روس یوکرین تنازع امریکی صدر جو بائیڈن کی یورپی

روس یوکرین تنازع امریکی صدر جو بائیڈن کی یورپی

روس یوکرین تنازع امریکی صدر جو بائیڈن کی یورپی رہنماؤں سے ملاقات، کیا نیٹو اتحاد کی افادیت اب بھی موجود ہے؟

یوکرین پر روس کے حملے کے ایک ماہ بعد امریکی صدر جو بائیڈن نیٹو، جی سیون اور یورپی یونین کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے برسلز پہنچے ہیں۔

نیٹو، جی سیون اور یورپی یونین کے رہنما اپنے اتحاد کو ظاہر کرنے کے اجلاسوں کا انعقاد کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن ان تینوں اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ یہ پہلا موقع ہو گا جب کوئی امریکی صدر یورپی یونین کے اجلاس میں شریک ہو گا۔

لیکن صدر جو بائیڈن کا برسلز کا دورہ صرف علامتی نہیں ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے نے نیٹو اتحاد میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

یورپی یونین توانائی کی ضرورت کے لیے روس پر انحصار کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے یورپی یونین کو امریکہ سمیت کئی اور اتحادوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی ویڈیو لنک کے ذریعے تینوں اجلاسوں میں حصہ لیں گے۔

نیٹو تنظیم میں شامل ممالک کے 30 صدور اور وزرائے اعظم یوکرین کی مزید امداد پر اتفاق کریں گے۔ نیٹو، یورپی یونین اور جی سیون ممالک کے اجلاسوں کا مقصد یوکرین کےلیے اظہار یک جہتی کرنا ہے۔

ان تنظیموں میں سےکچھ ممبران یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے پر تیار ہیں۔

برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ جی سیون اور نیٹو ممالک کو کہیں گے کہ یوکرین کو مہلک ہتھیار فراہم کیے جانے چاہیں۔

لیکن یہ اتحاد واضح کرے گا کہ وہ یوکرینی صدر زیلنسکی کی جانب یوکرین پر نو فلائی زون قائم کرنے کے مطالبے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اگر روس یوکرین میں جاری جنگ میں مزید شدت لے آیا اور اس نے مغربی ممالک کی اسلحہ کے قافلوں پر حملے، نیوکلیئر ہتھیاروں کے محدود استعمال اور کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کرنا شروع کیا تو اس پر نیٹو کیسا ردعمل ظاہر کرے گا۔

Swedish soldiers take part in a military exercise called "Cold Response 2022"
سویڈن اور فن لینڈ کے فوجی بھی نیٹو کی مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں

مشترکہ دفاع

پچھلے کچھ ہفتوں سے پچپیس ملکوں کے 30 ہزار فوجی ناروے میں ’کولڈ ریسپانس‘ فوجی مشقیں کر رہی ہیں۔

یوکرین کی طرح ناروے کی سرحدیں روس سے ملتی ہے۔ لیکن ناروے نیٹو اتحاد کا حصہ ہے اور اسے نیٹو کے مشترکہ دفاع کی سہولت حاصل ہے۔

ناروے کے ایک فوجی پیڈر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسی مشقیں روس جیسے ملکوں کو بتانے کے لیے ضروری ہیں کہ ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے باز رہے۔

نیٹو ممالک کی ساری توجہ اپنے دفاع کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہے اور وہ پہلے ہی نیٹو کے مشرقی حصہ میں اضافی فوجیوں کو تعینات کر چکے ہیں اور ایئر ڈیفنس بیٹریوں کو بھی وہاں منتقل کیا جا رہا ہے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس سٹولٹنبرگ نے کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ہم وہی کریں جو وہ نہیں چاہتا اور اب ہمارے فوجیں اس کے بارڈر کے قریب ہوں گے۔

نیٹو کے جنگی گروپ اب بالٹک اور بحیرہ اسود تک پھیلا رہے گا۔

سویڈن اور فن لینڈ جو نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں ہیں ان کے فوجی بھی ناروے میں ہونے والی جنگی مشق ’کولڈ ریسپانس‘ میں حصہ لے رہے ہیں۔. یوکرین پر حملے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ بھی نیٹو اتحاد کو جوائن کرنے کے نزدیک آ رہے ہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو اتحاد کی ضرورت پر سوالات اٹھائے تھے۔ اس کے علاوہ فرانس کے صدر ایمنوئل میخواں نے بھی نیٹو ایک ’ذہنی طور پر مردہ‘ قرار دیا تھا لیکن صدر جو بائیڈن کا برسلز کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جارحانہ روس پر قابو پانے کے لیے نیٹو اتحاد کی افادیت موجود ہے۔

یورپی یونین کا اتفاق

یورپی یونین کے اجلاس میں دفاعی حکمت عملی کے ایک منصوبے کی منظوری دی جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت یورپی یونین کے ممبران فوجی لحاظ ایک دوسرے کے قریب آئیں ۔ یورپی یونین کی ایک خواہش ہے کہ 5000 فوجیوں پر مشتمل ایک ریپڈ ریسپانس فورس قائم کی جائے۔

یہ ریپڈ ریسپانس فورس کا قیام فرانس کے صدر میکراں کی یورپ کی تزویراتی خودمختاری کے نظریے کی عکاس ہے۔

صدر میکراں ایک ایسے خود مختار یورپ کے خیال کے حامی ہیں جو اپنے لیے قابل اعتماد ذرائع سے توانائی اور سیمی کنڈکٹر چپس کی فراہمی کو یقینی بنا سکے۔

لیکن یورپی یونین کے ستائیس ملکوں کے سامنے سب سے مشکل سوال توانائی کے متبادل ذرائع کا حصول ہے۔ یورپ کا اپنی توانائی کا چالیس فیصد روس سے پوری کرتا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یورپی یونین کے زبردست اتحاد کے مظاہرے کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل پر اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔

France's President Emmanuel Macron greets Germany's Chancellor Olaf Scholz (R) at the Palace of Versailles, near Paris, on March 10, 2022
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یورپی یونین نے بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے

جرمنی کے چانسلر اولف شولز نے روس سے گیس اور تیل کی درآمد کو روکنے کے مطالبوں کی کھلے عام مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو یورپ کساد بازاری کی جانب بڑھ جائے گا۔ جرمن چانسلر نے کہا: ’’ہمارا اصول یہ ہے کہ یورپی ریاستوں کو پابندیوں کا نقصان روسی قیادت سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔”

خون بہا

یورپ میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں یورپی یونین کے رہنماؤں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں۔

لیکن یورپی یونین کے کچھ ممالک سمجھتے ہیں کہ روس سے توانائی کے بدلے اسے ادئیگیاں دراصل خون بہا ہے جو روس کو پیش کیا جا رہا ہے۔

ایک یورپی سفارت کار نے کہا ’میں نہیں سمجھتا کہ کچھ ممالک کو حالات کی سنجیدگی کا احساس ہے۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن کی یورپ کو مائع گیس کی فراہمی کی پیشکش پر سب کی نظریں ہیں۔ امریکہ قدرتی گیس پیدا کرنے والا دنیا سے سب سے بڑا ملک ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ روسی سیاستدانوں اور روسی امراء پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کرے گا۔ لیکن یورپی یونین کی طرف سے روس پر مزید پابندیوں کے کم امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

برسلز میں کچھ اسے ’تھکاؤٹ‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس معاملے پر غور کرنے کا صحیح وقت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *