جنوبی کوریا میں ہیلووین پر اموات

جنوبی کوریا میں ہیلووین پر اموات

جنوبی کوریا میں ہیلووین پر اموات ’لوگوں کا دم گھٹ رہا تھا اور وہ چیخ رہے تھے

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں ہیلووین کے موقع پر بھیڑ میں کچلے جانے اور دم گھٹنے سے ہونے والی ہلاکتوں کے واقعے میں زندہ بچ جانے والے افراد نے وہ وحشت ناک مناظر بتائے ہیں، جب انھوں نے اپنے دوستوں اور دوسرے لوگوں کا گلیوں میں دم گھٹتے دیکھا۔

جنوبی کوریا کے دارالحکومت کے ضلع ایٹاون میں ہجوم کے باعث کم از کم 153 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

نوحیل احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ ایک دوسرے کو پیچھے سے دھکیلنے لگے، یہ ایک لہر کی طرح تھا، آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔‘

’میں کل رات سو نہیں سکا۔ میں اب بھی لوگوں کو اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں۔‘

اتوار کی سہ پہر کو بی بی سی سے بات کرنے والے 32 سال کے نوجوان نے کہا کہ وہ بھیڑ میں پھنس گئے تھے اور کوئی بھی دوسروں کو یا خود کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

اس واقعے کی پریشان کن ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیل چکی ہیں۔ احمد نے خود انسٹاگرام پر اپنا تکلیف دہ تجربہ شیئر کیا۔

فوٹیج میں لوگوں کو دکھایا گیا ہے، زیادہ تر نوعمر یا 20 کی دہائی میں، ایک تنگ، ڈھلوان گلی میں ایسے بند تھے کہ وہ ہل نہیں سکتے تھے۔ پھر انھیں ہر طرف سے دھکے لگنے لگے، کچھ فرش پر گرنے لگے، دوسرے سانس نہیں لے سکتے تھے۔

جنوبی کوریا

ایٹاون اپنی نائٹ لائف کی وجہ سے سیئول کا سب سے مشہور علاقہ ہے۔ مقامی اور غیر ملکی ہر ہفتے کے آخر میں وہاں آتے ہیں لیکن ہیلووین سال کی مصروف ترین راتوں میں سے ایک ہے۔ یہ علاقہ کووڈ کے بعد ماسک کے بغیر پہلی تقریبات کی میزبانی کر رہا تھا، جب یہ سانحہ ہوا۔

سنیچر کے روز ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ  لوگ وہاں جشن منانے آئے تھے۔ کووڈ کے بعد پہلی بار اجتماع کے لیے تعداد کی حد نہیں تھی اور لوگوں کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں تھی۔

لیکن جنوبی کوریا کے وزیر داخلہ لی سانگ من نے کہا کہ حکام کو ایٹاون کی تنگ گلیوں میں اتنے ہجوم کا اندازہ نہیں تھا۔

’ایٹاون میں ہجوم کا متوقع حجم  پچھلے برسوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوا، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اہلکاروں کو پہلے کی طرح اسی پیمانے پر تعینات کیا گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ درحقیقت سنیچر کی شام بہت سے افسران کو دارالحکومت میں کہیں اور تعینات کیا گیا تھا۔

اس حادثے میں کم از کم 82 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ لی نے کہا کہ کچھ متاثرین کی شناخت نہیں ہوئی کیونکہ وہ 17 سال سے کم عمر تھے یا ان کے پاس بالغ کی حیثیت سے شناخت نہیں تھی۔

ملک کے صدر نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔

جنوبی کوریا

احمد اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں موجود تھے اور انھوں نے کہا کہ یہ گلی پارٹی کے لیے جانے والوں کے لیے ہینگ آؤٹ کا ایک مقبول علاقہ تھا۔

لیکن جیسے ہی وہ بھیڑ میں پھنسے انھیں پتا چل گیا کہ کچھ غلط ہے۔

’اگر آپ ساکن کھڑے بھی ہوں تو کوئی آپ کو آگے سے دھکیلتا اور کوئی پیچھے سے۔ ایسا کئی بار ہوا، مجھے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ مجھے ڈر لگا کہ کچھ ہونے والا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ گر گئے لیکن وہ پیروں کے بل گلی کے کنارے پر جانے میں کامیاب ہو گئے۔

’فرشتے کے پروں والا لباس پہنے ایک عورت نے مجھے اشارہ کیا اور میں ایک اونچی سیڑھی پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔‘

’لوگوں کا دم گھٹ رہا تھا، وہ چیخ رہے تھے۔۔۔ وہ دب رہے تھے۔۔۔ گر رہے تھے۔۔۔ بہت سارے لوگ تھے۔ میں سیڑھی پر تھا، بس سب کچھ ہوتا دیکھ رہا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ اس وقت وہ خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے جب انھوں نے لوگوں کو ممکنہ طور پر آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھا۔ انھیں اپنے دوستوں کی فکر تھی اور انھوں نے انھیں فون کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں جواب نہیں ملا۔ انھیں گھنٹوں بعد پتا چلے گا کہ وہ بھیڑ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

احمد کو پوری طرح سے سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا جب تک کہ ہجوم منتشر ہو گیا اور ایمبولینس پہنچ گئیں۔

وہ بتاتے ہیں ’ایک آدمی، وہ جانتا تھا کہ اس کا دوست مر گیا ہے لیکن وہ اسے 30 منٹ تک سی پی آر  دیتا رہا۔‘

احمد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک اور دوست نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن نوجوان باز نہیں آیا۔‘ انھوں نے مزید بتایا کچھ لوگ ابھی بھی میک اپ کر رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

آہستہ آہستہ سانحے کی اصل صورتحال سامنے آنے لگی۔ ایمبولینسز ان زخمیوں سے بھری ہوئی تھیں جنھیں ہسپتال لے جانے کی ضرورت تھی، ایک گھنٹے تک مرنے والوں کی لاشیں  وہیں پڑی رہیں۔

جنوبی کوریا

رات گئے کئی لاشیں، کچھ ہیلووین کے ملبوسات میں، نیلے کمبل میں ڈھکی سڑک کے ساتھ قطار میں پڑی تھیں۔ کئی دوسروں کو ایمبولینسوں میں بے جان حالت میں لے جایا گیا۔ عام لوگوں نے سینکڑوں ہنگامی کارکنوں کے ساتھ مل کر بے ہوش پڑے ہوئے لوگوں کو سی پی آر دیا۔

اتوار کی صبح، لاپتہ افراد کے رشتہ دار اور دوست جائے وقوعہ پر پہنچے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ آیا ان کے پیارے وہاں موجود ہیں لیکن لاشوں کو گلی سے ایک جمنازیم میں منتقل کر دیا گیا تھا تاکہ خاندان کے افراد ان کی شناخت کر سکیں۔

کمیونٹی سینٹر میں اتوار کے دن غم  کا راج رہا۔ لواحقین یہ جاننے کے لیے پہنچ رہے تھے کہ آیا ان کا عزیز ہلاک ہونے والوں میں شامل ہے۔ کچھ ٹوٹ گئے جب انھیں بتایا گیا کہ ابھی تک کوئی اطلاع نہیں۔ دوسروں کو باہر لے جایا گیا کیونکہ وہ بہت دل شکستہ اور کمزور تھے۔

ایک خاتون جو اپنے 22 سالہ بیٹے کی تلاش میں تھیں، اتنی پریشان تھیں کہ وہ بمشکل بات کر سکتی تھیں۔  انھوں نے کہا کہ وہ کل رات ایٹاون کے ایک نائٹ کلب میں کام پر گیا تھا اور اس کے بعد سے اس نے ان سے کوئی رابطہ نہیں۔

اس وقت جنوبی کوریا اپنے بہت سے نوجوانوں کی موت پر غمزدہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *