جب ایک ٹیچر اپنے سٹوڈنٹس سے پہلی بار ملنے

جب ایک ٹیچر اپنے سٹوڈنٹس سے پہلی بار ملنے

جب ایک ٹیچر اپنے سٹوڈنٹس سے پہلی بار ملنے اسلام آباد سے وزیرستان پہنچیں

شمالی وزیرستان کے سرحدی قصبے دیواگر کے واحد سکول میں آج خاص دن ہے۔ یہاں صبح سے وہ خبر پھیل گئی ہے جو چند روز سے خفیہ رکھی گئی تھی۔ بچوں کو بس یہ کہا گیا تھا کہ وہ صاف کپڑے پہن کر آئیں اور ’چھٹی نہیں کرنی۔‘

ان میں سے کچھ کے والدین کو بھی آج سکول بلایا گیا۔ بچوں میں کھسرپھسر جاری ہے کہ کچھ ہونے والا ہے لیکن ان میں سے زیادہ کا دھیان کیرم بورڈ اور لڈو پر ہے اور بڑے لڑکے فٹبال میچ کا انتظار بھی کر رہے ہیں۔ کچھ بچے ان اردو کارٹونز کے انتظار میں ہیں جن کا وعدہ ان کی ٹیچر نے کر رکھا ہے۔

دوسری طرف اسلام آباد کی رہائشی سیما ماہین جبران کے لیے بھی یہ دن اہم ہے۔ وہ ایک دن پہلے پشاور پہنچی ہیں۔ صبح سویرے انھوں نے اپنے لیپ ٹاپ کی بیٹری چیک کی، کچھ کتابیں بیگ میں رکھیں اور دیگر سامان پیک کیا۔ یہ ان کے لیے ناقابلِ یقین لمحات ہیں، وہ پریشان ہیں اور بے چین بھی۔

دیواگر شمالی وزیرستان کا سرحدی قصبہ ہے جو افغان صوبے خوست کی حدود سے محض ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں دور دور پھیلے دیہات ہیں اور مقامی آبادی چند ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کی سب سے بلند عمارت ایک دو منزلہ سکول کی ہے جو دور سے دکھائی دیتی ہے۔ سامنے افغانستان کے ساتھ سرحدی باڑ ہے جہاں فوجی اہلکاروں کا پہرہ ہے۔ چاروں طرف سرسبز پہاڑ ہیں اور کہیں کہیں کرومائیٹ کے ڈھیر نظر آتے ہیں جو اب یہاں ایک نیا کاروبار ہے۔ یہاں بجلی ہے نہ ہی موبائل فون کام کرتے ہیں۔

سیما ماہین جبران ہمیں پشاور کینٹ کے ہیلی پیڈ پر ملیں اور ہماری منزل وہ دو منزلہ سکول ہے جہاں اس قصبے کے تین سو بچے زیرتعلیم ہیں۔ سیما آج پہلی بار ان بچوں سے ملیں گی جنھیں وہ ہر روز ریاضی اور انگریزی پڑھاتی ہیں۔

یہ سکول سنہ 2017 میں یہاں تعینات پاکستانی فوج نے اس وقت تعمیر کیا تھا جب اہل علاقہ نے ان سے مطالبہ کیا کہ علاقے میں لڑکوں کا سکول نہیں، اس لیے انھیں ایک سکول بنا کر دیا جائے۔ فوج نے یہاں بچوں کی مفت تعلیم، کتابوں اور یونیفارم کا بھی انتظام کیا۔

سکول تو بن گیا لیکن اگلے تین سال یہ سکول اس لیے فعال نہ ہوسکا کیونکہ یہاں اساتذہ دستیاب نہیں تھے۔

’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی ماں پہلی بار اپنے بچوں سے ملتی ہے‘

سیما ماہین
سیما ماہین نے والدین کو اپنی بچیوں کو بھی پڑھانے کی تلقین کی

دیواگر کا یہ سکول بند تھا تو دوسری طرف سیما ماہین اسلام آباد کی ایک اکیڈمی میں انگریزی زبان پڑھا رہی تھیں کہ دنیا کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عالمی وبا کے دوران انھوں نے طلبا کو آن لائن کورسز پڑھانے شروع کر دیے۔

ان کے سٹوڈنٹس میں سے ایک کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا جن کے ذریعے انھیں دیواگر کے اس سکول کے بارے میں پتا چلا جو اساتذہ نہ ہونے کے باعث بند تھا۔

’وہاں اور کوئی سکول نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر آن لائن پڑھانے کی سہولت مل جائے تو کیوں نہ ان بچوں کو بھی پڑھایا جائے۔‘

رابطوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ آج یہاں سولر پینل نصب ہیں جن کے ذریعے دن میں دو گھنٹے کے لیے ٹی وی سکرین چلتی ہے جبکہ قریب موجود فوجی یونٹ سے انٹرنیٹ لیا جاتا ہے تاکہ سیما اسلام آباد میں اپنے گھر سے ساڑھے چار سو کلومیٹر دور پہاڑوں کے بیچ اس سکول میں 300 بچوں کو ہر روز ریاضی اور انگلش پڑھا سکیں۔

آج سیما ماہین ان بچوں سے پہلی بار ذاتی طور پر ملیں گی جنھیں وہ کئی مہینوں سے پڑھا رہی ہیں۔ سکول پہنچنے پر بچے ایک قطار میں ان کے منتظر تھے۔ یہ ان کے لیے ایک عجیب منظر تھا کہ دور شہر سے انھیں ایک ٹیچر ملنے آئی ہیں جو خاتون ہیں۔

’آج مجھے ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے جیسا ایک ماں اپنے بچوں سے مل کر محسوس کرتی ہے۔ جیسے وہ ان کے لیے سوچتی اور فکر مند ہوتی ہے۔‘

سیما ماہین
سیما ماہین بچوں کو اسلام آباد سے آن لائن پڑھاتی ہیں

بچوں نے انھیں انگریزی اور پھر پشتو میں خوش آمدید کہا۔ سیما نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ انھیں پہچانتے ہیں، ’میں آپ کی ڈیجیٹل لرننگ کی ٹیچر ہوں‘، وہ بچوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے انھیں بتا رہی تھیں۔ سب بچے ان کے گرد جمع تھے اور پھر وہ دیواروں پر لگے ان رنگوں کی بات کرنے میں مگن ہو گئیں جن کے انگریزی نام وہ آج کل بچوں کو سکھا رہی ہیں۔

’شروع میں ان بچوں کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں ایک اصل انسان ہوں جو رئیل ٹائم میں انھیں پڑھا رہی ہوں۔ بچوں کا خیال تھا کہ یہ ایک ویڈیو ہے جو سکرین پر چل رہی ہے۔ یہ بہت شور کرتے، شرارتیں کرتے۔ مجھ سے سلام کرتے تو میں جواب دیتی۔ میرے جواب پر یہ ہنستے رہتے تھے۔ پھر یہ سکرین کے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے اور مذاق اڑاتے کہ دیکھو یہ لڑکی کہہ رہی ہے کہ یہ ہمیں سن سکتی ہے۔ یہ سکرین پر ہاتھ لگاتے اور مجھ سے پوچھتے کہ بتائیں ہم کیا کر رہے ہیں۔ میں انھیں کہتی کہ میں آپ کو دیکھ سکتی ہوں۔ آپ نے تین انگلیاں سکرین پر رکھی ہیں۔ یا آپ نے بھورے رنگ کی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ مجھے کافی وقت لگا ان بچوں کو سمجھانے میں کہ میں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں جو انھیں ہر روز پڑھاتی ہے۔

’میرے خیال میں آج ان بچوں کو یقین آ گیا ہے کہ میں اصل میں انسان ہوں۔‘

اپنے پہلے ٹیچرز کی یاد ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ ہمارے ذہن میں ان کے چہرے دھندلا سکتے ہیں مگر ان کی جھلک موجود رہتی ہے۔ دیواگر سکول کے ان بچوں کو بھی یہ دن یاد رہے گا۔ ان کے چہروں پر خوشی اور آنکھوں میں امید واضح تھی۔ آج انھوں نے پہلی بار اپنی ٹیچر، جنھیں وہ ’مسز جبران ڈیجیٹل لرننگ میڈم‘ کے نام سے جانتے ہیں، کے ہمراہ ایک کلاس روم میں پڑھنا ہے۔

’یہاں لڑکیوں کا کوئی سکول نہیں‘

سکول کی عمارت
مقامی لوگوں کے مطالبے پر یہ سکول فوج نے سنہ 2017 میں تعمیر کیا تھا

’آپ اپنی دادی کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟‘

’گرینڈ مدر‘

’شاباش‘

آٹھ کمروں کے اس سکول میں، ایک میں سے آج ایک خاتون ٹیچر کی آواز آنا یہاں مقامی لوگوں کے لیے بھی ایک انوکھا تجربہ ہے۔ یہاں لڑکیوں کا کوئی سکول نہیں، اس لیے بچیوں کی تعلیم صفر ہے۔ لڑکوں کے لیے بھی اس وقت یہ ایک سکول ہی فعال ہے۔

خیال رہے کہ سابق فاٹا کے علاقوں میں تعلیم کی صورتحال ابتر ہے۔ یہاں سکولوں اور اساتذہ سے متعلق گزشتہ دو سال کے اعدادوشمار کی تفصیلات کے خانے خالی ہیں تاہم 2018 کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہاں سکولوں میں رجسٹرڈ طالب علموں کی تعداد تقریباً سات لاکھ ہے۔ انھیں پڑھانے کے لیے اساتذہ کی تعداد بارہ ہزار سے بھی کم ہے اور ان میں خواتین ٹیچرز محض 4700 ہیں۔ یہاں سینکڑوں سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک ٹیچر موجود ہے۔

یہاں سکولوں کی کل تعداد 5953 ہے جن میں سے 1200 کے لگ بھگ وہ سکول ہیں جو طویل عرصے تک شدت پسندی، اساتذہ کی عدم دستیابی اور سہولیات کا فقدان ہونے کی وجہ سے فعال ہی نہیں۔

لڑکیوں کی تعلیم کی شرح لڑکوں کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔ جن لڑکیوں کو سکولوں تک رسائی حاصل ہے، ان میں بھی زیادہ تر محض پرائمری سکول تک تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔ صرف 30 فیصد بچیوں کو پرائمری سے مڈل سکول جانے کی اجازت ملتی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہاں خواتین اساتذہ کا کم ہونا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مقامی قبائل کے ایک شخص نے کہا کہ وہ اپنی بچیوں کو ضرور سکول بھیجیں گے ’اگر حکومت یہاں لڑکیوں کے لیے الگ سکول بنائے اور وہاں عورت پڑھائے۔‘

’سوچا نہیں تھا کہ میں اس علاقے میں کبھی آ سکوں گی‘

سیما ماہین

سیما ماہین جبران کہتی ہیں کہ وہ انفرادی سطح پر یہ کوشش ضرور کر رہی ہیں کہ ان بچوں میں مثبت سوچ پیدا کی جا سکے۔

’میں ان بچوں سے پوچھتی تھی کہ کیا آپ کو میرا پڑھانا عجیب لگتا ہے؟ وہ جواب دیتے کہ ایسا نہیں۔ پھر میں ان سے کہتی کہ اس طرح آپ کی بہنیں بھی پڑھا سکتی ہیں۔ پہلے جب میں ان سے پوچھتی کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بہنیں بھی سکول جائیں تو بچے خاموش رہتے تھے۔ اب ان میں سے کئی بچے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہاں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، اگر الگ سکول ہو اور خاتون استاد ہو اور سر پر دوپٹہ ہو تو بہنیں بھی سکول جائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ یہاں بچیوں کے لیے بھی راستے کھلیں گے۔‘

یہاں چوتھی جماعت کے بچوں کو پڑھانے کے بعد سیما ماہین اب واپسی کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ نکلنے سے پہلے بچوں سے ملیں۔

’میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ میں یہاں، اتنی دور، اس علاقے میں کبھی آ سکوں گی۔ یہ سب بہت زبردست ہے۔ زندگی میں اپنی نوعیت کا واحد دن اور ان بچوں سے مل کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ہمارا آن لائن ہونے کے باوجود کتنا مضبوط جذباتی تعلق ہے۔ مجھے یہ بچے ہمیشہ یاد آئیں گے۔ میں جب انھیں پڑھاتی ہوں تو یہ کسی صورت شہر کے بچوں سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ یہ شہری بچوں سے زیادہ ذہین ہیں۔

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں یہاں کیسے ان بچوں کی زندگی تبدیل کر رہی ہوں۔ یہ بات مجھے آج یہاں اتنی دور آ کر سمجھ آئی۔‘

سکول میں ایک بچہ

یہاں زندگی بدل رہی ہے۔ یہ بات خود ان قبائل کے بزرگ بھی مانتے ہیں۔ انہی بچوں میں سے ایک کے والد نے بی بی سی سے بات کی: ’پہلے کیا تھا، یہ سب لڑکے یہاں سڑک کے کنارے سارا سارا دن بیٹھے رہتے تھے۔ کبھی ایک سے جھگڑا، کبھی دوسرے سے۔ کبھی اِدھر بھاگتے، کبھی اُدھر دوڑتے۔ اب پڑھ رہے ہیں۔‘

انھوں نے دُور کھڑے ایک فوجی اہلکار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’اس افسر اور مجھ میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں۔ بس ایک فرق کہ وہ سکول گیا اور افسر بن گیا، میرے پاس سکول نہیں تھا، اس لیے میں یہیں رہ گیا۔ بس یہی سوچ کر اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو یہاں بھیجتا ہوں۔‘

سیما جانے سے پہلے ان والدین سے مل رہی ہیں۔ وہ ان سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا انھیں سیما کا سکول آنا یا ان کے بیٹوں کو پڑھانا ناپسند ہے۔ جب ان والدین نے نفی میں جواب دیا تو انھوں نے کہا کہ ’میں ایک عورت ہوں، میں تعلیم یافتہ ہوں۔ میری دو بیٹیاں ہیں، میں انھیں بھی پڑھا رہی ہوں۔ آپ اپنی بچیوں کو پڑھائیں، انھیں سکول بھیجیں۔‘

سیما ماہین واپس جانے کے لیے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئیں تو ایک بار پھر سرسبز پہاڑوں میں منفرد نظر آنے والی سکول کی زرد عمارت کے گرد ایک چکر لگایا۔ انھیں لگتا ہے کہ شاید وہ دوبارہ یہاں کبھی نہیں آ سکیں گی اور ان طلبا کے ساتھ ان کا رابطہ انٹرنیٹ کے سگنلز اور ٹی وی کی ایک سکرین پر منحصر رہے گا۔

’میری خواہش ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ سکول چلتا رہے گا اور یہ سلسلہ کچھ عرصے بعد ختم نہیں ہو جائے گا۔ یہ بچے اور ان علاقوں کی بچیاں اچھی تعلیم کا حق رکھتے ہیں اور یہ حق انھیں ہر صورت ملنا چاہیے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *