دستاویزات کو اہمیت دینے والا باخبر صحافی بیانیے

دستاویزات کو اہمیت دینے والا باخبر صحافی بیانیے

دستاویزات کو اہمیت دینے والا باخبر صحافی بیانیے کی جنگ میں بہت آگے چلا گیا تھا

’آئی ایم ویری سوری، فرحت‘ میں نے حیرت سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں ارشد شریف کھڑے تھے۔

یہ سنہ 2013 کی بات ہے، میں جونیئر رپورٹر تھی۔ دستاویزات کا ایک پلندہ میرے ہاتھ لگا مگر کہانی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

صبح آٹھ بجے کا وقت تھا اور ارشد شریف اپنے دفتر میں معمول کے مطابق کاغذوں میں گم تھے۔ میں ان کے آفس گئی اور ان سے کہا ’سر یہ سٹوری ہے، یہ کرپشن ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔‘

انھوں نے دیکھے بغیر پوچھا، کتنی بار دیکھا ہے ڈاکیومنٹس کو؟‘ میں نے جواب دیا کہ ایک بار دیکھا ہے۔ انھوں نے قدرے سخت لہجے میں کہا ’تو باہر جائیں اور بار بار دیکھیں اور سمجھیں کہ یہ کیا ہے۔‘

یہ جواب اور لہجہ میرے لیے غیر متوقع تھا۔ اور کیریئر کے ابتدائی دنوں کی طرح ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ بہتر ہے جرنلزم چھوڑ دوں۔ اتنے میں مجھے ارشد شریف کے ’آئی ایم سوری‘ کی آواز آئی۔ انھوں نے ڈاکیومنٹس دیکھے، اور پھر سمجھایا کہ یہ کیا ہے اور اس خبر کو کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ سمجھانے کے بعد وہ اٹھے اور دوبارہ کہا کہ ’میں ایک بار پھر معذرت چاہتا ہوں، مجھے سخت لہجے میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘

کینیا کے شہر نیروبی میں پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ارشد شریف نیوز رومز اور دوست احباب میں ایک ایسے صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں جو ’اپ رائٹ (دیانتدار) اور ویل انفارمڈ (باخبر)‘ تھے۔

ارشد شریف کی میت آج کینیا سے پاکستان پہنچے گی

اُن کے ساتھی خاور اظہر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گذشتہ پندرہ برسوں میں اُن کے ساتھ اپنے تجربے کے بارے میں کچھ ان الفاظ میں بتایا: ’وہ ایک بہت ذہین اور پڑھے لکھے صحافی تھے، چاہے وہ بین الاقوامی سیاست ہو یا معیشت، وہ پڑھتے تھے۔ یہ آپ کو پاکستان میں بہت کم ملے گا۔ سُنی سُنائی پر یقین نہیں کرتے تھے، ان کے دفتر میں فائلوں کا ڈھیر اور گھر میں کتابوں کا ڈھیر ہوتا تھا۔‘

’ان کی رائے سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں مگر ان کی رائے انفارمڈ (معلومات کی بنیاد پر) ہوتی تھی، سنی سنائی نہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ارشد شریف نہایت نمایاں ہونے کے باوجود بہت عاجز انسان تھے۔ وہ ٹریڈ یونین یا صحافتی سیاست میں شامل تو نہیں تھے لیکن صحافیوں اور ان کے حقوق کے لیے بہت حساس تھے۔ وہ باقاعدگی سے میڈیا کے وہ لوگ جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان کے خاندانوں کی مکمل کفالت کرتے تھے۔ وہ ایک بہترین میزبان تھے۔ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ہم نے ایک عمدہ صحافی، دوست اور انسان کھو دیا ہے۔‘

ارشد شریف بہت سے اداروں میں ادارہ جاتی عہدوں پر تعینات رہے جہاں وہ ایک ایسے باس کے طور پر جانے جاتے تھے جو نئے انے والوں کو کام کرنے کا موقع دیتے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی نوشین یوسف نے کہا کہ ’میں آج جہاں ہوں اس کا کریڈٹ میں اگر کسی ایک شخص کو دینا چاہوں تو وہ ارشد شریف ہی ہیں۔

انھوں نے مجھ سے کبھی سوفٹ سٹوریز نہیں کروائیں اور وہ مرد اور خواتین صحافیوں میں فرق نہیں رکھتےتھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو کیسے خبر بنانا ہے، ایکسکلوسیو کیسے کرنی ہیں، یہ سب انھوں نے سکھایا۔‘

اُن کے ساتھ کام کرنے والے سینیئر صحافی اعزاز سید نے ارشد شریف کے ساتھ 2009 سے 2012 تک کام کیا۔ اعزاز کی زیادہ تر خبریں فوج مخالف ہوتی تھیں جبکہ ارشد شریف کو ایک ’پرو اسٹیبلشمنٹ ‘ صحافی سمجھا جاتا تھا۔

تاہم اعزاز کہتے ہیں کہ ’میری خبریں بہت تنقید پر مبنی ہوتی تھیں مگر ارشد نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ وہ ہمیشہ شکایت کرنے والوں سے کہتے تھے کہ میں اپنے رپورٹر کو اہمیت دوں گا۔ ہمارے کچھ دفتری امور پر کچھ اختلافات بھی رہے مگر میں نے جب بھی کوئی اچھا کام کیا، انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ باقاعدہ میسج کرتے کہ مجھے تم پر فخر ہے۔ ذاتی اور پروفیشنلی طور پر ارشد شریف ہمیشہ سپورٹیو رہے۔‘

ارشد شریف کی ہلاکت کے خلاف صحافی تنظیموں نے ملک بھر میں مظاہرے کیے ہیں

ارشد شریف کی صحافت سے جڑے تنازعات

’میرا نام سکرین پر چل رہا تھا اور اس کے ساتھ غدار لکھا آ رہا تھا۔ مجھے گاؤں سے فون آیا۔ میرے گھر والوں نے بتایا کہ ارشد شریف بار بار تمہارا نام اور تصویر چلا رہے ہیں کہ تم ملک کے غدار ہو۔ لوگ ہمارے گھر پہنچ رہے ہیں۔ یہ ایک بہت پریشان کن وقت تھا۔‘

’مجھے گھر سے غائب ہونا پڑا۔ میرے گھر والوں کو شدید پریشانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اس وجہ صرف یہ تھی کہ ارشد شریف نے بغیر میرا موقف لیے، یا تصویر کا دوسرا رُخ دیکھے سکرین پر میرے نام کے ساتھ غدار چلا دیا تھا۔ اور یہ سب ایک ایسی خبر کی وجہ سے کیا جا رہا تھا جس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

یہ واقعہ مجھے سے اسلام آباد کے ایک مشہور اخبار کے تحقیقاتی سیکشن کے سینیئر صحافی نے ایک سال پہلے سُنایا تھا۔ وہ ان چند صحافیوں میں سے ایک تھے جو یا تو اس بیانیے کا نشانہ بنے جو گذشتہ کچھ برسوں میں میڈیا پر پابندیوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھا، یا وہ صحافی جن پر حملے ہوئے اور ارشد شریف سمیت کئی بڑے صحافیوں نے اُن کا ساتھ دینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان حملوں کو بھی ’جعلی‘ قرار دیا۔

ان میں سے ایک ابصار عالم تھے۔ جب انھیں اسلام اباد میں گولی ماری گئی تو ارشد شریف نے اپنے پروگرام اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ابصار پر حملے کو مشکوک قرار دیا۔ اس کی ایک وجہ ان کے قریبی ساتھی وہ اختلافات بھی بتاتے ہیں جو اس وقت ارشد شریف اور ابصار عالم میں پیدا ہوئے جب وہ چیئرمین پیمرا تھے۔

تاہم ان کی اپنی ٹیم میں رہنے والے اعزاز سید نے کہا کہ ارشد شریف کے ساتھ رپورٹنگ کے دنوں میں جب ’میرے گھر پر حملہ ہوا تو ارشد شریف وہ پہلے آدمی تھے جو میرے گھر پہنچے اور میرا بہت ساتھ دیا۔ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مجھے کہا کہ میں برطانیہ چلا جاؤں مگر میں نے منع کر دیا۔ وہ کسی بھی حملے یا دھمکی کے موقع پر اپنی ٹیم کے لوگوں کا ساتھ دیتے تھے۔‘

لیکن ان کی شخصیت کا یہ پہلو ہمیں بڑے مواقع پر چھپا نظر آتا ہے۔ مطیع اللہ جان کے مطابق ’اس بات کا بھی افسوس ہے کہ وہ سیاسی بیانیے کی حمایت میں بعض اوقات صحافتی پیشہ ورانہ اقدار پر سمجھوتہ کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ انھوں نے کئی بار کئی صحافیوں کو ’غدار‘ قرار دیا یا ان پر ریاست مخالف سرگرمیوں کا الزام لگایا۔ مگر شاید وہ اپنے موقف پر دلائل کے ساتھ قائل ہو چکے ہوتے تھے، البتہ وہ دلائل صحافتی اقدار کے مخالف ہو سکتے تھے۔ ارشد کا خاندانی بیک گراونڈ بھی ملٹری تھا، ان کے والد نہ صرف فوج کا حصہ تھے بلکہ انھوں نے آئی ایس ائی میں خدمات بھی سرانجام دی ہوئی تھیں۔‘

ارشد شریف

ان کی صحافت سے جڑا دوسرا تنازعہ ان کی بعض سیاسی جماعتوں کے خلاف رپورٹنگ بھی تھی، جس کے بارے میں سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے بی بی سی سے بات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے دلائل اگرچہ ٹھیک نہ بھی ہوں مگر وہ ان کے ساتھ جڑے رہتے تھے۔ اس کی وجہ ان کی ذاتی پسند، ناپسند نہیں بلکہ پراسس کی سمجھ نہ ہونا تھا۔ مثال کے طور پر گذشتہ کچھ برسوں میں جس قدر پولیٹیکل انجنیئرنگ ہوئی، ارشد کو اس میں عدالتی کاروائیوں اور طریقہ کار کا علم نہیں تھا کیونکہ انھوں نے کبھی عدالتی رپورٹنگ نہیں کی تھی۔‘

’وہ بہت زیادہ دستاویزی ثبوت دیکھتے تھے۔ ڈاکیومنٹس کے ساتھ ان کی گہری وابستگی تھی۔ لیکن انھیں یہ سمجھ نہیں ائی کہ یہ سلیکیٹو ڈاکیومنٹس جو لیک کیے جاتے ہیں ان کا پس پردہ مقصد مخصوص ایجنڈا سیٹ کرنا ہوتا ہے۔ اور ارشد اس کے تنہا شکار نہیں تھے، اور لوگ بھی ہیں۔ مگر کم از کم ارشد کے بارے میں یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی خبروں کے پیچھے کوئی جانبداری یا ایجنڈا نہیں تھا۔ وہ دستاویزات سے اتنا کنونس ہو چکے ہوتے تھے کہ وہ ان سے ہٹ کر کچھ دیکھتے نہیں تھے۔‘

مطیع اللہ جان سمجھتے ہیں کہ حالیہ کچھ مہینوں میں ان کا فوج مخالف یا تحریک انصاف کی حد سے زیادہ حمایت کرنے کی ایک وجہ وہ غصہ نظر آتا ہے جس کی وجہ یہ سوچ تھی کہ انھیں گذشتہ کچھ برسوں میں بیانیہ یا ایجنڈا سیٹ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’حالیہ کچھ برسوں میں وہ سیاسی جماعتوں کے معاملے پر بیانیے کی جنگ میں بہت آگے چلے گئے اور شاید ابھی حالیہ کچھ مہینوں میں بہت سے صحافیوں کو محسوس ہوا ہے کہ انھیں بعض اداروں کی طرف سے استعمال کیا گیا۔

’اس لیے اس کو قبول کرنے کی بجائے وہ اپنے پچھلے موقف سے ہی چپکے رہے۔ ارشد شریف کی پیشہ ورانہ انا کی وجہ سے یہ غصہ تھا۔ اس لیے وہ یہ دیکھے بغیر کہ ایک پارلیمانی طریقہ کار کیا ہوتا ہے، وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، اس کی وجہ استعمال ہونے کا غصہ بھی تھا کہ انھیں استعمال کیا گیا۔ اس لیے انھوں نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا مناسب نہیں سمجھا۔‘

تمام تر اختلافات کے باوجود ان کے ساتھی ارشد شریف کی موت کو پاکستان کی صحافت میں ایک بڑا خلا سمجھتے ہیں اور آزاد تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صحافتی حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس ہلاکت کی شفاف تحقیقات نہیں ہوئیں تو یہ پاکستان میں صحافت کے لیے ایک الارمنگ صورتحال ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *