خواتین کے لیے دوسری شادی بہتر یا تنہا زندگی گزارنے

خواتین کے لیے دوسری شادی بہتر یا تنہا زندگی گزارنے

خواتین کے لیے دوسری شادی بہتر یا تنہا زندگی گزارنے کا راستہ

یہ ایک ایسی شادی تھی جسے ہم سادہ یا عام نہیں کہہ سکتے ہیں۔ انڈیا میں کسی بھی عورت کی دوسری شادی شاذ و نادر ہی اسی دھوم دھام سے کی جاتی ہے جس کے لیے انڈیا کی شادیاں مشہور ہیں۔

دوسری شادی ہمیشہ خاموش اور چند گنے چنے افراد کی موجودگی میں ہوتی ہے۔ آپ نے یہ کہاوت سنی ہوگی کہ ‘شادی زندگی میں صرف ایک بار ہوتی ہے۔’

تیلگو زبان کی پلے بیک گلوکارہ اور دبنگ فنکار سنیتا اپادرشٹا نے حال ہی میں اپنے قریبی دوست رام ویرپپنن سے شادی کی۔ شادی کے دن انھوں نے بس اتنی تیاریاں کی تھیں کہ اپنے بالوں میں پھول سجائے اور سرخ رنگ کا بلاؤز زیب تن کیا تھا۔

42 سال کی عمر میں سنیتا کی دوسری شادی کو بہت سے لوگوں نے سراہا۔ لیکن کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔ سنیتا نے 19 سال کی عمر میں کرن کمار گوپاراگا سے پہلی شادی کی تھی لیکن دونوں میں طلاق ہوگئی تھی۔

دوسری شادی کے موقع پر لی گئی تصاویر میں سنیتا کے ساتھ ان کے دو بچے، بیٹے آکاش اور بیٹی شرےیا ساتھ کھڑی نظر آرہی ہیں۔ دونوں بچے سنیتا کی پہلی شادی سے ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی یہ تصاویر کسی عام شادی کی طرح ہیں۔ لیکن یہ اس معاشرے کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتی ہیں جہاں مردوں کے مقابلے خواتین بہت کم دوسری شادی کرتی ہیں۔

یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے۔ لیکن جب بھی کوئی عورت دوسری شادی کرتی ہے اور زندگی کی دوسری اننگز کے آغاز کا جشن مناتی ہے تو ہمارے معاشرے کا دوہرا معیار نظر آتا ہے۔ ایسے مواقعے پر اس کے متعلق بحث و مباحثہ ہونا چاہیے تاکہ ہمیں یاد رہے کہ ایسی خواتین جو دوبارہ شادی کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں ان کے بارے میں ہمارا معاشرہ کیا سوچتا ہے۔

انڈیا میں ایک طویل عرصے سے شادی کی پہلی شرط یہ رہی ہے کہ دلہن کنواری ہو۔ لیکن ایسی ہزاروں مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں کم عمری میں بیوہ عورتوں کو معاشرے سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کیوں کہ انھیں منحوس سمجھا جاتا ہے۔ بہر حال اب تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اگر چہ ان کی رفتار سست ہی کیوں ہو۔

شادی

پہلی نظر کی محبت اور دوسری شادی

شریموئی پیو کنڈو صرف چھ سال کی تھیں جب ان کے ‘چچا’ نے شادی کے لیے ان کی ماں کا ہاتھ مانگا تھا۔ شریموئی نے ‘اسٹیٹس سنگل: دی ٹرتھ اباؤٹ بینگ سنگل ان انڈیا’ ینعی انڈیا میں ایک سنگل عورت ہونے کی حقیقت کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔

شریموئی کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ نے اپنے شوہر کو دماغی عارضہ کی وجہ سے اس وقت کھو دیا جب وہ کوئی 20 یا 21 سال کی تھیں۔ اس وقت شریموئی صرف تین سال کی بچی تھیں۔

شوہر کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لیے کولکتہ آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک سکول میں پڑھاتی تھیں اور بیٹی کی پرورش کے لیے ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں۔ اسی زمانے میں آندھرا پردیش کا ایک نوجوان بطور پے اینگ گيسٹ جنوبی کولکتہ میں ان کے گھر رہنے آیا۔

شریموئی نے بتایا: ‘قسمت نے ان کی شکل میں ایک نئے باپ کو میرے پاس بھیجا تھا۔ وہیں ان کے لیے یہ پہلی نظر کا پیار تھا۔’

وہ شریموئی کی والدہ سے شادی کے لیے ان کا ہاتھ مانگنے آئے تھے۔ بارہ سال کی عمر میں شریموئی کو اپنی ماں کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔

شریموئی نے بتایا: ‘میری والدہ ان سے زیادہ سے زیادہ دس سال بڑی ہوں گی۔ میں اس وقت چھٹی جماعت میں تھی۔ میں انھیں چچا کہتی تھی۔ میں اپنے حقیقی والد سے بہت ناراض تھی اور غصے میں انھیں خط لکھتی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میرے چچا اور والدہ نے شادی کر لی تو وہ اپنا نیا گھر بسا لیں گے اور پھر وہ دونوں مجھے بھول جائیں گے۔ لیکن میری والدہ اس شادی سے خوش تھیں۔وہ میرے چچا سے بہت پیار کرتی تھیں۔’

شادی

شریموئی کی والدہ کی شادی انتہائی رسمی انداز میں ہوئی تھی۔ شریموئی کو اب بھی یاد ہے کہ اس کی ماں نے سرخ رنگ کی ساڑھی پہنی تھی۔ پہلے وہ شادی کے اندراج کے لیے عدالت گئیں۔ اس کے بعد وہ سب اپنے پسندیدہ چینی ہوٹل گئے اور رات کا کھانا کھایا اور شادی کا جشن منایا۔’

شریموئی کا کہنا ہے کہ ‘ان کی ماں کی پہلی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ یہ وہ شادی تھی جس کا ہر لڑکی خواب دیکھتی ہے۔ یہ ان کی کہانی ہے۔ مجھے اپنی والدہ کی شادی کے بارے میں بہت طعنے سننے پڑے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ میری والدہ کا نیا بوائے فرینڈ کیسا ہے؟ ویسے بھی باپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مجھے ستایا جاتا تھا۔’

ان کا کہنا ہے کہ ‘کسی بھی عورت کے لیے دوسری شادی کر کے اپنی زندگی کا نیا آغاز کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بہت ڈھونگی اور خواتین مخالف ہے۔ یہاں درمیانی حل تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔’

شریموئی کی والدہ کی عمر جب تقریبا 60 سال تھی تو انھوں نے ایک بچہ گود لینے کا فیصلہ کیا۔ اب شریموئی کی ایک چھوٹی بہن بھی ہے، جس کا نام گیرو ہے۔ بہر حال ایسے معاملات شاذ و نادر ہی سنے جاتے ہیں۔

دوسری شادی کی مشکلات

جب بھی دوسری شادی کی بات آتی ہے تو طلاق یافتہ عورت یا بیوہ کے لیے دوسرا ساتھی ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں کے دوران متعدد تنظیمیں طلاق یافتہ خواتین کی مدد کرنے کے لیے سامنے آئی ہیں۔ متعدد ضرورت رشتہ کی ویب سائٹیں دوسری شادی کے بھی آپشن فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ شادی کے ماورا تعلقات اور ڈیٹنگ کی بھی بہت ساری ڈیٹنگ سائٹس سامنے آئی ہیں۔ ان کا کاروبار انڈیا میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔

فرانس میں تیار کیے جانے والے ماورا شادی کے ڈیٹنگ ایپ گلیڈین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران انڈیا میں اس کے صارفین کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

شادی

گلیڈین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے تین مہینوں میں اس کے صارفین کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ گلیڈین کے مطابق پچھلے سال ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں انڈیا میں اس کے صارفین کی تعداد میں جون، جولائی اور اگست کے مقابلے میں تقریبا 246 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

گلیڈن کا کہنا ہے کہ ‘ایکسٹرا میریٹل افیئرز کسی بھی جوڑے کے لیے تھراپی کا کام کر سکتے ہیں۔’

سنہ 2016 کے ہیومن ڈویلپمنٹ سروے آف انڈیا کے مطابق ملک میں بیوہ، شوہر سے علیحدہ رہنے والی اور طلاق یافتہ خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ہر عمر کے گروپس میں ایسی خواتین کی زیادہ تعداد اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انڈیا میں خواتین مردوں کی نسبت دوسری شادی کم کررہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی سنہ 2019 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا میں طلاق کے معاملات گذشتہ دو دہائیوں میں دگنا ہوگئے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق تعلیم یافتہ اور مالی طور پر آزاد خواتین میں طلاق کے معاملات میں اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ سال فروری میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ تعلیم یافتہ اور امیر گھرانوں میں طلاق کے معاملات آج خواتین میں بہت زیادہ گھمنڈ کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ معاشرے میں کنبے کی شناخت اس کی خواتین سے ہی بنتی ہے۔

علیحدگی کے اسباب میں دلچسپی

سنہ 2015 میں میری دو سہیلیاں اپنے شوہروں سے علیحدگی کے دور سے گزر رہی تھیں۔ وہ دونوں تعلیم یافتہ تھیں اور ان کا کریئر بھی بہتر چل رہا تھا۔ ان دونوں نے محبت کی شادی کی تھی۔

میرے ایک دوست کا شوہر اس کے ساتھ بے وفائی کر رہا تھا۔ اسی دوران دوسرے کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نباہ نہیں کر سکتی۔ دونوں جوڑے خوبصورت تھے۔ ہر ایک کہتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ ان کا رشتہ جنموں کا ہے۔

شادی

شادیوں کے بارے میں معاشرے کا ایسا ہی رویہ ہوتا ہے۔ جنت میں بنے جوڑے کو توڑنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ میری یہ دوست اپنے بیڈ روم کے بجائے لونگ روم کے صوفے پر سوتی تھی۔ اس نے وہ گھر نہیں چھوڑا تھا جس میں دونوں شوہر اور بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ رہتے آئے تھے۔

بعد میں شوہر گھر سے چلا گیا۔ اس نے گھر کے فرنیچر کو نئے انداز میں رکھنے کا ارادہ کیا۔ شوہر اور بیوی الگ اس لیے نہیں ہوئے کیونکہ دونوں کے مابین محبت ختم ہوگئی تھی۔ کبھی کبھی صرف محبت کام نہیں کرتی ہے۔ میری دوست تنہا رہنے لگی۔ ہر روز اسے بہت تنہائی محسوس ہوتی اور وہ میرے پاس رونے آتی تھی۔ میں اسے چائے بنا کر دیتی اور تنہا چھوڑ دیتی۔

وہ ایک خوبصورت عورت ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات اہم ہے کہ معاشرہ اکثر ان خواتین کے بارے میں مفروضے قائم کر لیتا ہے جن کو شوہر ‘ترک’ کرگئے ہیں۔

لوگون کو اس کی وجہ جاننے میں بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ لوگ یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ عورت نے دل سے کوشش نہیں کی ہوگی۔

مستقل ساتھی کی ادھوری تلاش

سنہ 2016 میں آخر کار میری دوست گھر کی پہلی منزل پر موجود بیڈروم میں دوبارہ سونے لگی۔ اس نے گھر کو نئے سرے سے سجایا۔ نئے پردے خریدے نئی لیمپ بھی لگائے۔ وہ اپنی چھت پر رکھنے کے لیے نئی کرسیاں لائی۔

اپنے کمرے کو پریوں کی طرح کی روشنیوں سے سجایا۔ بظاہر اس نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے شوہر نے دوبارہ شادی کرلی تھی۔ لیکن انھوں نے کہا کہ انھیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ دوسری شادی کرنا ہے یا نہیں اگر چہ اس کے کچھ لوگوں سے تعلقات رہے تھے۔

اسی دوران جب میری دوسری دوست نے طلاق کے لیے درخواست دی تو اس کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ اس کے اہل خانہ نے کہا کہ شوہر سے سمجھوتہ کرلو۔ انھوں نے کہا کہ تنہا زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔

شادی

طلاق کے بعد اس کے لیے اس طرح کا ایک شخص ڈھونڈنا بہت مشکل تھا جس کے ساتھ وہ اپنی باقی زندگی گزار سکے۔ اس نے ڈیٹنگ سائٹوں کا بھی سہارا لیا۔ لیکن معاملہ کچھ ملاقاتوں یا افیئر سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ مستقل ساتھی کے لیے اس کی تلاش ادھوری ہی رہی۔

اس وقت میری دونوں سہیلیوں کی عمر تیس سال سے زیادہ تھی۔ انھوں نے آج تک شادی نہیں کی ہے۔

سب کہانی ایک جیسی نہیں

جیوتی پربھو نے کہا کہ جب ستر کی دہائی میں وہ نیویارک میں اپنے بھائی سے ملنے گئی تھی تو وہ ایک بہت ہی کم عمر کھلنڈری قسم کی لڑکی تھی، جس کے لیے دنیا کسی عجوبے سے کم نہیں۔ نیویارک ہی میں ان کی ملاقات اپنے مستقبل کے شوہر سے ہوئی۔

وہ کہتی ہیں: ‘شادی کے بعد ہماری دو خوبصورت بیٹیاں ہوئیں، جن کو ہم نے اچھی طرح سے پالا پوسا۔’

لیکن تقریباً تین دہائیوں کی خوشگوار شادی شدہ زندگی کے بعد ان کے شوہر کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ جب وہ فوت ہوئے اس وقت وہ 50-55 سال کے تھے۔

شادی

جیوتی پربھو نے کہا: ‘میں نے بیوہ کی حیثیت سے تقریبا چھ سال گزارے۔ مجھے تنہائی کھانے لگی۔ شام کی تنہائی میرے کانوں میں گونجنے لگی۔ اب تو کتابوں میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔ جب کچھ جاننے والوں نے مجھے ایک ایسے مرد سے ملنے کی رائے دی جس کی بیوی نہیں رہی تھی تو میں راضی ہو گئی۔’

اس وقت جیوتی اپنے پیروں پر کھڑی تھیں۔ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں تھی۔ البتہ انھیں ایک ساتھی کی کمی بہت محسوس ہو رہی تھی۔

جیوتی نے کہا: ‘مجھے رات کے کھانے کے لیے، شو دیکھنے کے لیے، اور شاید سیر و تفریح کے لیے ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ لہذا ہم نے پوری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا۔ ہم اکٹھے ہو گئے۔ ہم بہت مستی کرتے۔ ان کے دونوں بیٹے اور میری دو بیٹیاں بڑی ہو چکی ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے اور الگ رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے پاس اتنا وقت تھا کہ ایک دوسرے پر توجہ دیں۔’

آج بھی تنہا رہنے کا امکان موجود نہیں

معاشی آزادی کی وجہ سے انڈیا میں بھی حالات بدل رہے ہیں، اگرچہ اس کی رفتار بہت سست ہے۔

اس کا ایک پہلو انڈیا میں وراثت کا حق بھی ہے۔ دوسری شادی کا مطلب خاندانی جائیداد کی منتقلی بھی ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے۔

شادی

انڈین قوانین کے مطابق طلاق یا علیحدگی کی صورت میں بیوی کے مالی حقوق انتہائی محدود ہیں۔ وہ اپنے شوہر سے گزربسر کے لیے عدالت کا رخ کر سکتی ہے۔ تاہم انڈیا میں زیادہ تر شادیوں اور طلاق کے معاملات کا فیصلہ تمام مذاہب کے اپنے قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔

اب انڈیا میں ڈیٹنگ کی متعدد سائٹوں پر دوسری شادی کے مواقعے بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔

اگرچہ بہت ساری خواتین معاشی ترقی اور دیگر وجوہات کی بناء پر دوبارہ شادی کا فیصلہ کر رہی ہیں تاہم اکثر کے فیصلوں پر معاشرتی اور خاندانی دباؤ پائے جاتے ہیں۔ میٹریمونیل ویب سائٹس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کے استعمال کرنے والوں میں تقریباً 70 فیصد مرد ہیں۔

لیکن ان تمام ‘خوشخبریوں’ کے درمیان یہ بھی واضح ہے کہ خوشی کے لیے شادی ضروری ہے جیسے مفروضے کو تقریباً تسلیم کر لیا گیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں ‘مثالی جوڑے’ کا فقرہ رائج الوقت ہے وہاں اب بھی کسی عورت کے لیے تنہا زندگی بسر کرنے کا راستہ اختیار کرنا بہت مشکل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *