سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ پاکستان کے

سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ پاکستان کے

سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ پاکستان کے موجودہ بحران کا ذمہ دار کون ہے؟

سیاست کے بحران نے عوام کا بیڑا غرق کر دیا ہے‘۔۔۔ یہ الفاظ کسی دیہاڑی دار، مزدور پیشہ ایسے شخص کے نہیں جن کے لیے اب دو وقت کا کھانا مشکل ہو گیا ہے، یہ الفاظ پشاور کی بڑی کاروباری شخصیت ایوب زکوڑی کے ہیں جو زکوڑی گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے ہر طبقے کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، اور یہ تمام طبقات ان حالات کا ذمہ دار ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ٹھہراتے ہیں۔

لیکن کیا سیاستدان بھی یہ مانتے ہیں کہ اس افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں؟ یا اسٹیبلشمنٹ خود کو اس کا ذمہ ٹھہراتی ہے؟

بظاہر ملکی معاشی صورتحال کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی تیار نہیں۔

کوئی مخالفین کو فساد کی جڑ قرار دیتا ہے تو کوئی سمجھتا ہے کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے اور کہیں عدلیہ کی جانب بھی اشاروں کنایوں میں بات کی جا رہی ہے۔

اس تمام صورتحال کے بیچ ایوب ذکوڑی کے الفاظ درست معلوم ہوتے ہیں کہ ’عوام کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔‘ ایوب پشاور میں امپورٹ اور ایکسپورٹ کا کام کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت درآمدات پر بنی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان کے پاس زرمبادلہ نہیں کہ خام مال خریدا جا سکے۔

ان کے مطابق اب رمضان کے مہینے کے بعد معاملات ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ انھیں اپنے ملازمین کو برطرف کرنا پڑے گا۔

’ہمارا خام مال اس مہینے کے آخر تک ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد ہمارے پاس میٹریل نہیں ہے۔ اب اس کے بعد اپنی لیبر کو گھر بھیجیں گے یا ہم حکومت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔‘

خیال رہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب گذشتہ برس عمران خان کو پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

تب سے ملک میں احتجاج، ہنگامے اور بے یقینی کی صورتحال جاری ہے۔

GETTY IMAGES

معاشی حالات کی بات کریں تو ڈالر کی قیمت بڑھ کر تین سو روپے کے قریب ہو گئی ہے جبکہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ مارچ 2023 میں مہنگائی کی شرح 46 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

حالات اس نہج پر ہیں کہ شہری کئی کئی گھنٹے آٹے کے ایک تھیلے کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ روٹی کے حصول کے لیے لگی ان لمبی لائنوں میں بھگدڑ مچنے سے اب تک کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

مگر یہ سوال جب سیاستدانوں کے سامنے رکھا جائے تو ان کے جوابات میں کہیں ذمہ داری نظر نہیں آتی اور الزام ایک دوسرے پر لگ رہا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے فلور پر کھل کر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی سزا سیاستدانوں اور ملک کو بھگتنا پڑتی ہے۔ کچھ یہی بات رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے بھی بی بی سی سے کی۔

علی وزیر کہتے ہیں کہ وہ موجودہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں مگر وہ اس حکومت کے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اتحاد کے سخت مخالف ہیں۔

ان کے مطابق وہ وزیراعظم سے ملاقات کی درخواست متعدد بار کر چکے ہیں تاکہ وہ انھیں ’وہ وعدے یاد کرا سکیں جو ان سے کیے گئے تھے۔‘

ان کا اشارہ سیاسی اتحاد کا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ نہ کرنے کے وعدے کی طرف تھا۔

علی وزیر سمجھتے ہیں کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا حل بھی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے میں ہی ہے۔

’ہمیں خارجہ اور داخلہ پالیسی کے حوالے سے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ جب تک سیکیورٹی ادارے ان چیزوں پر قابض ہوں گے، ہم اس نظام میں افراتفری اور انارکی سے نہیں بچ سکتے۔‘

GETTY IMAGES

بی بی سی نے ملک کے وزیر دفاع اور مسلم لیگ نواز کے سینیئر رکن خواجہ آصف سے یہی سوال پوچھا کہ کیا ان کی حکومت موجودہ حالات کا ذمہ دار خود کو سمجھتی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے، ’کیا آپ عمران خان کو اس سب سے بری الذمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو وہ کر گئے ہیں؟‘

ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ حکومت اپنے رویے میں لچک کیوں نہیں دکھا رہی تو خواجہ آصف نے کہا کہ ایسی کوشش کئی بار کی گئی ہے: ’ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ بات چیت کی جائے مگر عمران خان کو یہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ خود کو سب کچھ سمجھنے والے انسان ہیں۔‘

لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر ظفر ملک اپنی پارٹی اور چیئرمین عمران خان کے موقف پر قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کا حل ایک ہی ہے: ’حکومت اعلان کرے کہ الیکشن کب ہوں گے۔ صرف اسی صورت میں قوم کو ریلیف ملے گا، آئی ایم ایف آئے گا اور پاکستان کے دوست ممالک مطمئن ہوں گے۔‘

انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے، جلدی ہوں گے یا ان میں تاخیر ہو گی، ان سوالوں کے جوابات کسی کے پاس نہیں۔ مگر ان سوالوں کے بیچ ملک میں غریب، مڈل کلاس اور اب تو صاحب حیثیت طبقہ بھی معاشی بدحالی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

اسلام آباد کے ایک رہائشی نے اسی بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا ’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔‘

جبکہ آٹے کے حصول کے لیے قطار میں لگے ایک شہری نے کہا: ’کیا ہم اس آٹے کے لیے پیدا ہوئے ہیں جو کھانے کے قابل بھی نہیں؟ یہ جو (حکمران) ہیں، یہ سب ہم غریبوں کے ملزم ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *