روس کی جی آر یو ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی کا اتنا

روس کی جی آر یو ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی کا اتنا

روس کی جی آر یو ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی کا اتنا خوف کیوں؟

اگر کسی خفیہ ادارے کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہو کہ وہ اتنی خفیہ ہو کہ کوئی اس کا نام بھی نہ جانتا ہو تو پھر روس کی ملٹری انٹیلجنس ایجنسی جی آر یو (گریو) بہت ہی کامیاب ایجنسی ہے۔

سوویت یونین کے دور میں بیرونی دنیا میں کے جے بی کا نام ہی گونجتا تھا خواہ وہ یورپ کی طاقت کی راہدریوں میں گھسنے کی بات ہو یا ملک کے اندر مخالفین کو دبانے کا کام ہو۔ کسی نے نہیں سنا ہو گا کہ سوویت یونین میں جی آر یو نام کا ایک ادارہ بھی موجود تھا۔

1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ کے جی بی کا بھی خاتمہ ہو گیا لیکن جی آر یو اپنی جگہ موجود رہی اور ابھی تک ہے اور پھل پھول رہی ہے۔

برطانیے جی آر یو ہی پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے 2018 میں برطانیہ کے شہر سیلیسبری میں ایک سابق جاسوس سرگئی سکرپل اور اس کی بیٹی کو مارنے کی کوشش کی تھی۔ امریکہ حکومت اسی جی آر یو پر بڑے بڑے سائبر حملے کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔ جی آر یو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یوکرین اور شام میں بھی سرگرم ہے۔

اس ماہ جی آر یو کے دو روسی جاسوسوں کو 2014 میں جمہوریہ چیک میں ہونے والے دھماکوں سے جوڑا گیا ہے جن پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے ہی سیلیسبری میں سابق ڈبل ایجنٹ سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی یولیا سکرپل کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی تھی۔

ہم جی آر یو کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

روس کے پاس باقاعدہ ملٹری انیٹیلجس سروس دو سو سال سے ہے۔ نیپولین جنگوں کے وقت سے سپیشل بیورو کے نام سے انٹیلیجنس ایجنسی موجود تھی۔

GRU headquarters in Moscow, October 2018
ماسکو میں جی آر یو کا ہیڈکوارٹر

1917 کے روسی انقلاب کے بعد سپیشل بیورو کو از سر نو منظم کیا گیا اور اس کا نام جی آر یو رکھا گیا۔ جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی تو جی آر یو کو جرمنی اور اس کے اتحادیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ سرد جنگ کے دوران اس کی کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی برطانیہ کے ایٹمی پروگرام میں داخل ہونا تھا۔

جی آر یو کے پاس اپنے خصوصی دستے بھی ہیں جو نگرانی اور تخریبی کاروائیاں کرتے ہیں۔ سوویت یونین کے دور میں جی آر یو بیرونی ممالک میں بھی متحرک ہوتی تھی اور اسی نے 1979 میں افغانستان میں روسی یلغار کی راہ ہموار کی تھی۔

جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو جی آر یو کی حریف ایجنسی کے جی بی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، جن میں ایک حصے کو ایف ایس بی کا نام دیا گیا جس کے فرائص ملک کے اندرونی حالات پر نظر رکھنا تھا۔ روسی صدر ولادیمر پوتن اسی ایف ایس ایف کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ کے جے بی کے دوسرے حصے کو ایس وی آر کا نام دیا گیا اور اس کے فرائض میں بیرون ملک جاسوسی تھا۔ لیکن جی آر یو اپنی جگہ موجود رہی۔

2010 میں جی آر یو میں تبدیلی ہوئی اور اس کا نام ’مین انٹیلیجنس ڈائریکٹریٹ‘ سے تبدیل کر کے ’مین ڈائریکٹریٹ‘ کر دیا گیا لیکن وہ اب بھی پرانے نام جی آر یو سے جانی جاتی ہے۔

امریکی کانگریس کے لیے تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں جی آر یو کو ایک ’بڑی، وسیع اور طاقتور تنظیم‘ کہا گیا لیکن کسی کو اس کے صحیح سائز اور اس کی کارروائیوں کے بارے میں علم نہیں ہے۔

روسی وزارت دفاع کی ویب سائٹ پر اس کا مختصر سا ذکر ہے لیکن اس تنظیم کی اپنی کوئی ویب سائٹ ہی نہیں ہے۔

روسی وزارت دفاع کے مطابق جی آر یو کے فرائض میں ’ایسا سازگار ماحول پیدا کرنا ہے جس سے روس کی دفاعی اور سکیورٹی پالیسی کو نافذ کیا جا سکے۔ اس کے فرائض میں ایسی معاشی، دفاعی، سائسنسی اور تکنیکی معلومات کا حصول ہے جس کی بیناد پر پالیسی ساز اپنے فیصلے کر سکیں۔‘

جی آر یو کے بارے میں رازداری اتنی زیادہ ہے کہ جب 2016 میں اس کے سربراہ اگور سرگن اچانک وفات پا گئے تو اس کے ابتدائی اعلان میں نہ تو ان کے وفات پانے کی وجہ اور نہ ہی جگہ کا نام ظاہر کیا گیا۔

آج جی آر یو کیوں جانی جاتی ہے؟

کرائمیا کو 2014 میں روس میں شامل کیے جانے کے بعد یورپی یونین اور امریکہ نے سابق سربراہ اگور سرگن پر پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔ یورپی یونین نے انھیں یوکرین کی خونی جنگ میں جی آر یو کی کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

Igor Girkin, aka Strelok (C), walks with his bodyguards in the eastern Ukrainian city of Donetsk on 11 July 2014
اگور سرگن 2014 میں ڈونسک میں اپنی محافظوں کے ہمراہ

سکیورٹی کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ جب جی آر یو میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں بھی ہوئیں تب بھی اگور سرگن نے اس کے باوجود ایجنسی کے کام کو متاثر نہیں ہونے دیا اور وہ یوکرین میں ایف ایس بی سے زیادہ موثر ثابت ہوئی۔

اگور سرگن اس وقت زندہ نہیں تھے جب ان کی ایجنسی پر ہیلری کلنٹن کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ان کی ہزاروں پرائیوٹ میلز کو ہیک کر کے لیک کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کا بظاہر مقصد ہیلری کلنٹن کو انتخابات میں نقصان پہنچانا تھا کیونکہ وہ روس کے خلاف تھیں۔

اس کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے 12 روسی شہریوں کے خلاف سائبر جرائم کا مقدمہ درج کیا تھا۔ ان افراد پر الزام تھا کہ وہ جی آر یو کے افسران ہیں۔ روسی حکومت نے ردعمل میں کہا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں جو ان 12 افراد کا ملٹری انٹیلیجنس یا ہیکنگ سے تعلق ثابت کر سکیں۔

اگر جی آر یو نے واقعی امریکی ڈیموکریٹ پارٹی کو سائبر حملوں کا نشانہ بنایا اور یوکرین میں آپریشن کیے تو اس نے یقیناً اپنے احداف حاصل کیے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن ہار گئیں اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ آج بھی مشرقی یوکرین میں باغیوں کا قبضہ ہے۔

لیکن اپنے کچھ آپریشز میں جی آر یو بری طرح ناکام بھی ہوئی ہے، سیلیسبری میں ڈبل ایجنٹ سرگئی سکرپل کو مارنے کی کوشش ناکام رہی۔

جی آر یو کے دو مبینہ اہلکار جو برطانیہ آئے، وہ نہ صرف اپنا حدف حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ اپنے پیچھے نشانیاں بھی چھوڑ گئے۔ انھوں نے جس طرح سی سی ٹی وی کا خیال نہیں رکھا تو شاید وہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ روس اپنے سکیورٹی اہداف حاصل کرنے کے لیے خطرات مول لینے پر تیار ہے۔

سرگئی سکرپل غداری کے جرم میں روس کی جیل میں قید تھے اور انھیں 2010 میں جاسوسوں کے تبادلے میں رہائی ملی تھی۔

suspected agents
جی آر یو کے چار مبینہ ایجنٹوں نے ڈپلومیٹک پاسپورٹ پر ہالینڈ تک کا سفر کیا

جس برس جی آر یو سیلیسبری میں اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی اسی برس اس کے چار مبینہ ایجنٹوں نے ڈپلومیٹک پاسپورٹس پر ہالینڈ کا سفر کیا جہاں انھوں نے کیمیکل اسلحے کی نگرانی کرنے والے ادارے او پی سی ڈبلیو کے وائی فائی نیٹ ورک میں گھسنے کی کوشش کی لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ او پی سی ڈبلیو سیلیسبری میں سرگئی سکرپل کو زہر دینے اور شام میں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کر رہا تھا۔

سیلیسبری میں ملوث مشتبہ افراد یہ افراد بھی اپنے پیچھے آن لائن اور تحریری شہادتیں چھوڑ گئے لیکن ڈچ حکام نے انھیں واپس روس جانے کی اجازت دے دی۔

سکیورٹی ماہر مارک گلیوٹی نے اس وقت بی بی سی کو بتایا تھا کہ چونکہ ’جی آر یو بہت متحرک ہے اور اس کے کچھ آپریشنز کا ناکام ہونا لازمی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ بے وقوف ہیں۔ انھیں شاید ہدایات مل رہی ہیں کہ کام کرو، ناکامی کا زیادہ فکر نہ کرو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *