طالبان افغانستان کے کن اضلاع پر کنٹرول حاصل کر چکے

طالبان افغانستان کے کن اضلاع پر کنٹرول حاصل کر چکے

طالبان افغانستان کے کن اضلاع پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں اور کہاں قبضے کے لیے لڑائی جاری ہے؟

افغانستان میں طالبان نے اب تک ملک کے 34 صوبوں میں سے 20 صوبوں کے ہیڈ کوارٹرز کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہے۔

طالبان کے قبضے میں آنے والے اکثر علاقوں کی سٹریٹیجک اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ یہ ان اہم شہراہوں پر واقع ہیں جو کابل کو ملک کے شمالی، جنوبی اور مغربی علاقوں سے جوڑتی ہیں۔

طالبان کی جانب سے یکم مئی کو غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے متعدد اضلاع کی جانب پیش قدمی جاری ہے۔

اکثر شہر جن کا طالبان نے محاصرہ کیا ہے وہ ملک کے شمال میں واقع ہیں جہاں افغانستان کی سرحدیں اپنے وسط ایشیائی ہمسایوں کے ساتھ ملتی ہیں۔

طالبان نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک کے جنوب اور مشرق میں واقع اہم شہروں کے گرد اپنے آپریشنز کا دائرہ وسیع کر دیا ہے اور اب انھوں نے افغان دارالحکومت کابل کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے۔

اس وقت افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کہاں کہاں جاری ہے اور کون سا علاقہ کس کے کنٹرول میں ہے اس بارے میں بی بی سی افغان سروس کی جانب سے 12 جولائی 2021 تک ہونے والی تحقیقات ہمارے سامنے یہ تصویر واضح کر دیتی ہیں۔

نقشہ افغانستان

چاریکار (پروان صوبہ)

طالبان نے صوبے پروان کی ایک سٹریٹیجک اہمیت رکھنے والی وادی غوربند پر قبضہ کر لیا ہے جس سے صوبائی دارالحکومت چاریکار کو تو خطرہ ہے ہی لیکن ساتھ ہی اس وادی سے 60 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے دارالحکومت کابل اور بگرام ہوائی اڈہ جسے حال ہی میں امریکی فورسز نے خالی کیا تھا، بھی طالبان کی دسترس سے زیادہ دور نہیں۔

صوبہ پروان کو بظاہر محفوظ بامیان صوبے تک جوڑنے والی موٹروے بھی اسی وادی سے ہو کر گزرتی ہے۔ 11 جولائی کو طالبان نے بامیان کے ضلع کھمرد کو قبضہ میں لے لیا تھا جو اس صوبے میں طالبان کے قبضے میں آنے والا پہلا ضلع ہے۔

قندھار شہر (صوبہ قندھار)

سنہ 1996 میں طالبان کی ’جائے پیدائش‘ کہلانے والے جنوبی صوبے قندھار کے بعض اضلاع پر طالبان پہلے ہی کنٹرول کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں جبکہ ملک کے دس بڑے شہروں میں سے کم از کم تین شہروں قندھار، ہرات اور غزنی کے گرد طالبان نے گھیرا تنگ کر لیا ہے۔

صوبہ قندھار میں ضلع شورابک، ارغستان، میوند، خاکریز، پنجوائی، معروف، شاہ ولی کوٹ اور گھورک کے بعد اب صوبائی دارالحکومت قندھار شہر کے اردگرد بھی جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

طالبان سپین بولدک، چمن سرحدی کراسنگ جو قندھار کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ملاتی ہے کی سکیورٹی پامال کرتے ہو اس مقام پر قبضہ کر چکے ہیں۔

بی بی سی افغان سروس کے اس نقشے کے مطابق جن علاقوں پر طالبان کا کنٹرول نہیں بھی ہے وہاں حکومتی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ اس نقشے کے مطابق پاکستان کے ساتھ سرحد پر جسے افغان ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں وہاں افغان صوبوں قندھار، نورستان کے بعض علاقوں پر جبکہ صوبہ بدخشان کے اکثر علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔

یہ جنوبی افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے اور یہ کابل، ہرات اور کوئٹہ (پاکستان) سے شاہراہوں کے سنگم پر واقع ہے۔ قندھار کے پاس بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی ہے، لیکن روایتی طور پر یہ اڈہ اندرونِ ملک پروازوں کے لیے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔

اگرچہ تاریخی طور پر بھی یہ صوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن گذشتہ لگ بھگ 25 برسوں میں دو بڑے واقعات کی وجہ سے یہ صوبہ بین الاقوامی میڈیا کا مرکز بنا رہا ہے۔ ان واقعات میں ایک 1996 میں یہاں سے طالبان تحریک کا جنم لینا اور دسمبر 1999 میں انڈیا کا ایک مسافر بردار طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعد قندھار ہوائی اڈہ پہنچنا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔

طالبان

بدخشان صوبہ

افغان صوبہ بدخشان جس کی سرحد پاکستان، چین اور تاجکستان سے ملتی ہے ماضی میں طالبان جنگجوؤں کے لیے سخت ترین صوبوں میں سے ایک تھا اور سنہ 2001 میں بھی جب اُنھوں نے افغانستان کے لگ بھگ 90 فیصد علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا تب بھی شمالی علاقے بالعموم اور بدخشان بالخصوص اُن کے کنٹرول سے باہر رہا۔

اب گذشتہ کئی ہفتوں سے جاری لڑائی میں طالبان جنگجوؤں نے بدخشان کے مرکز فیض آباد کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہے تاہم ابھی تک بدخشان کے مرکز فیض آباد سمیت افغانستان کے تمام صوبوں کے کسی بھی ہیڈکوارٹر پر کنٹرول حاصل نہیں کیا ہے۔

صوبہ بدخشان کے مشرق میں واخان کوریڈور واقع ہے جو شمالی پاکستان کے چترال اور گلگت بلتستان اور چین کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس صوبے کا کل رقبہ تقریباً 44 ہزار مربع کلومیٹر (تقریباً 17 ہزار مربع میل) ہے اور بیشتر علاقے ہندوکش اور پامیر پہاڑی سلسلوں پر واقع ہیں۔

بدخشان زمانہ قدیم سے ’سلک روڈ‘ کا راستہ تھا اور اسی وجہ سے چین نے طالبان کے دورِ اقتدار کے بعد اس صوبے میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے اور افغان حکومت کو وہاں سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں مدد کی جا رہی ہے۔

سنہ 2018 میں چینی میڈیا نے ایسی خبریں بھی دیں جن میں کہا گیا کہ چین دہشت گردی کے انسداد کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کے شمال میں پہاڑی بریگیڈ بنانے میں افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ تاہم اس خبر میں کہا گیا تھا کہ افغان سرزمین پر اس دوران چینی فوجی موجود نہیں ہوں گے۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے اس خبر کے مطابق چین میں افغان سفارتخانے نے کہا تھا کہ أفغان حکومت نے چین کی امداد کو سراہا ہے۔

پکتیکا، خوست اور پکتیا صوبہ

پاکستانی سرحد کے ساتھ صوبہ پکتیکا، خوست اور پکتیا کے اکثر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے جبکہ پاکستانی سرحد کے ساتھ صوبوں ننگرہار اور کنٹر کو لگنے والے اضلاع پر ابھی تک مکمل طور پر افغان حکومت کا کنٹرول ہے۔

اس نقشے کے مطابق کابل اور ننگرہار سمیت مرکزی افغانستان کے اکثریت اضلاع پر تاحال افغان حکومت کا کنٹرول ہے۔

افغان صوبہ خوست جو طالبان کے حقانی نیٹ ورک کا مرکز ہے، وہاں سوویت یونین کے خلاف 80 کی دہائی میں افغان جنگجوؤں نے شدید لڑائیاں کی تھیں۔

تاہم اس نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی اور اس کے جنگجو تب سے لے کر طالبان حکومت اور طالبان کی پسپائی تک مشکل حالات میں خوست سے سرحد کے اس پار شمالی وزیرستان آتے جاتے تھے۔

یہ افغان صوبہ ملک کے مشرقی حصے میں پاکستانی سرحد کے قریب واقع ہے۔

مشرق میں اس صوبے کی سرحد پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان اور ضلع کرم سے ملتی ہے۔ ماضی میں یہ صوبہ پکتیا کا حصہ تھا اور اب بھی خوست کے آس پاس وسیع و عریض خطے کو ’لویا پکتیا‘ کہا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ گذشتہ 24 گھنٹوں میں افغانستان کے مختلف صوبوں میں طالبان نے کم از کم پانچ اضلاع پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جنوب میں پاکستانی سرحد کے ساتھ بلوچستان کے ضلع چمن کے قریب واقع ’باب دوستی‘ کے ساتھ افغان سرحد تک طالبان نے کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کر لیا ہے۔

چمن میں بعض عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ باب دوستی کے ساتھ افغانستان کی جانب افغان طالبان کا ایک بڑا پرچم لہرا رہا ہے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا ’جب ہم صبح نماز پڑھنے کے لیے اٹھے تو افغان پرچم کی جگہ سفید پرچم لہرا رہا تھا۔‘ اس عینی شاہد کے مطابق آج صبح سے باب دوستی ہر قسم کی آمدورفت کی وجہ سے بند ہے۔

غزنی اور زرنج

وہ صوبہ جہاں طالبان نے صوبائی دارالحکومت کا محاصرہ کر رکھا ہے، وسطی افغانستان میں واقع صوبہ غزنی ہے۔

طالبان اس صوبے میں کئی برسوں سے متحرک ہیں اور انھوں نے اس کثیر النسلی صوبے کے دارالحکومت کے بڑے حصوں کا سنہ 2018 میں کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

غزنی شہر کے قریب طالبان اور افغان حکومت کی افواج کے درمیان لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ صوبائی کونسل کے سربراہ ناصر احمد فقیری کا کہنا ہے کہ طالبان شاید صوبائی دارالحکومت کے ’50 فیصد حصے‘ پر قابض ہو چکے ہیں۔ طلوع نیوز ٹی وی نے یہ خبر 12 جولائی کو رپورٹ کی تھی۔

جون 2021 میں صوبے کے زیادہ تر اضلاع پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا ماسوائے ان علاقوں کے جہاں بڑی تعداد میں شیعہ ہزارہ اقلیتی گروہ آباد ہے۔ غزنی کی سرحد آٹھ دیگر صوبوں کے ساتھ ملتی ہے۔ کابل، قندھار ہائی وے جو غزنی کو جنوبی افغانستان سے جوڑتی ہے وہ اسی صوبے سے گزرتی ہے۔

جنوبی صوبے نمروز کے ضلع چخانسور اور دلارام پر قبضے کے بعد صوبائی دارالحکومت زرنج اور ميلک زرنج سرحدی کراسنگ بھی خطرے کا شکار ہے۔ ‎میلک، زرنج کراسنگ چاروں جانب سے زمین سرحدوں سے گھرے افغانستان کو ایران کی چابہار بندرگاہ تک رسائی دیتا ہے جسے انڈیا کی فنڈنگ سے بنایا گیا ہے۔

قلعہ نو اور مزار شریف

طالبان نے افغانستان کی شمال مشرقی سرحد پر واقع صوبہ بادغیس کے تمام اضلاع پر قبضہ کرنے کے بعد دارالحکومت قلعہ نو پر بھی متعدد حملے کیے ہیں۔

اکثر طالبان کے حامی تجزیہ کاروں نے بادغیس میں طالبان حملوں کو خوش آئند قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ قلعہ نو میں داخل ہوتے وقت جنگجوؤں کا استقبال کیا گیا اور پھر انھوں نے قلعہ نو کی جیل میں اپنے ساتھیوں کو آزاد کروایا۔

تاہم بادغیس کے گورنر حسام الدین شمس کے مطابق حکومتی فورسز نے سات جولائی کو قلعہ نو میں ایک جوابی حملہ کرتے ہوئے طالبان کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔

دوسری جانب طالبان نے صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف کے قریبی اضلاع پر جون کے آخر میں قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

افغان میڈیا کے مطابق پارلیمان اراکین اور سابق جہادی اور طالبان مخالف کمانڈرز نے طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے مقامی افراد سے مدد مانگ لی ہے

کابل

قندوز اور تالقان

طالبان قندوز شہر کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور اطلاعات کے مطابق انھوں نے صوبہ قندوز کے ہر ضلع پر قبضہ کر لیا ہے جس میں تاجکستان کے ساتھ شیر خان سرحدی کراسنگ بھی شامل ہے۔

اس صوبے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ تخار اور بادخشان صوبوں کو آپس میں ملتا ہے اور تاجک سرحد پر بلخ اور دیگر شمالی علاقوں سے جوڑتا ہے۔

صوبہ تخار کے 16 میں سے 14 اضلاع پر طالبان قابض ہیں اور دارالحکومت تالقان کو بھی اب طالبان سے خطرہ لاحق ہے۔

آریانہ نیوز ٹی وی کے مطابق شہر کی امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور تاجکستان کے ساتھ اے خانم پر سرحدی کراسنگ بھی طالبان کے کنٹرول میں ہے۔

بندرگاہوں پر قبضہ

اس کے علاوہ طالبان نے قندوز میں شیر خان بندرگاہ، تخار میں اے خانم، ہرات میں اسلام قلعہ اور تورغندی بندرگاہوں اور پکتیا میں ڈنڈ پٹان بندرگاہ پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ تین بندرگاہوں کا کاروبار دوبارہ شروع ہو گیا ہے اور جلد ہی معمولات معمول پر آجائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *