دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کی سندھ ہائیکورٹ کے

دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کی سندھ ہائیکورٹ کے

دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کی سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر

دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی کی عمر 14 سال ہے اور یہ کم عمری کی شادی ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دائر اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’سندھ ہائیکورٹ نے 8 جون 2022 کو دعا زہرہ کو اس کی مرضی سے فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ دعا زہرہ کے بیان اور میڈیکل ٹیسٹ کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا ہے۔‘

مہدی کاظمی کا کہنا ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں دعا کی عمر 17 سال بتائی گئی ہے تاہم نادرا ریکارڈ، تعلیمی اسناد اور دیگر دستاویزات کے مطابق دعا کی عمر 14 سال ہے۔ ’پولیس نے کیس کا چالان سی کلاس میں ٹرائل کورٹ میں جمع کرادیا ہے۔‘

انھوں نے سپریم کورٹ سے یہ استدعا کی ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں خامی ہے لہذا اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ درخواست گزار نے فوری سماعت کی بھی درخواست دائر کردی ہے اور اب آئندہ ہفتے درخواست کی سماعت متوقع ہے۔

’16 سال سے کم عمر لڑکی کا گھر سے جانا اغوا کے زمرے میں آتا ہے‘

سنیچر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران مہدی کاظمی کا کہنا تھا کہ پولیس نے اپنے چالان کا انحصار میڈیکل رپورٹ پر کیا ہے اور اس سرٹیفیکٹ کو ایک ڈاکٹر نے تشکیل دیا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے۔ ‘اس حوالے سے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے موجود ہیں۔’

سماجی کارکن جبران ناصر کا اس موقع پر کہنا تھا مرکزی ملزم ظہیر کی ابھی تک تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ ‘جہاں تک دعا زہرہ کا تعلق ہے کہ پولیس اس کے بیانات پر انحصار کر رہی ہے لیکن اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ گھر سے کیسے گئی اور پنجاب کیسے پہنچی۔’

دعا زہرہ

جبران ناصر نے اغوا کی تشریح بیان کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق اگر 16 سال سے کم عمر لڑکی گھر سے جاتی ہے تو اس کو رضامندی نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ممکن ہے اسے ورغلا کر لے جایا گیا ہو۔ ‘یہ اغوا کے زمرے میں آتا ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ پولیس اپنی تفتیش شیئر نہیں کر رہی ہے۔ انھوں نے آئی جی کو درخواست دی ہے کہ تفتیشی افسر تبدیل کیا جائے اور ترمیمی چالان پیش کیا جائے۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے جس میں فوری رلیف کے لیے استدعا کی گئی ہے۔ ‘فیصلہ معطل کر کے دعا کو والدین کی تحویل میں دیا جائے یا پھر ریاست کی تحویل میں دیں۔ جب تک فیصلہ ہو، اگر میڈیکل سرٹیفیکٹ پر انحصار کرنا ہے تو میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔ پولیس نے چالان میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی حالانکہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں دیا۔’

’دعا زہرہ اپنی مرضی سے پنجاب گئیں‘

دعا زہرہ کو پانچ جون کو پنجاب کے ضلع بہاولنگر سے بازیاب کیا گیا تھا اور پہلے اُنھیں سندھ ہائیکورٹ اور پھر لاہور ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔

سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرہ کا معاملہ نمٹاتے ہوئے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے جس کے ساتھ جانا چاہیں یا رہنا چاہیں رہ سکتی ہیں اور یہ کہ شواہد کی روشنی میں یہ اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔تاہم عدالت نے ٹرائل کورٹ سے کہا تھا کہ وہ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے۔

دعا زہرہ کے والد نے 16 اپریل کو کراچی میں اپنی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ نے اُن کی پیشی کے بعد پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ دعا زہرہ کی ساس اور دیگر سسرالی رشتے داروں کو ’ہراساں‘ نہ کرے۔

جمعرات کو پولیس نے دعا زہرہ کیس میں چالان عدالت میں پیش کر دیا تھا جس کے مطابق دعا زہرہ اپنی مرضی سے پنجاب گئیں اور ان کے اغوا کا جرم ثابت نہیں ہوتا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں پیش کیے گئے چالان میں کہا گیا ہے کہ میڈیکولیگل رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان ہے اور اُن کی شادی لاہور میں ہوئی ہے چنانچہ اُن پر سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کا اطلاق نہیں ہوتا۔

واضح رہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد شادی پر قانون سازی صوبائی دائرہ اختیار ہے چنانچہ سندھ میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال ہے جبکہ پنجاب میں شادی کے لیے لڑکے کی عمر 18 سال اور لڑکی کی عمر 16 سال ہونی چاہیے۔

پولیس چالان میں مزید کیا کہا گیا؟

چالان کے مطابق دعا زہرہ اپنا بیان علاقہ مجسٹریٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے روبرو دے چکی ہیں لہٰذا اس مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 216 کا بھی اطلاق نہیں ہوتا۔

عدالت

پولیس نے مقدمے میں گرفتار ملزمان غلام مصطفیٰ اور اصغر کو بے گناہ قرار دیا ہے اور عدالت سے استدعا کی کہ انھیں رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

دو ملزمان نکاح خواں اور گواہ عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں جبکہ دیگر 10 ملزمان ذاتی ضمانتی مچلکوں پر رہا کیے جا چکے ہیں۔

پولیس نے عدالت سے چالان منظور کر کے مقدمہ بند کرنے کی درخواست کی تھی۔

کیس کا پس منظر

دعا زہرہ رواں سال اپریل میں کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں۔ بعد میں اُنھوں نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ اُنھوں نے اپنی پسند سے شادی کر لی ہے۔

عدالت نے دعا کی بازیابی کے بعد ان کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ سول ہسپتال کراچی کے ریڈیولوجی ڈپارٹمنٹ کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان ہے اور 17 سال کے قریب ہے۔

دعا کے والد مہدی کاظمی کی جانب سے ان نتائج پر تحفظات ظاہر کیے گئے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ میں آٹھ جون کو پیشی کے دوران انھوں نے روسٹرم پر آ کر کہا تھا کہ ’میری شادی کو 16 سال ہوئے ہیں، میری بچی 17 برس کی کیسے ہو گئی۔‘

ان کا مؤقف ہے کہ ان کی بیٹی کی عمر 14 برس ہے اور کم عمری کی شادی کے لیے ان کا جعلی نکاح نامہ بنایا گیا ہے۔

دعا کے والد کا مطالبہ ہے کہ والدین کی موجودگی میں دوبارہ میڈیکل کروایا جائے اور عمر کی تصدیق کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔

کم عمری میں شادی

عمر کے تعین کا میڈیکل ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے؟

دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے معاملے پر ان کے والدین کے اعتراضات کے بعد بی بی سی کی ترہب اصغر نے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ طارق سے گفتگو کی۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کسی کی عمر کا میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے تعین کرنے کے طریقہ کار میں کافی ساری چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔’عمر کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے پیدائشی دستاویزات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگر یہ تصور بھی کر لیں کہ دعا کے والدین نے ان کی عمر نادرا میں کم لکھوائی تب بھی وہ 17 سال کی کیسے ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کے والدین کا نکاح نامہ 2005 کا ہے تو بچی اتنے سال پہلے کیسے پیدا ہوئی۔‘

سمیعہ طارق کے مطابق اس کے علاوہ سکول کے دستاویزات، ہسپتال کے کاغذات اور دیگر دستاویزات کا جائزہ لینا بھی کافی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل کرتے ہوئے دانتوں کو گننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ انسان کے بتیس دانت 22 سے 25 سال کی عمر کے دوران پورے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوغت اور جسمانی نشوونما کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ایکس رے کرنے بھی ضروری ہوتے ہیں جس میں کلائی، کہنی، کندھے، شرونی اور سٹرنم کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جو ابتدائی جسمانی عمر کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔‘

سمیعہ طارق کے مطابق ان میں سے بیشتر چیزیں تشخیص کے عمل میں مدد دیتی ہیں جبک ایکس رے کے ذریعے موازنہ ریڈیولاجیکل اسیسمنٹ سے کیا جاتا ہے جس کی بنیاد مختلف ایکس ریز پر نظر آنے والے اوسیفیکیشن ڈیٹا کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اس کے بعد حتمی رائے ایک بورڈ کی طرف سے دی جاتی ہے نہ کہ کسی فرد کی طرف سے جبکہ یہ رپورٹ ایک ڈاکٹر نے بنائی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *