سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹنگ کے لیے صدارتی ریفرنس

سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹنگ کے لیے صدارتی ریفرنس

سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹنگ کے لیے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے، ایوان بالا کے انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہی ہوں گے

سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹنگ کے لیے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے خفیہ رائے شماری برقرار رکھنے کی رائے دی ہے۔

تاہم اب حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے ہی سپریم کورٹ کی اس ’تاریخی‘ رائے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور اسے اپنے، اپنے حق میں ایک مثبت پیشرفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلے سے ان کے موقف کو تقویت ملی ہے جس میں الیکشن کمیشن کو ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ووٹنگ کے عمل کو شفاف بنانے حکم دیا گیا ہے اور یہ ریمارکس دیے گئے ہیں کہ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا۔

جبکہ دوسری طرف حزب مخالف کی جماعتوں نے 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات سے قبل اسے حکومت کی ایک بڑی شکست قرار دیا ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے ذریعے جو سوال بھیجا گیا تھا اس کا جواب نفی میں ملا ہے۔

یہ لگاتار دوسرا صدارتی ریفرنس ہے جس کے نتائج بظاہر حکومتی موقف کے مطابق نہیں آئے۔

اس سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس مسترد کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس بار صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے آرٹیکل 226 کے حوالے سے رائے مانگی تھی اور اس سلسلے میں ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ کی رائے: ’سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہی ہوں گے‘

یہ فیصلہ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے سنایا ہے اور اس میں جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے تحت ہوں گے اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوگی کہ اسے شفاف بنایا جائے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوں گے۔ ‘سینیٹ انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں۔۔۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ شفاف اور کرپٹ باتوں سے الیکشن کو محفوظ بنائے۔’

عدالت نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لیے تمام اقدامات کر سکتا ہے اور انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان
عدالت نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے

‘تمام ادارے الیکشن کمیشن کیساتھ تعاون کے پابند ہیں۔۔۔ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا۔’

اس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتا ہے جبکہ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے پابند ہیں۔

فیصلے کے مطابق ‘بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے۔۔۔ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔‘

حکومتی ردعمل: ’خفیہ رائے شماری تا قیامت نہیں‘

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ‘سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے، خیر مقدم کرتے ہیں۔

‘عدالت کی جانب سے بیلٹ کی سیکریسی دائمی نہ ہونے کی رائے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ تین مارچ کے سینٹ انتخابات کے لیے عدالت نے واضح طور الیکشن کمیشن کو ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے کا کہہ دیا ہے۔’

حکومت رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ان کے موقف کو تقویت ملی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی رائے سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ آئندہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ کی رازداری حتمی نہیں ہوگی۔ اسی طرح حکمراں جماعت تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے سپریم کورٹ کی رائے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ خفیہ رائے شماری تا قیامت نہیں ہے۔

مریم اورنگزیب، فیصل جاوید
حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی رائے سے ان کے موقف کو تقویت ملی ہے۔ فیصل جاوید (دائیں جانب)، مریم اورنگزیب (بائیں جانب)

وہ کہتے ہیں کہ اب اس فیصلے سے ‘سینیٹ انتخاب میں ووٹ کی نشاندہی ہو سکے گی، سیاسی جماعتوں کو صوبائی اسمبلیوں میں ان کی سیٹوں کے تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی ملے گی اور شفاف الیکشن یقنی بنایا جائے گا۔’

وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ‘سپریم کورٹ نے کرپشن کے خاتمے، ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی اور اراکین کے لین دین کے معاملات کو ختم کرنے کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے۔

‘مکمل خفیہ رائے دہی کا اصول نہیں مانا، الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ شفاف انتخابات کے لیے اقدامات کرے جس میں ٹریسیبل بیلٹ شامل ہے۔‘

مریم نواز: ووٹ کی طاقت سے ڈرتے کیوں ہو؟

حزب اختلاف کی جماعتوں نے سپریم کورٹ کی رائے کو سینیٹ الیکشن سے قبل حکومت کی بڑی شکست قرار دیا ہے۔

اس موقع پر مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ آئین، ووٹ چوروں کی چالبازیوں، بدنیتی پہ مبنی ریفرنسوں اور سازشی آرڈینینسوں سے بہت بالاتر ہے۔

‘اب کھمبے نوچتی کھسیانی بلیاں ٹیکنالوجی کا واویلا کر رہی ہیں۔ یاد رکھو کہ کوئی آر ٹی ایس اور ڈسکہ دھند ٹیکنالوجی اب نہیں چلے گی! ووٹ کی طاقت سے ڈرتے کیوں ہو؟’

رہنما پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ’لڑکھڑاتی حکومت کو سینیٹ انتخابات سے قبل بڑی شکست ہوئی ہے۔ حکومت انتخابات سے بھاگنا چاہتی تھی مگر اسے راہ فرار نہیں ملا۔

’سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے ذریعے جو سوال بھیجا اس کا جواب تو نفی میں ملا ہے۔ کیا سپریم کورٹ نے انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کے حق میں رائے دی، جواب ہے نہیں۔‘

مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے رائے دی ہے کہ سینیٹ الیکشن آئین کے تحت ہوسکتا ہے نہ کہ حکومت کی منشا کے مطابق۔ ’پنجاب میں اکثریت ہونے کے باوجود ہمارا ووٹ چوری کیا گیا۔‘

مسلم لیگ نواز کی رہنما حنا پرویز بٹ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ’بدنیتی پر مبنی درخواست اٹھا کر باہر پھینک دی‘ ہے۔

اب سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

سپریم کورٹ کی رائے کو دونوں فریقین اپنی اپنی فتح قرار دے رہے ہیں تاہم بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ الیکشن میں اب کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کی رائے جاری ہونے کے بعد مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان اور وفاقی وزیر فواد چوہدری سمیت دیگر حکومتی وزرا کے وفد نے الیکشن کمیشن کے حکام سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی تجویز کے بعد اب سینیٹ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے لیے بیلٹ خفیہ ہوگا لیکن الیکشن کمیشن کے لیے بیلٹ خفیہ نہیں ہوگا اور ہارس ٹریڈنگ یا دھاندلی کے الزامات لگنے پر وہ انکوائری کر سکے گا۔

بابر اعوان

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘سپریم کورٹ کی رائے واضح ہے۔ ووٹ کی شناخت ہوسکے گی۔’

انھوں نے بتایا کہ پنجاب میں سینیٹرز منتخب ہونے کے بعد اب صرف 1700 کے قریب بیلٹ پیپر چھاپنے ہوں گی اور ملک میں کرنسی نوٹ کی طرح ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے ایسے بیلٹ پیپر تیار کیے جاسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے اور وہ اس کا فیصلہ اپنے اجلاس میں کریں گے، یہ بات فی الحال زیر غور ہے۔

آئینی ماہر اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں ایسے کوئی احکامات الیکشن کمیشن کو نہیں دیے جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ وہ ووٹ کی سیکریسی ختم کی جائے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس فیصلے میں عدالت عظمی نے سنہ 1968 کے ایک مقدمے کا حوالہ دیا ہے جس میں عدالت کا کہنا تھا کہ ووٹ کی سیکریسی دائمی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ رائے شماری کا خفیہ ہونا ہی ووٹ کے تقدس کو یقینی بناتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس میں عدالت سے آئین کے آرٹیکل 226 کے بارے میں صرف یہ رائے مانگی گئی تھی کہ کیا سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ سے ہوسکتے ہیں جس کا جواب سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی اکثریت نے نفی میں دیا۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں جسٹس یحیی آفریدی کا اختلافی نوٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ جب رائے شماری کے بارے میں آیین میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم اور وزرا اعلی کے انتخابات کے علاوہ تمام انتخابات میں رائے شماری خفیہ ہوگی تو پھر صدر کی طرف سے اس طرح کا سوال کرنا بنتا ہی نہیں ہے۔

سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں مبینہ طور پر بدعنوانی کو روکنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ انھوں نے کہا کہ انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے سپریم کورٹ نے جدید ٹیکٹالوجی استعمال کرنے کے بارے میں جو تجویز دی ہے الیکشن کمیشن اس پر عمل درآمد کرنے کا پابند نہیں ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کو روکنے کا اختیار پہلے ہی الیکشن کمیشن کے پاس ہے اور سپریم کورٹ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو کوئی حکم نہیں جاری کرسکتی جب تک پارلیمنٹ اس حوالے سے آئین میں ترمیم نہ کرے۔

تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دینے میں درمیانی راستہ نکالا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات کی پولنگ میں دو دن سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن بارڈ کوڈ بھی لگائے اور رائے شماری کو بھی خفیہ رکھے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے بدعنوانی کو روکنے کے لیے الیکشن کمیشن کو کوئی حکمنامہ جاری نہیں کیا اور ایک رائے دی ہے جس پر عمل درآمد کرنا یا نہ کرنا الیکشن کمیشن کا صوابدیدی اختیار ہے تاہم حکمراں جماعت اس عدالتی رائے پر یہ تاثر دینے کی کوشش کرر ہی ہے کہ سپریم کورٹ نے ووٹ کی جانچ پڑتال کے لیے الیکشن کمیشن کو بارڈ کوڈ یا سریل نمبر لگانے کا کہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل: ’الیکشن کو سلیکشن بنانے کا خواب بھی چکنا چور‘

سیاسی جماعتوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر صارفین کی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *