شکر ہے میرے ہاتھ میں موبائل تھا

شکر ہے میرے ہاتھ میں موبائل تھا

شکر ہے میرے ہاتھ میں موبائل تھا، ویڈیو بنا لی ورنہ توہین رسالت کے الزام میں پھنس جاتی‘: سی اے اے کا واقعے کی تحقیقات کا اعلان

شکر ہے کہ میرے ہاتھ میں موبائل تھا، میں نے فوراً کیمرہ آن کیا، ویڈیو ریکارڈ کی اور پھر اسے آگے بھیج دیا تا کہ اگر کچھ بھی ہو تو میری بیگناہی کا ثبوت موجود رہے۔‘

یہ بات کراچی ائیرپورٹ پر شعبہ ویجیلنس میں سیکورٹی کی انچارج ثمینہ مشتاق نے بی بی سی کو بتائی۔

پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے سول ایوایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے کراچی ائیرپورٹ پر دو ملازمین کے درمیان گاڑی کی پارکنگ کے تنازعے اور توہین رسالت کی دھمکیوں پر ایک ملازم کو معطل کر کے واقعے کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے اس واقعے کے نوٹس لینے کے فوراً بعد ہی سی اے اے نے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں آصف زرداری نے اس واقعے کو شرمناک حرکت قرار دیا۔

ترجمان سی اے اے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ادارہ اس صورتحال سے باخبر ہے اور تحقیقات کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

یہ واقعہ کب اور کیسے ہوا؟

سی اے اے سکیورٹی پر مامور ثمینہ مشتاق نے ایک گاڑی کو ایئرپورٹ کے اندر داخل ہونے سے روکا تو اس پر ان کی اپنے ہی ایک ساتھی سے تکرار ہو گئی۔

کراچی ائیرپورٹ کارگو کے ممنوعہ علاقے میں ثمینہ مشتاق نے بغیر سٹیکر کی گاڑی کوپارکنگ سے روکا تو سی اے اے ملازم سلیم نے انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔

اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ثمینہ مشتاق کے بعد مطابق جب انھوں نے دیکھا کہ سکیورٹی گارڈ نے گاڑی اندر جانے کی اجازت دے دی ہے تو انھوں نے اس گاڑی کو واپس جانے کا حکم دیا، جس پر گاڑی والا وہاں سے گاڑی نکال کر واپس چلال گیا، مگر ان کے ساتھی سلیم نے اس پر ان سے تکرار کی کہ سکیورٹی گارڈ کو جو سو دو سو مل جاتے ہیں آپ کیوں چھیننا چاہتی ہیں۔

ثمینہ مشتاق نے کہا کہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا۔ ان کے مطابق ’اب یہ بات معاشرے کا حصہ ہے کہ اگر اختلاف رائے کے دوران دوسرا فریق مسیحی یا ہندو ہے تو پھر اسے نیچا دکھانے کے لیے ان قوانین کا حوالہ دے کر دھمکایا جائے۔‘

اس دوران سی اے اے کے ملازم سلیم اپنی ساتھی ثمینہ مشتاق کو یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ وہ توہین مذہب کا الزام لگا کر یہاں لوگوں کو جمع کر سکتے ہیں۔ ثمینہ مشتاق اپنے ساتھی سے پوچھتی ہیں کہ کس نے توہین مذہب کی ہے؟ کیا گاڑی خلاف قانون پارک کرنے کی اجازت نہ دینا توہین مذہب ہے؟

اس کے بعد ثمینہ مشتاق کہتی ہیں کہ ’آپ لوگوں کا یہی ہے کہ یہ کرسچن ہے اس کو ہم توہین مذہب کے الزام میں پھنساتے ہیں تو پھنسا دو، توہین مذہب تو آپ کرتے ہو جو لیگل وے میں نہیں چلتے، جو قانون پر عمل ہی نہیں ہونے دیتے۔‘

karachi

اگرچہ سلیم نے اپنے ان الفاظ پر اپنی ساتھی سے معافی مانگ لی، جس پر انھوں نے ابھی تک ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی مگر اس واقعے کی ویڈیو ثمینہ مشتاق پہلے ہی اپنے موبائل سے بنا کر خود حکام بالا اور میڈیا کو بھیج چکی تھیں۔

ثمینہ مشتاق کے مطابق وہ بطور مسیحی پاکستانی ہونے کے ناطے اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں کہ ملک میں توہین مذہب یا توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر کیسے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔

ثمینہ مشتاق کے بعد ان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ شہر میں رہتی ہیں اور یہیں سے انھوں نے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور ایسے معاملات کی حسیاست سے واقف ہیں ورنہ کم خواندہ خواتین اور مرد اپنا دفاع تک نہیں کر سکتے۔

ان کے مطابق ’میں سب کو کہتی ہوں کہ جب تک میں ڈیوٹی پر رہوں تو سب الرٹ رہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *