جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز کا سعودی ولی

جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز کا سعودی ولی

جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز کا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ’بلا تاخیر‘ سزا دینے کا مطالبہ

مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کو ’بلا تاخیر‘ سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

خدیجہ چنگیز کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس سے نہ صرف ہمیں وہ انصاف ملے گا جس کے ہم منتظر ہیں، بلکہ اس سے بار بار ہونے والی ایسی ہی دوسری کارروائیوں کو بھی روکا جاسکتا ہے۔‘

جمال خشقجی کی منگیتر کا یہ بیان امریکی انٹلیجنس رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔

سعودی عرب نے امریکی انٹیلیجنس رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی نژاد امریکی صحافی اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے جمال خاشقجی کو سنہ 2018 میں استنبول کے سعودی سفارت خانہ میں بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، سعودی عرب کے سفارت خانے کی عمارت کے اندر سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں ہونے والے اس قتل میں ملوث ہونے کے تمام الزامات سے انکار کرتے آئے ہیں۔

سعودی حکام نے سعودی صحافی کے قتل کے واقعے کو ’سرکش آپریشن‘ قرار دیا اور سعودی عرب کی ایک عدالت نے اس قتل کے جرم میں پانچ اہلکاروں کو موت کی سزا سنائی تھی لیکن گذشتہ سال ستمبر میں ان کی سزا میں کمی کر کے اس کو 20 سال قید میں بدل دیا گیا۔

پیر کو جاری کیے بیان میں خدیجہ چنگیز نے کہا ’یہ ضروری ہے کہ ولی عہد، جس نے ایک بے قصور اور بے گناہ شخص کے بہیمانہ قتل کا حکم دیا تھا، کو بلا تاخیر سزا دی جائے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’اگر ولی عہد شہزادے کو سزا نہیں دی گئی تو وہ ہمیشہ کے لیے ہم سب کو خطرے میں ڈالے گا اور انسانیت پر بدنما دھبہ بن کر رہے گا۔‘

ترکی سے تعلق رکھنے والی محقق خدیجہ چنگیز نے عالمی رہنماؤں سے التجا کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ولی عہد شہزادے سے دور کر لیں اور سعودی عرب پر سخت پابندیاں عائد کریں۔

بائیڈن انتظامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ضروری ہے کہ تمام عالمی رہنما اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا وہ (شہزادہ محمد بن سلمان) سے مصافحہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟‘

’میں سب سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر ولی عہد شہزادے کو سزا دینے کی مہم چلائیں۔‘

یاد رہے اس رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان سے فون پر رابطہ کیا تھا جس میں انھوں نے امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق اور قوانین کی پاسداری کی ’اہمیت پر زور‘ دیا تھا۔

صدر بائیڈن کی فون کال ایک ایسے وقت میں کی گئی تھی جب بظاہر امریکہ سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو ایک نئی سمت میں لے جانے کے متقاضی تھے۔

امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات پر مبنی خفیہ رپورٹ کو جاری کرنے کی تیاریاں کر رہی تھی جس میں قتل کا الزام سعودی ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان پر عائد کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ جو بائیڈن سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر تھے جنھوں نے سعودی عرب سے بہت قریبی تعلقات قائم کیے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے رپورٹ شائع کرنے کی قانونی ذمہ داری کو مسترد کر دیا اور ساری توجہ سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے پر رکھی۔

لیکن توقع ہے کہ صدر جو بائیڈن سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں پہلے جیسی گرمجوشی نہ دکھائیں۔

صدر بائیڈن نے فون کال میں کیا کہا تھا؟

فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں جمال خاشقجی کا نام سے ذکر نہیں تھا البتہ اس میں کہا گیا: ‘صدر بائیڈن نے سعودی عرب کی جانب سے سعودی نژاد امریکی کارکنوں اور بالخصوص انسانی حقوق کی کارکن لجین الھذول کی رہائی کو سراہا ہے اور امریکہ کی جانب سے عالمی انسانی حقوق اور قوانین کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیا ہے۔’

واضح رہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سعودی کارکن لجین الھذول کو رواں ماہ سعودی عرب نے تین سال قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا ہے تاہم ان پر ابھی بھی سفری پابندیاں ہیں اور ساتھ ساتھ انھیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔

دوران فون کال امریکی صدر اور سعودی بادشاہ نے ‘دونوں ممالک کی طویل شراکت‘ اور ایران حامی گروہوں سے متوقع خدشات کے بارے میں بات چیت کی تھی۔

وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ’صدر بائیڈن نے شاہ سلمان کو بتایا کہ وہ باہمی تعلقات کو مضبوط اور شفاف بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ دونوں رہنماؤں نے امریکہ اور سعودی عرب کے تاریخی رشتے پر بات کی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ مشترکہ معاملات مل کر کام کریں گے۔‘

بائیڈن

’حساس وقت میں ایک اہم کال‘

بی بی سی کی نمائندہ برائے امریکی وزارت خارجہ باربرا پلٹ نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی صدر بائیڈن نے اپنا منصب سنبھانے کے بعد سے ابھی حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں سے تعارفی فون کالز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ ان کی ٹیلیفونک گفتگو اہم تھی، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کے سعودی عرب کے ساتھ ’گرم جوش تعلقات‘ کے بعد انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ’دوبارہ جائزہ‘ لینے پر زور دیا ہے۔

مگر اس جائزے کا ایک ایسے وقت پر کیا جانا جب جمال خاشقجی کی ہلاکت کے انٹیلیجنس جائزے کو شائع کیا جا رہا تھا، صدر بائیڈن کو مشکل میں ڈالتا ہے۔

اس رپورٹ میں محمد بن سلمان کا نام آنے کے بعد سعودی امریکی تعلقات میں تناؤ بڑھ نے کا خدشہ ہے۔ صدر بائیڈن پر دباؤ ہے کہ وہ محمد بن سلمان اور دیگر سینیئر حکام یا کمپنیوں کے خلاف پابندیاں عائد کریں۔

مگر دوسری جانب ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک دن سعودی عرب کا بادشاہ بھی بننا ہے۔

اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وائٹ ہاؤس شاید ایک زیادہ باریکی کے ساتھ ردعمل ظاہر کرے، کچھ معاملات پر اپنے خدشات کا اظہار کرے اور احتساب کا امکان باقی چھوڑے اور دیگر معاملات میں ریاض کے ساتھ تعاون جاری رکھے۔

شاہ سلمان

جمال خاشقجی کو کیسے قتل کیا گیا؟

59 سالہ صحافی جمال خاشقجی کو آخری مرتبہ دو اکتوبر سنہ کو 2018 ترکی کے شہر استنبول کے سعودی سفارت خانے میں جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

سعودی عرب کے حکام کے مطابق جمال خاشقجی پر قابو پانے کے لیے انھیں ایک انجیکشن لگایا گیا اور جسمانی کشمکش کے دوران انھیں انجیکشن کی ضرورت سے زیادہ مقدار لگ گئی جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔

جس کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے کچھ مقامی مددگاروں کے حوالے کر دی گئی۔ ان کی لاش کا اس کے بعد سے کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

ترکی کے خفیہ اداروں کی طرف سے جاری کردہ معلومات جن میں کچھ آڈیو مواد بھی شامل ہے، دل دہلانے دینے والی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

خاشقجی ماضی میں سعودی عرب کی حکومت کے مشیر کے طور پر بھی کام کر چکے تھے لیکن بعد میں سعودی حکمران خاندان کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور وہ ملک چھوڑ کر سنہ 2017 میں امریکہ چلے گئے۔

امریکہ میں انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے محمد بن سلمان کی پالیسی پر تنقیدی کالم لکھنے شروع کر دیے۔

اپنے پہلے ہی کالم میں انھوں نے لکھا تھا کہ انھیں سعودی عرب میں گرفتاری کا خوف تھا کیوں کہ محمد بن سلمان اپنے تمام مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے آخری کالم میں یمن پر سعودی عرب کے حملے پر شدید تنقید کی تھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *