تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے کے لیے آرٹیکل 5 کے

تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے کے لیے آرٹیکل 5 کے

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد کو گذشتہ روز ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد ملک میں سپیکر کے اختیارات پر آئینی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

ڈپٹی سپیکر کی جانب سے گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت مسترد کرنے کے اقدام کو آئینی و قانونی ماہرین ملک میں آئینی بحران کی صورتحال قرار دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ عمران خان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد کو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے آئین کے منافی اور ضوابط کے خلاف قرار دے کر مسترد کیے جانے کے بعد صدرِ پاکستان نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی ہے۔

آئین کا آرٹیکل پانچ کیا ہے؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق آرٹیکل پانچ ریاست سے وفاداری اور آئین و قانون کی پاسداری سے متعلق ہے۔

آئین کے آرٹیکل پانچ کی تعریف کچھ یوں ہے:

ریاست سے وفاداری ملک کے ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔

ملک کے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میں ملک کے آئین و قانون کی پاسداری و احترام کرے۔

ماہر قانون شاہ خاور نے آئین کے آرٹیکل پانچ کی تشریح کے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ آئین کا ایک بنیادی ماخذ ہے اور اس میں واضح لکھا کہ پاکستان کے ہر شہری کا اولین فرض ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفادار رہے اور آئین و قانون کی پاسداری کرے۔’

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس شائق عثمانی کے مطابق بھی آئین کا آرٹیکل پانچ ریاست سے وفاداری اور آئین و قانونی کی پاسداری کا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سادہ اور عمومی آرٹیکل ہے جو ہر شہری پر ریاست سے وفاداری کا پابند کرتا ہے۔

قاسم سوری

ڈپٹی سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ میں کیا کہا؟

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل پانچ کو بنیاد بناتے ہوئے مسترد کیا۔

ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کہا ہے کہ یہ قراردار آئین کے منافی ہے اس لیے سپیکر کی رولنگ کے مطابق اسے مسترد کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے آغاز میں سابق وزیر قانون و اطلاعات فواد چوہدری نے مبینہ دھمکی آمیز خط کا معاملہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئین اور قانون کے منافی ہے اور یہ تحریک عدم اعتماد بیرونی سازش کے تحت حکومت کو گرانے کی کوشش ہے ۔

انھوں نے کہا کہ اس تحریک کو پیش کرنے والوں نے ریاست سے وفاداری کے آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کی ہے۔ ‘یہ فیصلہ عدم اعتماد کا نہیں، آرٹیکل پانچ کا ہے۔لہذا سپیکر پہلے اس قرار داد کی آئینی حیثیت طے کریں۔’

جس پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے رولنگ دی کہ وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں اور آرٹیکل 95 کے تحت جو تحریک عدم اعتماد موجود ہے اس کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں۔ اور انھوں نے اجلاس کی کارروائی موخر کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔

سپریم کورٹ نے کیا کہا؟

قومی اسمبلی کے اجلاس کے فیصلے کے فوری بعد گذشتہ روز پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی معاملے کی نزاکت، آئینی و قانونی اہمیت کے پیش نظر اتوار کی دوپہر فوری از خود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی اور حکم نامہ جاری کیا کہ ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل پانچ استعمال کرتے ہوئے بادی النظر میں نہ تحقیقات کے نتائج حاصل کیے اور نہ متاثرہ فریق کو سنا۔

سپریم کورٹ

عدالت نے سوال اٹھایا کہ ‘جب بیرونی سازش کے حوالے سے نہ کوئی سماعت ہوئی نہ کوئی نتیجہ سامنے آیا، تو سپیکر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل پانچ کا سہارا کیسے لے سکتا ہے۔’

ان کا حکمنامے میں کہنا تھا کہ عدالت جائزہ لے گی کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہے؟

سپریم کورٹ سپیکر قومی اسمبلی کے اختیارات اور آئین سے متصادم فیصلے پر کن سوالات پر توجہ مرکوز کرے گی۔ اس سوال کے جواب میں قانونی ماہر شاہ خاور کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 95 کے تحت پہلے سے پیش ایک تحریک پر ایک بنیادی ماخد کے آرٹیکل پانچ کے تحت رولنگ دی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپیکر نے ان کے خلاف رولنگ دی جنھوں نے یہ تحریک جمع کروائی ہے اور اس کی حمایت میں ہیں۔ آپ ان کے خلاف یہ رولنگ دے رہے کہ وہ ریاست کے وفادار نہیں ہے تو یہ اختیار سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو کس نے دے دیا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں موجود افراد کے متعلق بغیر تحقیق و انکوائری کے یہ کہہ دیں کہ ان کا اقدام ریاست کے خلاف ہے۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ یہ وہ سوالات ہیں جن کا سپریم کورٹ نے تعین و فیصلہ کرنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس اہم بات کا تعین کرے گی کہ آئین کے تحت ایک اہم معاملہ قومی اسمبلی میں زیر بحث ہے اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچنے کی آئینی شرط ہے اس کو کیسے آئین کے ایک آرٹیکل پانچ کا سہارا لے کر مسترد کیا جا سکتا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 5 اور سپیکر کی رولنگ

قومی اسمبلی

ماہر قانون شاہ خاور نے اس متعلق رائے دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ روز کی قومی اسمبلی کی کارروائی اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو اگر آرٹیکل پانچ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس دن قومی اسمبلی کا ایجنڈا آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا تھا۔ اس پر ایسی رولنگ دینا غلط اور غیر آئینی ہے۔

وہ اس کی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے یکم اپریل کے اجلاس کے روز متحدہ اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہوئی تھی اور آئین کے مطابق جب ایسی کوئی تحریک جمع کروا دی جائے تو اس وقت سے وزیر اعظم کا آرٹیکل 58(1) کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار صلب ہو جاتا ہے۔ جب تک کہ عدم اعتماد ناکام نہ ہو جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یکم اپریل کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق ایک اور کارروائی بھی ہوئی کہ اس تحریک کو ایوان میں (ٹیبل) پیش کر دیا گیا۔ اس عمل کو لیو گرانٹنگ بھی کہتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے سپیکر اس تحریک کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ اجازت اس وقت دی جاتی ہے جب جن کی جانب سے یہ تحریک پیش کی گئی ہو وہ اس قومی اسمبلی میں موجود اراکین کی تعداد میں اکثریت ثابت کر دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کی جانب سے اکثریت ثابت کرنے کے بعد سپیکر اسد قیصر نے اس پر رولنگ دی تھی کہ یہ تحریک ٹیبل کر دی گئی ہے اور اس پر لیو گرانٹ بھی ہو گئی ہے اب اس پر رائے شماری ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کل کا اجلاس اس تحریک کے حوالے سے گنتی یا رائے شماری کے لیے رکھا گیا تھا۔

شاہ خاور کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل پانچ ایک بنیادی ماخذ ہے اور یہ دنیا کے ہر ملک کے آئین میں ہو گا۔ اگر کوئی پاکستانی شہری اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی سزا متعین ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی جماعت کی جانب سے عدالت میں یہ موقف پیش کیا جائے گا کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت سپریم کورٹ قومی اسمبلی کی کارروائی پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔

وہ کہتے ہیں ‘مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اگر کل کو سپیکر کوئی ایسی رولنگ دے دیتا ہے جو آئین کی رو کے خلاف ہے یا آئین کے کسی آرٹیکل سے متصادم ہے مثلاً اگر سپیکر کسی بھی پوائنٹ آف آرڈر پر یہ رولنگ دے کہ کل سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام نہیں بلکہ صدارتی نظام نافذ ہو گا تو کیا ایسی رولنگ جو آئین کی رو کے خلاف ہے وہ سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہو سکتی؟

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس شائق عثمانی نے بھی اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر کے سامنے تحریک عدم اعتماد کا معاملہ تھا جس کو انھوں نے خود 25 مارچ کو ایڈمٹ کیا تھا اور اس معاملے پر اگلے اجلاس میں لیو گرانٹ کرتے ہوئے اس کی ووٹنگ کی تاریخ مقرر کی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر انھیں اس تحریک پر کوئی اعتراض تھا یا یہ غیر آئینی تھی تو انھیں اسے پہلے ہی ایڈمٹ نہیں کرنا چاہیے تھا اور اس پر اعتراض لگا دیتے۔

جسٹس شائق عثمانی کہتے ہیں کہ جب ایک مرتبہ ایک تحریک پر لیو گرانٹ ہو گئی تو آئین کے تحت یہ لازمی تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہو اور جب تک گنتی مکمل نہ ہو اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کو آئین کے آرٹیکل پانچ کو بنیاد بنا کر مسترد کیا جانا غلط اقدام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس بارے میں ان کے پاس کوئی عدالتی فیصلہ ہوتا تو الگ بات تھی لیکن ایک مفروضے کی بنیاد پر ایسا اقدام غیر آئینی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *