جنرل عاصم منیر کا دورہ سعودی عرب پاکستان

جنرل عاصم منیر کا دورہ سعودی عرب پاکستان

جنرل عاصم منیر کا دورہ سعودی عرب پاکستان کے فوجی سربراہان عہدہ سنبھالتے ہی سعودی عرب کیوں جاتے ہیں؟

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر عہدہ سنبھالنے کے قریب پانچ ہفتوں بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں اور ان کی سعودی وزیرِ دفاع شہزادہ خالد بن سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔

یہ دورہ 10 جنوری تک جاری رہے گا جس کے بارے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ’برادر ملک کی سینیئر قیادت سے ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے امور، فوجی تعاون اور دو طرفہ امور پر بات ہو گی۔‘

سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق سعودی وزیر دفاع نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ اس ملاقات میں سعودی عرب کے چیف آف جنرل سٹاف لفٹیننٹ جنرل فياض بن حامد الرويلی بھی شریک تھے۔

عاصم منیر کوئی پہلے آرمی چیف نہیں جو منصب سنبھالتے ہی سعودی عرب پہنچے ہوں تاہم سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کا ہر آرمی چیف منصب سنبھالتے ہی سعودی عرب کا دورہ کرتا ہے؟

اس کا جواب جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ نے کچھ یوں دیا: ’جنرل عاصم منیر کا دورہ سعودی عرب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں ایک اہم شعبہ دفاع کا ہے۔‘

یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ آیا پاکستانی آرمی چیفس کا سعودی عرب جانا کسی دفاعی، معاشی یا سفارتی پالیسی کا حصہ ہے؟

سابق سفارت کار آصف درانی کی رائے ہے کہ ’یہ ایک روایت ہے جو چلی آرہی ہے۔ اسے آپ ملٹری ڈپلومیسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ سعودی عرب سے تعلقات صرف سیاسی نہیں بلکہ عسکری بھی ہیں۔ اب دوسرا دورہ چین کا آئے گا۔ تو اس قسم کی روایت جاری رہے گی۔‘

زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب جانے کے پیچھے اور بہت سی وجوہات بھی شامل ہیں جس کی بنا پر پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات اچھے رکھنا چاہتا ہے۔

سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سعودی عرب کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو پاکستان میں سرمایہ لگانے کے ساتھ ساتھ اس کی معاشی مدد بھی کرتے رہتے ہیں جبکہ پاکستان اپنے ملک اور خطے میں یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کے لیے سعودی عرب اور اس کی پالیسی اہم ہے۔

قمر جاوید باجوہ

’فوج کے دوروں کا معیشت پر اثر پڑتا ہے‘

23 نومبر 2022 کو اپنے الوداعی خطاب میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے معاشی معاملات سلجھانے میں سیاستدانوں کی مدد گنواتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم نے انھیں قطر سے تب گیس دلوائی جب دنیا بھر میں گیس کا بحران پیدا ہو چکا تھا۔ اسی طرح خلیجی ممالک سے متعدد ملاقاتوں میں ہم پاکستان کی معاشی مدد کو فعال رکھنے کی بات کرتے رہے ہیں۔‘

اس معاشی مدد میں سعودی عرب سرِ فہرست رہا ہے۔ دسمبر 2022 میں سعودی عرب کے وزیرِ خزانہ محمد الجدان نے ریاض میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کی معاشی مدد کرتا رہے گا۔

انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو کووڈ 19 کے بعد ہونے والی مہنگائی سے بہت متاثر ہوئے ہیں اور ’ہم پاکستان کی جتنی مدد کرسکیں گے، کریں گے۔‘

واضح رہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تین ارب ڈالر کے معاہدے میں مزید توسیع کی ہے جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کچھ حد تک مضبوط ہو جائیں گے۔

پاکستان میں ہونے والے متعدد اہم اجلاس، جن میں قومی سلامتی کمیٹی کا حالیہ اجلاس سرِفہرست ہے، میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے ’باہمی مفاد پر مبنی دیگر اقتصادی ذرائع کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو ریلیف دینے جیسے اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔‘

چار جنوری کو پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’جنوری کے آخر تک سعودی عرب اور چین کی مدد سے زرمبادلہ کے ذخائر میں معنی خیز فرق نظر آئے گا۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں موجود وزارتِ خزانہ کے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’تمام تر اختلافات اپنی جگہ لیکن فوج کی جانب سے ہونے والے ان دوروں کا معیشت پر اثر پڑتا ہے کیونکہ ان کے جانے سے ہمارے لیے راہ استوار ہوجاتی ہے۔‘

باجوہ، محمد بن سلمان، سعودی عرب

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عسکری تعلقات کی تاریخ

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عسکری تعلقات کی تاریخ پرانی ہے۔ سعودی بادشاہ شاہ فیصل کے دور سے دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعلقات قائم ہیں، جس کے دوران پاکستان نے نہ صرف سعودی عرب کی فوج کی تربیت کی بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اسلحہ فراہم کرنے پر بھی معاہدے طے ہوئے ہیں۔

اگر ماضی قریب کی بات کریں تو جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کی مثال بھی ملتی ہے، جنھوں نے اسی طرز پر سعودی عرب سے فوج کے تعلقات مضبوط رکھنے کے لیے منصب پر آتے ہی سعودی عرب کا دورہ کیا۔

سابق سکریٹری دفاع آصف یاسین کے مطابق ’جنرل کیانی اور جنرل راحیل کے دور میں بے شک فوج کی یکساں پالیسی رہی ہو لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے خاصے کھلے الفاظ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان محمد بن سلمان اور شیخ محمد بن زید النہیان سے ذاتی تعلقات ہونے کا دعویٰ کیا۔

’انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان کو معاشی ریلیف ملنا ان کی کامیابی ہے۔‘

آصف یاسین کے بقول ’جنرل راحیل اور جنرل کیانی نے اپنے تعلقات موجودہ مسائل سے ہٹ کر نہیں رکھے اور منصب پر رہتے ہوئے صرف حفاظتی امور کو زیرِ بحث رکھا۔‘

یاد رہے کہ نومبر 2016 میں ریٹائر ہونے کے بعد اپریل 2017 میں جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کے زیرِ قیادت اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کا سربراہ مقرر کردیا گیا تھا۔

یہ اتحاد 41 اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد پر مبنی ہے جس کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب میں ہے۔

سعودی عرب، راحیل
راحیل شریف کو اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا

’اسٹیبلشمنٹ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اس کا خلیجی ممالک کی پالیسی میں اہم کردار ہے‘

ان تعلقات کے بارے میں سابق سکریٹری دفاع آصف یاسین ملک نے بتایا کہ پاکستان کے سعودی عرب کے علاوہ دیگر خلیجی ممالک سے بھی اچھے تعلقات رہے ہیں ’لیکن بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ گھر اور گھر سے باہر مشرقِ وسطیٰ میں یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اس کا خلیجی ممالک کی پالیسی بنانے یا اسے چلانے میں اہم کردار ہے۔

’اور ہر نئے آنے والے آرمی چیف کا سعودی عرب کا دورہ اس دعوے کی ساکھ بنائے رکھتا ہے۔‘

آصف یاسین نے کہا کہ ’یہ ممالک خاص طور سے سعودی عرب چاہتے ہیں کہ ان سے عسکری قیادت کے سربراہان بات کریں اور ان سے بات چیت کا تسلسل برقرار رہے۔‘

’حالانکہ پاکستان میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو اس روایت کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے سیاستدانوں کا اعتماد نہیں بن پاتا اور یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اصل حکومت کس کی ہے۔‘

آصف یاسین ملک نے کہا کہ ’خلیجی ممالک خاص طور سے سعودی عرب اپنے خارجی اور معاشی معاملات دیکھتے ہوئے کسی ملک سے مزید تعلقات استوار کرتے ہیں اور ان کے پاس پاکستان کے علاوہ بھی آپشن موجود ہیں۔

’جبکہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے لیے خود کو خطے میں مضبوط بنانے کے لیے سعودی عرب سے عسکری اور معاشی تعلق برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *