ثانیہ مرزا کا ’مام گلٹ‘ ماں بچے کی دیکھ بھال میں اپنی ذات

ثانیہ مرزا کا ’مام گلٹ‘ ماں بچے کی دیکھ بھال میں اپنی ذات

ثانیہ مرزا کا ’مام گلٹ‘ ماں بچے کی دیکھ بھال میں اپنی ذات کو بھول بھی جائے پھر بھی اسے لگتا ہے کہ وہ ’اچھی ماں‘ نہیں ہے

کچھ ہفتے پہلے مجھے ایک ٹریننگ کے لیے دوسرے شہر جا کر کچھ دن رہنا پڑا۔ کام سے فارغ ہو کر جب میں رات کو اپنے بیٹے کو ویڈیو کال کرتی تو اسے روتا دیکھ کر میں بھی رو پڑتی اور رات بھر یہی سوچتی رہتی کہ میں اچھی ماں نہیں ہوں۔۔۔ میں اپنے بچے کو نظرانداز کر رہی ہوں۔۔۔۔ اس پر ظلم کر رہی ہوں مگر پھر سوچتی کہ کماؤں گی نہیں تو کھاؤں گی کہاں سے؟‘

یہ واقعہ مجھے ایک دوست کرن نے سُنایا جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کانٹینٹ کریٹر ہیں اور ایک دو سالہ بچے کی ماں بھی ہیں۔

ان کی نوکری ذرا مشقت طلب ہے اور کام کی جگہ پر بچوں کے لیے کوئی ڈے کئیر و دیگر سہولیات بھی میسر نہیں۔ ٹریننگ والے مقام پر یہ جانتے ہوئے بھی وہ ایک بچے کی ماں ہیں اور انھیں دوسرے شہر سے آ کر کئی دن تک رہنا ہو گا، کوئی سہولت نہیں دی گئی لہذا انھیں اپنا بیٹا گھر چھوڑ کر جانا پڑا۔

اکثر اوقات جب کرن کے دفتر والے کام کا بوجھ بڑھا دیں یا رات گئے تک مزید کانٹیٹ کی فرمائشیں کریں تو وہ اتنی چڑچڑی ہو جاتی ہیں کہ سارا غصہ بچے پر نکلتا ہے۔۔۔۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’بعد میں تکلیف تو ہوتی ہے مگر آپ بے بس محسوس کرتے ہیں۔ چاہے کیریئر میں جتنی مرضی کامیابیاں سمیٹ لیں آپ ایک ہارے ہوئے شخص کی طرح محسوس کرتے ہیں اور خود کو کوستے ہیں کہ میں ایک بُری ماں ہوں۔‘

کرن اکیلی ماں نہیں جو ایسے ’موم گِلٹ‘ یا بطور ماں ایک احساسِ جرم کا شکار رہتی ہیں۔ دنیا میں بچہ چھوڑ کر نوکری یا کسی اور کام سے جانے والی اکثر ماؤں کو ایسے ہی احساسات سے روزانہ لڑنا پڑتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ ’میں کیسی ماں ہوں؟‘

ثانیہ مرزا ٹینس کی ایک نامور کھلاڑی ہیں جن کے اعزازات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک تقریباً ساڑھے تین سالہ بچے کی ماں بھی ہیں جو اکثر موم گلٹ یعنی ایسے ہی احساسِ جرم کا شکار ہوتی ہیں۔

Instagram: Sania Mirza

ثانیہ آج کل انگلینڈ میں کھیل رہی ہیں اور اس دوران وہ انڈیا میں موجود اپنے بیٹے اذہان کی نرسری گریجویشن کی تقریب میں شرکت نہیں کر پائیں۔

انھوں نے اپنے انسٹا گرام سٹویریز پر اپنے احساسات شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں وہاں موجود نہیں تھی اور یہ ایک خوفناک احساس تھا۔ بدقسمتی سے ہم ایک ہی وقت میں دو جگہوں پر نہیں ہو سکتے۔‘

وہ لکھتی ہیں کہ واقعی ماؤں کو احساسِ جرم ہوتا ہے اور یہ احساس کبھی ختم نہیں ہوتا۔

تاہم ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس احساس کی پہچان کرنا اور خود کو معاف کرنا ضروری ہے کیونکہ چاہے ہم کچھ بھی کر لیں ایک ماں کی حیثیت سے ہمیں یہی لگتا ہے کہ ہماری محنت ناکافی ہے۔

Facebook\Shoaib Malik
ثانیہ کے شوہر اور سابق پاکستانی کرکٹر شعیب ملک اذہان کی گریجویشن پر موجود تھے

ثانیہ کہتی ہیں کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میرے پاس ایک فیملی اور سپورٹ سسٹم موجود ہے جو مجھے میرے خوابوں کے تعاقب میں کہیں بھی آنے جانے کی آزادی دیتا ہے۔

مائیں ’موم گلٹ‘ یا احساسِ جرم کیوں محسوس کرتی ہیں؟

ماہا احمد برٹش امریکن ٹوبیکو میں ہیومن ریسورس ٹیم کی بزنس لیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ 11 مہینے کے بیٹے کی ماں بھی ہیں۔

ایک دو مرتبہ جب انھیں ڈاکٹر کو چیک اپ کروانے یا کسی اور کام کے باعث بیٹے کو گھر چھوڑ کر جانا پڑا اور اگر پیچھے سے اس نے کوئی ایسی چیز کھا لی جو اسے نہیں کھانی چاہیے تھی، اور اس کے بعد وہ بیمار پڑ گیا یا اسے کوئی چوٹ لگ گئی تو ماہا کو شاید احساسِ جرم ہوا کہ ’اگر میں گھر پر رہتی تو ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ماں چاہے بچے کے لیے جتنا بھی کر لے اسے ناکافی سمجھتی ہے۔ اگر سب کچھ صحیح بھی رہے بچے کو کچھ بھی نہ ہو، چاہے اس دیکھ بھال میں وہ اپنی ذات کو بھول بھی جائے، پھر بھی اسے یہی لگتا ہے کہ وہ ’اچھی ماں‘ نہیں ہے۔‘

بچے کی پیدائش پر پہلے انھوں نے کام سے چھ مہینے کی چھٹی لی۔ پھر انھیں لگا کہ ابھی بچہ بہت چھوٹا ہے اور ماہا نے چند مہینے مزید چھٹی لے لی اور اس دوران بغیر تنخواہ کے بھی چھٹی لی۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ ماؤں کے نزدیک 11 مہینے شاید کافی نہیں لیکن میرا خیال ہے اب میں کام پر واپس جا سکتی ہوں لیکن اس سے پہلے انھیں بچے کی مناسب دیکھ بھال کا انتظام کرنا ضروری تھا تاکہ وہ ’شدید احساسںِ جرم کا شکار‘ نہ ہوں۔

وہ کہتی ہیں کہ اسلام آباد میں چائلڈ کیئر سسٹم اول تو کچھ خاص بہتر نہیں اور اوپر سے فیس بہت زیادہ ہے۔ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ ان کی کمپنی یہ خرچہ برداشت کرتی ہے مگر پاکستان میں کام کرنے والی ماؤں کی اکثریت کو یہ سہولت میسر نہیں۔

ماہا نے اسلام آباد میں کئی ڈے کیئر سینٹرز کا دورہ کیا مگر انھیں یہی محسوس ہوا کہ وہاں بچے کو کوئی خاص دیکھ بھال نہیں ملے گی لہذا انھوں نے اپنے والدین کو بلانے کے ساتھ ساتھ ایک آیا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر اتنی سپورٹ سسٹم کے باوجود بھی وہ بچہ چھوڑ کر کام پر جاتے ہوئے ’موم گلٹ‘ کا شکار کیوں ہیں؟

ماہا احمد
ماہا احمد کہتی ہیں کہ کوئی بھی دوسرا شخص ماں کا متبادل نہیں ہو سکتا

ماہا بتاتی ہیں کہ انھوں نے پچھلے 11 مہینوں سے ’اپنی ذات مکمل طور پر بچے کے لیے وقف‘ کر رکھی ہے اور ایک ماں کے طور پر وہ سمجھتی ہیں کہ ماں ہی وہ شخصیت ہے جسے بچہ کسی بھی ضرورت کے لیے سب سے پہلے ڈھونڈتا ہے۔

’اگر بچہ ڈر رہا ہے تو صرف ماں کو ہی ڈھونڈتا ہے کیونکہ اتنے چھوٹے ہونے کے باوجود بھی وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ صرف ماں پر ہی بھروسہ کر سکتے ہیں اور ماں کے پاس ہی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔‘

ماہا کہتی ہیں کہ کوئی بھی دوسرا شخص ماں کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

باپ ’گلٹی‘ کیوں نہیں محسوس کرتے؟

ہم نے اس آرٹیکل کے لیے جن خواتین سے بات کی ان کا ماننا ہے کہ یا تو ان کے شوہروں کو ان جیسا احساسِ جرم (گلٹ) محسوس نہیں ہوتا یا شاید نظر نہیں آتا۔

ماہا احمد کے خیال میں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پرورش ایسی کی گئی ہے کہ ہمارے معاشرے کے مرد سمجھتے ہیں کہ ’اگر بچے کے ساتھ زیادہ وقت نہیں بھی گزارا کوئی بات نہیں۔‘

sania.mirza

ماہا کہتی ہیں کہ یقیناً آج کل کے مرد اپنے سے پچھلی نسل کے مردوں سے مختلف ہیں مگر ’ان کی پرورش تو اسی نسل نے کی ہے جن کا ماننا تھا کہ بچے کا خیال رکھنا ماں کی ذمہ داری ہے‘ اور آج کل کے باپ گلٹی تو شاید محسوس کرتے ہوں مگر اس حد تک نہیں جتنا مائیں کرتی ہیں۔

’اور ماں چاہے بچے کے لیے جتنا بھی کر لے اسے ناکافی سمجھتی ہے اور اسے یہی لگتا ہے کہ وہ ’اچھی ماں‘ نہیں ہے۔‘ ماہا کا ماننا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ماؤں کے لیے ایسی سپورٹ موجود نہیں کہ وہ اپنے جذبات اور احساسات شیئر کر سکیں اور ان کے پاس مام گلٹ، سوسائٹل گلٹ، ہر طرح کا گلٹ بس جمع ہوتا رہتا ہے۔

ماہا کو اب نوکری پر واپس جانا ہے مگر ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ نوکری کے دوران اپنے بچے میں آنے والی تبدیلیاں اور پھر سکول داخل ہونے کے بعد اس کی تعلیمی زندگی کے اہم مواقع پر وہ موجود نہیں ہوں گی۔ تو کیا وہ نوکری چھوڑنے کے بارے میں بھی سوچتی ہیں؟

نوکری چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ آج کل کے معاشی حالات میں صرف ایک بندے کی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہو سکتا۔

انھیں معلوم ہے کہ شاید ان کا کیریئر پہلے جیسا نہیں رہے گا، شاید انھیں وہ رول نہیں مل پائے گا جس کی انھیں خواہش ہے، اُن کی گروتھ بھی شاید پہلے جیسی رفتار سے نہیں ہو گی، مگر وہ ان سب قربانیوں کے لیے تیار ہیں اور جو چیز ماہا کو حوصلہ دیتی ہے وہ ان کی دوست کی کہی ہوئی بات ہے کہ ’مائیں جتنی قربانیاں دیتی ہیں وہ بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے ہی تو دیتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *