے پاکستان کی معروف ٹی وی شخصیت اور رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیا ہے۔

گذشتہ جمعرات کو وفات پانے والے عامر لیاقت کو جمعے کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا تھا تاہم ایک درخواست کی سماعت کے بعد مقامی عدالت نے یہ حکم جاری کیا ہے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سنیچر کی صبح فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عامر لیاقت کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ کراچی کے شہریوں میں یہ شک پایا جاتا ہے کہ کہیں کسی نے پراپرٹی کے تنازعے پر ان کو قتل نہ کر دیا ہو اس لیے موت کی وجہ کا تعین ہونا ضروری ہے۔

سماعت کے دوران سرکاری وکیل سجاد علی دشتی نے عدالت کو بتایا کہ ورثا پوسٹ مارٹم کرانا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ورثا کہتے ہیں پوسٹ مارٹم کرانے سے ان والد صاحب کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔

ورثا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں کسی پر شک بھی نہیں ہے۔

پولیس سرجن نے عدالت کو بتایا کہ `جب تک جسم کا اندرونی جائزہ نہیں لیتے موت کی وجوہات معلوم نہیں کر سکتے۔‘درخواست گزار ایک عام شہری ہیں جنھوں نے عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کروانے کی درخواست کی ہے اور کہا تھا کہ عامر لیاقت کی موت پر شکوک وشبہات پیدا ہوئے ہیں۔

عامر لیاقت کی نمازِ جنازہ ان کے بیٹے احمد عامر نے پڑھائی جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔

عامر لیاقت حسین جمعرات کو وفات پا گئے تھے اور ان کی تدفین جمعے کی دوپہر ہونی تھی تاہم پولیس حکام کی جانب سے لاش کے پوسٹ مارٹم پر اصرار کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔

عدالتی حکم کے بعد اب ضابطے کے مطابق میڈیکل بورڈ بنے گا اور قبر کشائی کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔ قبر کشائی کا عمل مجسٹریٹ کی نگرانی میں ہی کیا جاتا ہے جس کے بعد پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔

تدفین سے پہلے عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کیوں نہ ہوا؟

خیال رہے کہ عامر لیاقت کی وفات کے بعد اور ان کی تدفین سے پہلے بھی پوسٹ مارٹم پر تنازعہ ہوا تھا۔

اس وقت پولیس کی جانب سے پوسٹ مارٹم پر اصرار کے بعد عامر لیاقت کے اہلخانہ نے جمعے کو جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت سے رجوع کیا جہاں مختصر سماعت کے بعد عدالت نے پولیس سرجن کو حکم دیا ہے کہ وہ میت کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں جس کے بعد ہی پوسٹ مارٹم کرنے نہ یا کرنے کے بارے میں فیصلہ ہو گا۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ کی جانب سے لاش کے معائنے کے بعد میت عامر لیاقت کے بیٹے احمد کے حوالے کرنے کے فیصلہ کیا گیا۔

کراچی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس سرجن کیجانب سے میت کے ابتدائی معائنے کے بعد رپورٹ دی گئی جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے مرحوم کے لواحقین کے بیانات لینے کے بعد پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی استدعا کی تصدیق کر کے میت کفن دفن کے لیے لواحقین کے حوالے کر دی جسے غسل و کفن کے بعد نمازِ جنازہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔

اس سے قبل پولیس حکام نے فلاحی تنظیم چھیپا ویلفیئر کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ عامر لیاقت کی میت بریگیڈ تھانے کے عملے کے سوا کسی کے حوالے نہ کی جائے۔ پولیس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ عامر لیاقت کی میت بریگیڈ تھانے کا عملہ وصول کرے گا اور اگر لاش کسی اور کے حوالے کی گی تو چھیپا سرد خانے کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

51 سالہ عامر لیاقت حسین جمعرات کو کراچی میں وفات پا گئے تھے اور ان کی نمازِ جنازہ کلفٹن میں واقع جامع مسجد عبداللہ شاہ غازی میں جمعے کی دوپہر ادا کی جانی ہے اور مزار کے احاطے میں ہی ان کی تدفین کی جائے گی۔

عامر لیاقت کی موت کی وجہ تاحال سامنے نہیں آ سکی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے عامر لیاقت اپنی تیسری شادی کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے کی زد میں تھے، جس کے بعد انھوں نے ملک چھوڑنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

میت
عامر لیاقت حسین کی نمازِ جنارہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی

نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے عامر لیاقت کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والے چھیپا کے ایک اہلکار نے کہا بتایا کہ ’جس وقت میں اندر پہنچا تو عامر لیاقت صوفے پر تھے اور ان کی حالت ناساز تھی لیکن اُن کی سانسیں چل رہی تھیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’تقریباً ایک بجے کا وقت تھا، انھیں جناح ہسپتال لے جایا جا رہا تھا جس کے بعد راستے میں ہی کال آئی کہ انھیں آغا خان لے جایا جائے۔‘

پولیس حکام کے مطابق موت کی وجوہات جاننے کے لیے جناح ہسپتال کراچی میں ان کا پوسٹ مارٹم کروایا جانا تھا مگر خاندان کے کچھ افراد پوسٹ مارٹم کروائے بغیر ان کی میت وہاں سے لے گئے۔

جمعرات کو آغا خان ہسپتال سے چھیپا فاؤنڈیشن کے سربراہ رمضان چھیپا نے ڈاکٹر عامر لیاقت کی لاش وصول کی تھی جس کے بعد میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم اہلخانہ نے پوسٹ مارٹم کروانے سے انکار کر دیا تھا اور لاش سرد خانے منتقل کر دی گئی تھی۔

اس کے بعد عامر لیاقت کی سابقہ اہلیہ سیدہ بشریٰ اقبال نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’مرحوم کے دونوں وارثین احمد عامر اور دعائے عامر نے ان کا پوسٹ مارٹم کروانے سے منع کر دیا ہے اور ان کی خواہش کے مطابق مرحوم کو عزت و احترام کے ساتھ ان کی آخری آرام گاہ تک لے جایا جائے گا۔‘

چھیپا سرد خانہ
عامر لیاقت حسین کی میت فلاحی تنظیم چھیپا کے سرد خانے میں رکھی گئی تھی

سوشل میڈیا ردعمل

وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اُن کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اپنے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت کی رحلت کے بارے میں جان کر نہایت افسردہ ہوں۔‘

عامر لیاقت اپنی زندگی میں بھی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈز کا حصہ بنے رہے اور وفات پر بھی ان کا نام پاکستان کے ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔ مجموعی طور پر سوشل میڈیا صارفین ان کی وفات پر غمزدہ دکھائی دیے اور اکثریت کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی کے تنازعات اور مسائل اُن کے ساتھ چلے گئے ہیں اور اس لیے اب ان کے بارے میں رائے زنی کرنا مناسب نہیں ہے۔

صحافی اور اینکر پرسن نسم زہرہ نے بھی عامر لیاقت کی وفات پر ٹویٹ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور کہا ’اب عامر لیاقت کو مالک حقیقی نے طلب کیا ہے، ہم سب کو ان کے لیے بس فاتحہ پڑھنا چاہیے اور باقی معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیں۔ جو چلا گیا اس کا حساب کتاب۔۔۔ یہاں علاوہ دعائے خیر کے سب ختم!‘

ایک اور سوشل میڈیا صارف انیس ادریس کا کہنا تھا ’زندگی بہت غیر متوقع ہے، ایک وقت تھا کہ وہ پاکستان ٹیلی وژن کے حاکم تھے اور ملک میں ایک بڑا نام تھے اور ہمارے بچپن کا ایک بڑا حصہ تھے۔ خدا ان کا آگے کا سفر آسان کرے۔‘

عامر لیاقت

اسامہ سلیم نامی صارف کا کہنا تھا ’تنازعات کا ایک طرف رکھیں تو عامر لیاقت پاکستان کی ٹیلی وژن تاریخ کا ایک بڑا نام تھے، ایک عظیم انٹرٹینر تھے۔‘

انھوں نے عامر لیاقت کی گذشتہ ہفتے کی ایک پوسٹ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ’یہ ہم سب کے لیے یہ سمجھنے کا لمحہ ہے کہ سوشل میڈیا کتنا مہلک اور خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

شہزاد علی رانجھا نے لکھا کہ ’اس نے مجھے بُری طرح رلا دیا ہے، میں اُن تمام میمز کے لیے معذرت چاہتا ہوں جو میں نے عامر لیاقت کے بارے میں شیئر کیں۔ عامر بھائی جلدی چلے گئے۔‘

علی سلمان علوی نامی صارف نے لکھا ’عامر لیاقت اپنی زندگی کے بحران سے گزر رہے تھے۔ میں نے ان کے کریئر کا عروج دیکھا ہے، ان کے سیاسی اور پیشہ وارانہ کریئر کو گرتے بھی دیکھا۔ آپ بحران کے وقت اپنے خاندان میں پناہ ڈھونڈتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جب انھیں سب سے زیادہ ضروت تھی ان کے پاس ایک خاندان نہیں تھا۔‘

عامر لیاقت

شیراز نامی صارف نے کچھ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے عامر لیاقت کی وفات پر غیر حساس تبصروں پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا ’ڈپریشن مذاق نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس کچھ اچھا کہنے کو نہیں ہے تو کچھ نہ کہیں۔ لوگوں کو اپنے جیسے انسان کے مرنے پر سوگ منانے دیں۔ یہ ماضی کی غلطیوں پر بحث کا وقت نہیں ہے۔ کچھ دیر کے لیے انسان بن جائیں۔‘

عامر لیاقت

عامر لیاقت کا سیاسی سفر

نئی صدی کے اوائل میں مذہبی ٹی وی پروگرام ’عالم آن لائن‘ سے شہرت پانے والے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے سنہ 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب جیت کر قومی اسمبلی میں نشست حاصل کی تھی۔

عامر لیاقت حسین نے سنہ 2002 کے عام انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور انھیں پرویز مشرف کے دور حکومت میں مذہبی امور کا وزیر بنایا گیا۔

جولائی 2007 میں عامر لیاقت حسین نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کا یہ استعفیٰ اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے انڈین مصنف سلمان رشدی کو ٹی وی پروگرام میں ’واجب القتل‘ قرار دیا تھا۔ اگلے سال یعنی سنہ 2008 میں ایم کیو ایم نے عامر لیاقت کو پارٹی سے نکالنے کرنے کا اعلان کیا تھا۔

عامر لیاقت حسین نے ایک طویل عرصے تک سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور سنہ 2016 میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی متنازع تقریر سے چند روز قبل وہ دوبارہ سرگرم ہوئے۔

جب 22 اگست 2016 کو رینجرز نے ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو حراست میں لیا تو عامر لیاقت کو بھی اسی روز گرفتار کیا گیا تھا اور رہائی کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی پہلی پریس کانفرنس میں وہ بھی موجود تھے لیکن بعد میں دوبارہ غیر متحرک ہو گئے۔

عامر لیاقت حسین کی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں سنہ 2017 میں سامنے آئی تھیں۔ ان کی اپنی ٹویٹس کے باوجود اعلان سامنے نہیں آیا تھا مگر بالاخر وہ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔پارٹی میں شمولیت کے وقت بھی عامر لیاقت کو پی ٹی آئی کے کچھ حامیوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

سنہ 2018 میں عامر لیاقت حسین نے عمران خان کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’میرا آخری مقام پی ٹی آئی تھا۔‘ وہ سنہ 2018 کے انتخابات میں این اے 245 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

عامر لیاقت

عامر لیاقت کا پاکستانی میڈیا میں کریئر

عامر لیاقت حسین پاکستان کے تقریباً ہر بڑے نیوز چینل سے وابستہ رہے ہیں اور ان کے پروگرام زیادہ تر تنازعات سے بھرپور رہے ہیں جس کے اثرات ان کے سیاسی کریئر پر بھی پڑے۔

پاکستان کے میڈیا گروپ جنگ پبلیکیشن نے جب اپنے نیوز چینل جیو کا آغاز کیا تو عامر لیاقت بطور نیوز کاسٹر سامنے آئے، اس کے بعد انھوں نے عالم آن لائن کے نام سے ایک مذہبی پروگرام شروع کیا۔

ایک پروگرام میں انھوں نے احمدی کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے ان کا قتل جائز قرار دیا تھا، اسی ہفتے سندھ میں احمدی کمیونٹی کے دو افراد ہلاک ہوئے، ان کے اس بیان پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کی تھی۔

جہاد اور خودکش حملوں کے حوالے سے ان کے متنازع بیانات پر کچھ مذہبی حلقے ان سے ناراض بھی رہے۔ سنہ 2005 میں جامعہ بنوریہ کے ایک استاد کی ہلاکت پر جب وہ تعزیت کے لیے پہنچے تھے تو اُنھیں طلبہ نے یرغمال بنا لیا تھا۔

عامر لیاقت جیو کے علاوہ اے آر وائی، ایکسپریس، بول ٹی وی اور 24 نیوز سے وابستہ رہے، رمضان کی خصوصی نشریات کے دوران وہ ہاٹ پراپرٹی تصور کیے جاتے تھے۔ جیو پر رمضان ٹرانسمیشن کے ایک پروگرام میں انھوں نے چھیپا فاؤنڈیشن کے سربراہ رمضان چھیپا سے ایک لاوارث بچہ لے کر ایک جوڑے کو دیا تھا جس وجہ سے بھی انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

رمضان ٹرانسمیشن کے پروگرام ’انعام گھر‘ میں ان کے بعض جملے اور حرکات کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا تھا، پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے سنہ 2016 میں اس پروگرام کو تین روز کے لیے روک دیا تھا۔

بول چینل پر ان کے پروگرام ’ایسا نہیں چلے گا‘ میں انھوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور بلاگرز پر ذاتی حملے بھی کیے، پیمرا نے شہریوں کی شکایات پر یہ پروگرام بند کر دیا اور انھیں عوام سے معذرت کی ہدایت جاری کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *