صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کینیا کی پولیس

صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کینیا کی پولیس

صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کینیا کی پولیس کی تحقیقات جاری، ’پاکستان کینیا کی حکومت سے رابطے میں

کینیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ دارالحکومت نیروبی میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کی موت کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ میت کی شناخت مکمل ہوچکی ہے اور اس کی پاکستان منتقلی کے لیے قانونی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

نیروبی میں بی بی سی کی نامہ نگار بیورلی اوچینگ کے مطابق کینین پولیس نیروبی کے ساتھ واقع کاجیادو کاؤنٹی میں ارشد شریف کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہی ہے۔

کینیا کی پولیس کے ترجمان برونو شیوسو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ ارشد شریف کی موت کے پسِ منظر کے حالات کی جانچ کر رہے ہیں تاہم کینیا کی پولیس کی جانب سے تاحال کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔

ادھر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس واقعے سے متعلق حقائق جاننے کے لیے (ہم) کینیا کی حکومت سے رابطے میں ہیں۔ نیروبی میں موجود پاکستانی سفارتخانہ ارشد شریف معاملے میں مکمل معاونت کر رہا ہے۔‘

ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کا کینیا کی پولیس کے حوالے سے کہنا ہے کہ ارشد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تاہم پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ پر ابتدائی طور پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ایک حادثے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

میت کی واپسی کے لیے قانونی عمل شروع: مریم اورنگزیب

پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ کینیا میں پاکستان کی سفیر سیدہ ثقلین نے ارشد شریف کی میت کی شناخت کر لی ہے اور میت کی واپسی کے لیے قانونی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق کینیا کی حکومت نے سرکاری طور پر ارشد شریف کی موت کے بارے میں اب تک کچھ نہیں بتایا۔ ’جیسے ہی کینیا کی حکومت ہمیں آگاہ کرے گی، ہم تفصیلات سے ارشد شریف کے اہل خانہ اور عوام کو آگاہ کریں گے۔‘

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا پر ارشد شریف سے متعلق جاری قیاس آرائیاں افسوسناک ہیں۔ ‘مصدقہ حقائق سامنے آنے تک قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔ ارشد شریف کی موت کے حوالے سے تمام حقائق تک پہنچیں گے۔’

دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ نے ارشد شریف کے مبینہ قتل سے متعلق ایک درخواست پر وزارت داخلہ اور خارجہ کے نامزد افسر کو ارشد شریف کی فیملی سے فوری ملاقات کی ہدایت کرتے ہوئے منگل تک رپورٹ طلب کی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ صحافی کی میت نیروبی میں ہے۔

ادھر پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی موت صحافت اور پاکستان کے لیے بڑا نقصان ہے۔ ’ان کی روح کو سکون ملے اور ان کے اہلخانہ بشمول ان کے فالوورز کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت ملے۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’ارشد شریف کی موت کی حیران کن خبر پر مجھے بہت دُکھ ہے۔‘

یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد ارشد شریف نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ خود ساختہ جلا وطنی کے دوران وہ دبئی اور لندن میں مقیم رہے تھے۔

’آج میں نے اپنے شوہر اور پسندیدہ صحافی کو کھو دیا‘

ارشد کی موت کی تصدیق ان کی اہلیہ نے پیر کی صبح کی۔ جویریہ صدیق نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا۔ جویریہ صدیق نے کہا کہ ’پولیس نے انھیں بتایا ہے کہ ارشد شریف کو کینیا میں مار دیا گیا۔‘

جویریہ نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ ارشد شریف کی کینیا کے مقامی ہسپتال میں لی جانے والی آخری تصویر کو شیئر نہ کیا جائے۔

جویریہ

مختلف صحافیوں کی طرف سے ارشد شریف کی کینیا میں موت کے واقعے سے متعلق تعزیتی ٹویٹ کیے گئے۔

سوشل میڈیا پر ارشد شریف کی موت کی خبر نشر ہوئی تو پھر اس کے بعد پاکستان کے مقامی میڈیا نے بھی ذرائع سے ارشد شریف کی موت کی خبر نشر کی۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق ان کے چینل سے وابستہ صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ایک حادثے میں موت واقع ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ ارشد شریف کے بیرون ملک چلے جانے کے چند دن بعد اے آر وائی نے یہ واضح کیا تھا کہ ارشد شریف اب اے آر وائی سے وابستہ نہیں رہے۔

جہاں اے آر وائی میں کام کرنے والے ان کے ساتھیوں نے اس موت پر سوشل میڈیا پر دُکھ کا اظہار کیا وہیں چینل کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال نے بھی تعزیتی ٹویٹ کیا اور کہا کہ انھیں اس خبر پر یقین نہیں ہو رہا اور اس واقعے پر کہنے کو کوئی الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔

ارشد شریف کے مبینہ قتل کی تحقیقات کا مطالبہ

پاکستان کے کئی نامور صحافی اور سماجی کارکن عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو اس معاملے کی فوری اور شفاف تحقیقات کرانی ہوگی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے ارشد شریف کی ہلاکت پر جوڈیشل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جو ‘ان کے بیان بیانات کو بطور شواہد اور دیگر ذرائع کا جائزہ لیں گے۔’

ٹوئٹر پر پیغام میں ان کا کہنا ہے کہ ملک کے طاقتور طبقے ان لوگوں پر تشدد کرتے ہیں جو ان کے غلط کاموں پر تنقید کرتے ہیں اور انھیں منظر عام پر لاتے ہیں۔ ‘انھیں ملک چھوڑ کر بیرون ملک روپوش ہونا پڑا لیکن وہ سوشل میڈیا پر طاقتور لوگوں کو بے نقاب کرتے ہوئے سچ بول رہے تھے۔ آج پوری قوم ان کی وفات پر سوگوار ہے۔’

صحافی مظہر عباس نے عالمی صحافتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے سینیئر اینکر پرسن اور صحافی کے ’قتل‘ کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کیا جائے۔ ’(ماضی میں) کئی صحافیوں کے قتل کی طرح یہ کیس نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔‘

اینکر نسیم زہرہ نے سوال کیا کہ ‘یہ خون کا کھیل کب تک جاری رہے گا؟’

ایچ آر سی پی

عمار راشد ٹوئٹر پر لکھتے ہیں کہ ’کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی خبر خوفناک ہے۔ پاکستانی صحافیوں اور ناقدین کے خلاف ملک کے اندر اور باہر حملوں کی حالیہ تاریخ دیکھتے ہوئے اس پر شکوک و شبہات جائز ہیں۔ کینیا کے حکام پر فوراً یہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ تحقیقات کریں۔‘

اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ ارشد شریف نے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی جس کے بعد انھیں دھمکیوں کا سامنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے قتل کی انٹرنیشنل انکوائری ہونی چاہیے۔‘

بیرون ملک روانگی سے قبل ہراس کیے جانے کا دعویٰ

کراچی میں پیدا ہونے والے 49 سالہ ارشد شریف نے متعدد پاکستانی نیوز چینلز میں بڑے عہدوں پر کام کیا تھا۔

وہ بیرون ملک سے اکثر وی لاگز کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے اور عمران خان کے خلاف ’بیرونی سازش‘ کے بیانیے کے حامی تھے۔

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا تھا انھیں ایف آئی اے کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ ان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو صحافیوں کے خلاف شکایت کی صورت میں صحافتی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدی کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اُن کے موکل (ارشد شریف) کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے اُن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ ارشد شریف کی رپورٹنگ اور حکومت پر تنقید بتائی گئی۔

درخواست کے مطابق ارشد شریف ذرائع سے ملنے والی ان معلومات کے بعد ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ’سول کپڑوں میں ملبوس افراد اُن کے گھر اور خاندان کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘

تاہم ایف آئی اے کا دعویٰ تھا کہ اس نے نہ تو ارشد شریف کو گرفتار کیا ہے اور نہ ہی انھیں ہراساں کیا گیا۔ عدالتی حکم کے مطابق ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے بتایا تھا کہ درخواست گزار کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے بارہا اپنے بیانات میں ارشد شریف پر مبینہ حملے کی مذمت کی اور کہا کہ حکومتی عتاب کا نشانہ بننے والے صحافیوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھانی چاہیے۔

سنہ 2019 میں ارشد شریف کو صدر عارف علوی کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *