رانی بھٹیانی سندھ کا ’کالی داس‘ ڈیم ’بھٹیانی‘ ڈیم ہو گیا

رانی بھٹیانی سندھ کا ’کالی داس‘ ڈیم ’بھٹیانی‘ ڈیم ہو گیا

رانی بھٹیانی سندھ کا ’کالی داس‘ ڈیم ’بھٹیانی‘ ڈیم ہو گیا، مگر ستی کی رسم ادا کرنے والی رانی کون تھیں؟

پاکستان میں صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں بعض مقامی لوگوں کی جانب سے کیے گئے اعتراض کے بعد ننگرپارکر کی ندی پر بنائے گئے ’کالی داس‘ نامی ڈیم کا نام تبدیل کر کے ’بھٹیانی ڈیم‘ رکھ دیا گیا ہے۔

نیا نام ’رانی بھٹیانی‘ کی مناسبت سے دیا گیا ہے جن کا تعلق موجودہ انڈیا کی سابقہ ریاست جیسلمیر سے تھا۔

سندھ میں اس ڈیم کے نام پر تنازع اُس وقت شروع ہوا جب وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے گذشتہ سال اکتوبر میں ننگرپارکر میں اس ڈیم کا افتتاح کیا تھا جس کا نام ’کالی داس‘ رکھا گیا۔

یہ ڈیم کارونجھر پہاڑ سے نکلنے والی بھٹیانی ندی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ 333 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس ڈیم میں ایک ہزار ایکڑ فٹ سے زائد پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔

کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ 400 سکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جہاں مون سون کے سیزن میں 13 انچ تک بارش ہوتی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق اس ڈیم کا مقصد علاقے میں بارانی زمین کی آبادکاری اور لوگوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کرنا ہے۔

رانا ہمیر سنگھ سندھ اسمبلی کے رُکن ہیں اور اُن کا تعلق تھر اور ننگرپارکر کے ٹھاکر خاندان سے ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’کاری تاس‘ نے بھٹیانی ڈیم پر ایک چیک ڈیم بنایا تھا، بعد میں جب حکومت سندھ نے ڈیم بنایا تو اس کا نام ’کالی داس‘ رکھا گیا۔

سندھ، ڈیم، ندی
وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے گذشتہ سال اکتوبر میں ننگرپارکر میں اس ڈیم کا افتتاح کیا تھا جس کا نام ‘کالی داس’ رکھا گیا

انھوں نے اس پر اعتراض کیا اور سوال اٹھایا کہ ’یہ کاری یا کالیا کون ہے؟ آخر کیوں تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’رانی بھٹیانی رانا چندن کی اہلیہ تھیں جنھوں نے ندی کے کنارے پر ستی کی رسم ادا کی تھی اور اسی مناسبت سے اس ندی کا نام بھٹیانی پڑ گیا تھا۔ مگر جب اس ندی پر ڈیم بنایا گیا تو اس کا نام ’کالی داس‘ رکھ دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے ہمارے اعتراضات سے اتفاق کیا کہ مقامی تاریخ کے ساتھ گڑ بڑ نہیں ہونی چاہیے اور اب اس ڈیم کا نام بھٹیانی ڈیم رکھ دیا گیا ہے۔‘

رانی بھٹیانی کون تھیں؟

ننگرپارکر پر کسی زمانے میں رانا چندن کی حکومت تھی۔ کتاب ’پرانا پارکر‘ میں مصنف منگھا رام اوجھا لکھتے ہیں کہ رانا چندن نے جیسلمیر کے بھاٹی راجپوت مہاراجہ کی بیٹی سے شادی کی تھی۔

’وہ ایک نیک سیرت اور دین دھرم پر عمل کرنے والی لڑکی تھیں۔ جب بھی رانا کہیں باہر جاتے تھے تو وہ ایک برہمن جوتشی سے روزانہ پوچھا کرتی تھیں کہ رانا اس وقت کیا کرتا ہو گا؟‘

یہ جوتشی انھیں جواباً کہتے تھے کہ ’رانا اس وقت فلاں جگہ پر فلاں کام کر رہا ہو گا‘ اور کتاب کے مطابق یوں برہمن جوتشی کی تجربے کی بنیاد پر بتائی گئیں باتیں درست ثابت ہوتی تھیں۔

مصنف منگھا رام مطابق ایک دن رانا چندن کسی کام کے لیے گئے ہوئے تھے اور اس برہمن جوتشی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ بھٹیانی نے دستور کے مطابق برہمن کو طلب کیا تو ان کا چھوٹا بھائی حاضر ہوا جو علم جوتش سے انجان تھا۔

لیکن رانی بھٹیانی نے چھوٹے برہمن سے بھی یہی سوال کیا کہ ’رانا کہاں ہو گا اور کیا کر رہا ہو گا؟‘ اس برہمن نے بغیر سوچے سمجھے کہا کہ رانا وفات پا گئے ہیں۔

سندھ، ڈیم، ندی، ننگرپارکر
بھٹیانی ندی پر قائم ڈیم

بھٹیانی رانا کی وفات کا سن کر رنجیدہ ہو گئیں۔ انھیں اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو انھوں نے ’آگ کا آلاؤ تیار کروایا اور اس میں کود کر ستی ہو گئیں۔ اس دوران رانا پہنچے لیکن اس وقت تک بھٹیانی کا جسم راکھ ہو چکا تھا۔‘

ندی کے قریب ستی ہونے والی رانی کی یاد میں اِس ندی کو ’بھٹیانی‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ بھٹیانی ندی اس علاقے کی سب سے بڑی ندی ہے۔

رانا خاندان نے گرو تبدیل کر دیے

’پرانا پارکر‘ میں لکھا گیا ہے کہ اس وقت سوڈھا راجپوت کے گرو راج گر برہمن تھے۔ اس واقعے کے بعد انھوں نے شر مالھی برہمنوں کو اپنا گرو تسلیم کیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

رانا چندن اپنی بیوی کے ستی ہونے کے بعد غم سے نڈھال رہے۔ انھوں نے حکمرانی چھوڑ دی اور وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہو گئے، جس کے بعد وہ کیرٹی میں مکوانہ کمیونٹی کے پاس آ کر رُکے جنھوں نے انھیں حکمرانی عطا کی۔

ننگر پارکر میں بھٹیانی کے نام کے ساتھ ’چندن گڈ‘ نامی قلعے کے بھی آثار موجود ہیں۔ منگھا رام اوجھا لکھتے ہیں کہ بیرونی حملہ آوروں سے بچنے کے لیے انھوں نے کارونجھر پہاڑ میں یہ قلعہ تعمیر کرایا تھا اور راجپوت ٹھاکر اس قلعے سے حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے تھے۔

سندھ میں انگریزوں سے آخری لڑائی بھی اسی مقام پر لڑی گئی جس میں راجپوتوں کو شکست ہوئی۔ انگریز فوج کے سربراہ کرنل تڑوت کے حکم پر چندن گڈ نامی اس قلعے کو توپوں سے اڑایا گیا تھا۔

سندھ، ڈیم، ندی، ننگرپارکر
بھٹیانی ندی

تھر کے سوڈھا

عمرکوٹ اور تھر میں راجپوت ٹھاکر سوڈھا سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اس وقت 36ویں پیڑھی چل رہی ہے۔ رانا ہمیر سنگھ کے مطابق سنہ 1125 عیسوی میں سوڈھو جی نے رتو کوٹ میں حکومت قائم کی تھی۔

’تاریخ ریگستان‘ میں رائے چند راٹھور لکھتے ہیں کہ یہ رتو کوٹ سندھ کے شہر کھپرو کے قریب واقع تھا۔ بعض حوالوں کے مطابق سوڈھو ٹھاکر نے بزوور طاقت یہ شہر حکمران سومرا خاندان سے حاصل کیا تھا جبکہ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ سومرا خاندان نے تحفے کے طور پر یہ کوٹ سوڈھو ٹھاکر کو دیا تھا جہاں انھوں نے اپنی حکمرانی قائم کی اور رانا کہلانے لگے۔

سوڈھا کے پوتے درجنشال امرکوٹ آ گئے اور چھوٹا بیٹا آسرا پارکر آ گیا، یوں ان دونوں علاقوں میں ان کی حکمرانی قائم ہوئی اور وہ رانا پکارے جانے لگے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *