سابق آرمی چیف کا ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے

سابق آرمی چیف کا ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے

سابق آرمی چیف کا ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے کا معاملہ: عدالت کا صحافی شاہد اسلم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق معلومات لیک کرنے کے الزام میں گرفتار صحافی شاہد اسلم کی پچاس ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانت بعد از گرفتاری منظور کر لی ہے۔

بدھ کو اس مقدمے کی سماعت کے بعد سپیشل جج سنٹرل اعظم خان نے صحافی شاہد اسلم کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل عدالت نے انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ اس مقدمے کے پراسیکیوٹر نے ملزم کے  چار روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا اس بنیاد پر کی تھی کہ ملزم صحافی نے تفتیشی افسر کو اپنے زیر استعمال لیپ ٹاپ کا پاسورڈ نہیں دیا۔

اس سے قبل صحافی شاہد اسلم کو سنیچر کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کیا گیا تھا۔

پیر کے روز جب شاہد اسلم کو اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج عمر شبیر کی عدالت میں پیش کیا گیا تو اس مقدمے کے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کا کہنا تھا کہ دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے دوران  ملزم نے پاسورڈ نہیں دیا اور ملزم کے جوابات بھی غیر تسلی بخش ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملزم شاہد اسلم سے پوچھا کہ پاسورڈ دینے میں تعاون کریں لیکن انھوں نے نہیں کیا۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے زیر استعمال لیپ ٹاپ اور موبائل کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے انھیں فرانزک لیب بھیجوا دیا گیا ہے اور فرانزک ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ ایک دو روز میں اس کا پاسورڈ دے دیں گے۔

خیال رہے کہ فیکٹ فوکس کے صحافی احمد نورانی کی رپورٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلِخانہ کے اثاثوں میں مبینہ اضافے کی معلومات پر تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ شائع کی گئی تھی۔ آئی ایس پی آر نے بعد ازاں فیکٹ فوکس میں شائع ہونے والے اعداد وشمار کی تردید کی تھی۔

فیکٹ فوکس ویب سائٹ کے مدیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس الزام کی تردید کی تھی کہ شاہد اسلم اس ویب سائٹ پر جنرل باجوہ اور ان کے اہلخانہ کے اثاثوں سے متعلق شائع ہونے والی خبر سے کسی بھی طرح سے منسلک تھے۔

ویب سائٹ کی ادارتی ٹیم کا کہنا ہے کہ شاہد اسلم نے کبھی بھی اس خبرپر فیکٹ فوکس کے لیے کام نہیں کیا۔

bajwa

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم شاہد اسلم تسلیم کرتے ہیں کہ ایف بی آر سے مختلف آفیشلز کا ڈیٹا لیتے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملزم کے موبائل ڈیٹا سے اس مقدمے میں گرفتار دیگر ملزمان کے ساتھ ڈیٹا کو کنفرم کرنا ہے۔

تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ دو دن میں ملزم نے بتایا کہ وہ ماضی میں بھی ایف بی آر سے ڈیٹا لیتے رہے ہیں تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ شخصیات کون تھیں جن کا ڈیٹا لیتے رہے ہیں۔

ملزم کے وکیل میاں علی اشفاق نے تفتیشی افسر کی طرف سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ محض مفروضوں پر ان کے مؤکل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ شاہد اسلم کے خلاف زبانی کلامی ثبوت دیا گیا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف عدالت میں تو موجود نہیں اور ان کا بیان بھی نہیں۔

انھوں نے سوال کیا کہ کیا سابق آرمی چیف خود عدالت میں پیش ہو کر شاہد اسلم کے حوالے سے بیان دے سکتے ہیں؟ میاں علی اشفاق نے کہا کہ سابق آرمی چیف کو قانون کے اوپر رکھا جا رہا ہے۔

FACEBOOK/SHAHIDASLAM

ملزم کے وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ صحافی ہونے کی وجہ سے ان کے مؤکل کا ایف بی آر کے ملازمین کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے۔

 انھوں نے کہا کہ شاہد اسلم پر الزام ہے کہ ایف بی آر کے ملازمین کو رشوت دی۔

میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ ایسا ہوتا رہا تو مفروضوں پر مبنی صحافیوں کے خلاف مستقبل میں کارروائی کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے مطابق مفروضوں پر مبنی ایف بی آر سے ڈیٹا تو کئی سالوں پہلے نکالا گیا ہے۔

میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے بتائے کہ ڈیٹا لیک کی تاریخ کیا ہے اور ملازمین کو کس بینک اکاؤنٹ سے پیسے بھیجے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایک لمحے کے لیے فرض کرلیں کہ ان کے مؤکل نے ایف بی آر کے ملازمین کو رشوت دی تو استغاثہ کو وہ دن، وقت، مقام، کہاں رشوت دی گئی، یہ سب ثابت کرنا ہو گا۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید نے کبھی نہیں کہا کہ وہ اس وقوعہ کے متاثرہ فریق ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملزم شاہد اسلم کے کیس میں متاثرہ فریق تو کبھی سامنے آیا ہی نہیں اور قانون اس کی مدد نہیں کرسکتا جو اپنے حق کے لیے سویا رہتا ہے۔

باجوہ

میاں علی اشفاق نے کہا کہ اس طرح کا مقدمہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بھی ہوا تھا جہاں پر ایف بی آر سے ان کے خاندان کا موبائل ڈیٹا پبلک کیا گیا تھا لیکن اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کنڈکٹ دیکھ لیں۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کی فیملی کا ڈیٹا لیک ہونے کا معاملہ کسی نے نہیں سنا۔

ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ کیا اس وقت ایف آئی اے، ایف بی آر قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سو رہے تھے کہ کوئی پھرتی نہیں دکھائی۔

میاں علی اشفاق نے کہا کہ ان کے مؤکل کے خلاف ایسے مقدمہ بنایا گیا جیسے وہ خود جنرل ریٹائرڈ باجوہ کی فیملی کے خلاف کوئی درخواست لے کر چیئرمین نیب کے پاس پہنچ گئے ہوں۔

انھوں نے کہا کہ جو الزامات جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ پر لگے ہیں اصل میں یہ نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔

شاہد اسلم کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا دیا گیا ہے۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں نے ایف آئی اے کے ساتھ مل کر انکوائری کی اور مقدمہ درج کروا دیا اور ملزم شاہد اسلم تو مقدمے میں نامزد ہی نہیں ہیں، انھیں انصاف ملنا چاہیے۔

انھوں نے اپنے مؤکل کو اس مقدمے سے خارج کرنے کی استدعا کی ہے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا ہے۔

معاملہ شروع کہاں سے ہوا تھا؟

bajwa

گذشتہ برس نومبر میں تحقیقاتی جریدے فیکٹ فوکس کی جانب سے اس وقت کے حاضر سروس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کی اثاثوں میں مبینہ اضافے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی تھی۔

اس تحریر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف کے عہدے پر تعینات ہونے کے بعد سے ان کی اہلیہ اور بہو کے اثاثوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تھا۔

صحافی احمد نورانی کی اس تحریر کے شائع ہونے کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں ذمہ داروں کا تعین کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ٹیکس ریکارڈ لیک ہونا ٹیکس قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

اس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق سوشل میڈیا پر گمراہ کن اعداد و شمار شیئر کیے گئے۔‘

آئی ایس پی آر کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایک خاص گروپ نے نہایت چالاکی و بد دیانتی سےاثاثوں کو منسوب کیا ہے، یہ سراسر غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ اثاثے آرمی چیف کے چھ سالہ دور میں ان کے سمدھی کی فیملی نے بنائے۔‘

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’جنرل باجوہ، ان کی اہلیہ اور خاندان کا ہر اثاثہ ایف بی آر میں باقاعدہ ڈکلیئرڈ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *