جنگ یوکرین روس چین کو سب سے زیادہ تیل سپلائی

جنگ یوکرین روس چین کو سب سے زیادہ تیل سپلائی

جنگ یوکرین روس چین کو سب سے زیادہ تیل سپلائی کرنے والا ملک بن گیا

جنگ یوکرین کے نتیجے میں روس پر لگنے والی بین الاقوامی پابندیوں کے بعد سے روس، چین کو سستے داموں سب سے زیادہ خام تیل بیچنے والا ملک بن گیا ہے۔

گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس مئی تک روس سے خام تیل کی چینی درآمدات میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس طرح سعودی عرب کی بجائے روس، چین کو آئل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔

کووِڈ کی پابندیوں اور معیشت میں سست روی کے نتیجے مانگ کم ہونے کے باوجود چین نے روسی تیل کی خریداری میں اضافہ کیا ہے۔

فروری میں چین اور روس نے اعلان کیا تھا کہ ان کی دوستی کی ’کوئی حد نہیں‘ ہے۔

چینی کمپنیوں نے، جن میں سائنوپیک اور ژینوا آئل بھی شامل ہیں، حالیہ مہینوں کے دوران بھاری مقدار میں رعایتی نرخوں پر روسی تیل خریدا ہے کیونکہ یوکرین پر حملے کی وجہ سے امریکہ اور یورپ نے روس سے توانائی کے حصول پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

چینی جنرل ایڈمنِسٹریشن آف کسٹمز کے ڈیٹا کے مطابق گزشتہ ماہ 8.42 ملین ٹن تیل برآمد کیا گیا تھا۔

اس کے مقابلے میں چین نے سعودی عرب سے 7.82 ملین ٹن خام تیل خریدا۔ یوں سعودی عرب جو چین کو سب سے زیادہ تیل برآمد کرتا تھا دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔

مغرب یوکرین پر روسی حملے کا جواب معاشی میدان میں دے رہا ہے۔ مارچ میں امریکہ اور برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ روسی آئل پر پابندی عائد کر دیں گے، جبکہ یورپ کا کہنا تھا کہ وہ روسی گیس پر انحصار کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔

بی بی سی کی گلوبل ٹریڈ کارسپانڈینٹ، دھارشینی کا کہنا ہے کہ صرف چین نے ہی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے بلکہ انڈیا نے بھی روسی تیل کی خرید میں اضافہ کر دیا ہے۔

روسی تیل کی مانگ میں اضافے سے روس کی آمدنی زیادہ متاثر نہیں ہوئی ہے جس کا خدشہ یوکرین پر حملے کے بعد پیدا ہو گیا تھا۔

البتہ ان کا کہنا ہے کہ ’تیل سے ہونے والی یہ آمدنی اب کم ہونے لگی ہے، اور یورپی اقوام کے توانائی کے متبادل ذرائع اپنانے کے بعد اس میں زیادہ تیز کمی واقع ہوگی۔

روسی آئل پر پابندیوں کے بارے میں امریکی صدر جو بائڈن کا کہنا تھا کہ ’اس اقدام کا مقصد روسی معیشت کی شہہ رگ‘ کو نشانہ بنانا تھا۔

انرجی ایکسپورٹ روسی آمدن کا بنیادی ذریعہ ہیں مگر پابندیوں کا اثر مغربی صارفین پر بھی پڑ رہا ہے۔

سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر نامی تھِنک ٹینک نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یوکرین پر حملے کے 100 دنوں کے اندر خام تیل کی برآمدات سے روس کو تقریباً 100 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی، حالانکہ مئی میں اس کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی تھی۔

اس میں سے یورپی یونین کی درآمدات 61 فیصد رہی جس کی مالیت 59 بلین ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔

تاہم روس کو تیل اور گیس کی برآمد سے ہونے والی مجموعی آمدنی میں کمی واقع ہو رہی ہے جو مارچ میں اپنے عروج کے وقت ایک بلین ڈالر یومیہ سے زیادہ تھی۔

مگر جنگ کے یوکرین کے ابتدائی 100 دنوں کے اخراجات روسی کی آمدن سے کہیں زیادہ ہیں، جو سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر کے اندازے کے مطابق 876 ملین ڈالر یومیہ رہے ہیں۔

پیر کے اعداد و شمار سے لگتا ہے کہ چین نے گزشتہ ماہ ایران سے بھی 260,000 ٹن خام تیل درآمد کیا۔ دسمبر کے بعد سے یہ اس کی تیسری شپمنٹ تھی۔

تہران پر امریکی پابندیوں کے باوجود چین ایرانی تیل خریدتا رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *