بُلی بائی ایپ انڈیا میں مسلم خواتین کی جعلی نیلامی

بُلی بائی ایپ انڈیا میں مسلم خواتین کی جعلی نیلامی

بُلی بائی ایپ انڈیا میں مسلم خواتین کی جعلی نیلامی کے کیس میں مرکزی ملزم سمیت چار افراد گرفتار

انڈیا میں پولیس نے 100 سے زیادہ مسلمان خواتین کی تصاویر کے ذریعے ان کی آن لائن ’جعلی نیلامی‘ کے الزام میں اب تک چار افراد کو گرفتار کیا ہے۔

دلی پولیس نے جمعرات کو 21 برس کے نیرج بشنوئی کو آسام کے علاقے سے حراست میں لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ نیرج اس کیس میں ’مرکزی ملزم ہے اور یہ ایپ بھی انھوں نے ہی بنائی تھی۔‘

گذشتہ برس سامنے آنے والے ’سُلی ڈیلز‘ کیس کی طرح اس ایپ میں بھی کسی کو اصل میں ‘فروخت’ نہیں کیا جا رہا تھا بلکہ مسلمان خواتین کو ہراس کیا جا رہا تھا۔ ان میں سے کئی خواتین نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کر چکی ہیں۔ سُلی اور بُلی بائی دونوں ہندی الفاظ مسلمان خواتین کے لیے توہین آمیز اور طنزیہ انداز میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

اس سے قبل ممبئی پولیس کے کمشنر ہیمنت ناگرالے نے بدھ کے روز تین لوگوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’یہ ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے جس میں ایک خاص برادری کی خواتین کو بدنام کیا گیا ہے اور ان کو تکلیف پہنچائی گئی ہے۔ ان لوگوں نے یہ ایپ اپ لوڈ کی اور اسی نام سے ٹوئٹر پر ایک اکاؤنٹ بھی بنایا۔ جیسے ہی ان لوگوں کے خلاف شکایت درج کی گئی پولیس نے فوری طور پر تفتیش کا آغاز کر دیا۔

اس کیس میں ابھی تک تین لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ دو لوگوں کو ،جن میں سے ایک خاتون ہیں، اتراکھنڈ سے جبکہ تیسرے شخص کو مینگلور کے علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ تیسرا شخص ایک اینجینیرئنگ سٹوڈنٹ ہے اور اس کا نام وشال جھا ہے۔

’میری تصاویر کو بگاڑ کر انھیں غلط انداز میں استعمال کیا گیا‘

صائمہ رحمان
صائمہ رحمان کہتی ہیں ‘ہمارے معاشرے قدامت پسند ہیں اور جب ایسے کیسز سامنے آتے ہیں تو تمام الزامات اور پابندیاں لڑکی پر لگا دی جاتی ہیں‘

یہ کیس یکم جنوری کو اس وقت سامنے آیا جب اس ایپ کے ذریعے مسلمان خواتین کی آن لائن جعلی نیلامی کی جا رہی تھی۔ ان خواتین میں ایک صائمہ رحمان بھی تھیں۔

صائمہ ایک ریڈیو جاکی ہیں، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ملزمان کی گرفتاری پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس عمل سے ہمیں امید ملتی ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ان کی طرف سے کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی تھی۔ لیکن تفتیش میں شامل ایک ملزم عورت کا نام سن کر انھیں تعجب ضرور ہوا ہے۔

’میں خود گزشتہ تین چار برس سے سائبر بلئنگ کا شکار رہی ہوں۔ میری تصاویر کو بگاڑ کر انھیں غلط انداز میں استعمال کیا گیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’سُلی، انڈیا میں مسلمان لڑکیوں کے لیے استعمال کی جانے والی ایک ہتک آمیز اصطلاح ہے۔ جب گزشتہ برس جولائی میں یہ معاملہ سامنے آیا تو ہم نے آواز اٹھائی لیکن اب بھی بہت سی ایسی لڑکیاں ہیں جن کی کوئی آواز نہیں ہے۔ اسی لیے اسے روکنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘

یاد رہے کہ جولائی 2021 میں بھی ایک ایپ بنائی گئی تھی جس کا نام ‘سُلی فار سیل‘ رکھا گیا تھا اور اس پر مسلمان خواتین کی تصاویر جو کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اٹھائی گئی تھیں، شئیر کی گئیں تھی۔ یہ ایک مفت ایپ تھی اور اس میں 80 سے زیادہ خواتین کی تصاویر اور ناموں کے ساتھ ساتھ ان کے ٹوئٹر ہینڈل بھی دیے گئے تھے۔ اس ایپ کے اوپر درج تھا ’اپنی سُلی ڈیل تلاش کریں۔‘

’یہ وہ لڑکیاں ہیں جن سے غنڈے بھی ڈرتے ہیں‘

صائمہ کہتی ہیں ’ہمارے معاشرے قدامت پسند ہیں اور جب ایسے کیسز سامنے آتے ہیں تو تمام الزامات اور پابندیاں لڑکی پر لگا دی جاتی ہیں۔ لڑکیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کم بولیں اور اپنی تصاویر اپ لوڈ نہ کریں۔ بجائے اس کے کہ ان کے والدین اور معاشرے کو اپنی بیٹیوں پر فخر ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ وہ لڑکیاں ہیں جن سے غنڈے بھی ڈرتے ہیں۔ ہم لڑکیاں بہت ہی مشکل وقت سے گزر رہی ہیں لیکن انشااللہ ہم اس معاملے کو اس کے انجام تک پہنچائیں گی تاکہ دوسروں کے لیے مسئلہ نہ ہو۔ ہم آپ کو باہر دیکھ لیں گے۔‘

صائمہ کہتی ہیں کہ اس طرح کے واقعات ان لوگوں کے لیے رکاوٹ ہیں جن کی زندگی آگے کی طرف جا رہی ہے اور ان کے لیے پیچھے کچھ بھی نہیں۔

’میں اپنے خاندان کے لیے فکر مند ہوں کیونکہ وہ میرے تحفظ کے بارے میں پریشان ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ میرے ساتھ کچھ غلط ہو۔ اس لیے ان کی یہ مرضی ہے کہ میں زیادہ بات نہ کروں اور نہ ہی کسی چیز کے بارے میں آواز اٹھاؤں۔ تو ایسے میں میرے لیے اپنے خاندان کی خاطر خاموش رہنا ہی واحد راستہ ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی میں خود کو زندہ رکھنے کے لیے آواز بلند کرتی ہوں۔‘

سو سے زیادہ مسلمان خواتین کی تصاویر بلی بائی ایپ پر شیئر کی جارہی تھیں اور یہ کہا جارہا تھا کہ یہ سب خواتین ’سولڈ آؤٹ‘ یعنی کہ بک جائیں گی۔ ان تصاویر میں انڈیا کی نامور صحافی اور ایکٹیویسٹ بھی شامل تھیں۔

خواتین کو ہراساں کرنا

اس ایپ کے بارے میں صائمہ کہتی ہیں ’یہ فہرست نہ صرف لڑکیوں کے خلاف ہے بلکہ یہ اسلام کو بھی نشانہ بناتی ہے اور ساتھ ہی فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہے۔ اس عمل میں شامل لوگوں کا مقصد مسلمان خواتین کو خاموش کروانا ہے۔ ان لوگوں کے مطابق یہ خواتین ٹوئٹر پر شور مچا رہی ہیں اور اپنی آواز بلند کررہی ہیں۔‘

انڈیا میں جو ماحول ہے اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’مجھے نہیں پتہ کہ کسی خاص برادری کو کھلے عام گالیاں دینا، اور ان کے لوگوں کو نیلام کرنا کب سے عام ہو گیا ہے۔ حکومت بھی اس پر خاموش ہے۔‘

’جس طرح کے بیان دیے جارہے ہیں اور جس قسم کی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں، جن میں یہ بتایا جا رہا کہ اس ملک کے مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔ ان کےخلاف ہتھیار اٹھائے جانے کا کہا گیا ہے۔ یہ کیسا ماحول ہے؟ اور یہ کسی سے چھپا ہوا بھی نہیں۔ لیکن حکومت میں شامل لوگ ان مسائل پر کب تک چپ رہیں گے؟ کب تک سوتے رہیں گے اور آپ کب اسے نوٹس کریں گے؟‘

اس کیس میں گرفتار ملزم اینجینیئرنگ سٹوڈنٹ کے بارے میں صائمہ کہتی ہیں کہ ’اس لڑکے کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ کیا اس طرح کی ایپس بنانے سے انڈیا ترقی کرے گا؟ ایک عام انڈین شہری اس بارے میں کیوں نہیں سوچتا؟‘

صائمہ نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان سے میچ ہارنے کے بعد انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ورات کوہلی کی بیٹی کو ریپ کی دھمکیاں ملنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دھمکی دینے والے شخص کو 24 گھنٹوں میں ممبئی پولیس نے گرفتار کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس اگر چاہے تو فوری ایکشن لے سکتی ہے۔ لیکن گزشتہ برس جولائی میں جب سُلی ڈیل کا معاملہ سامنے آیا تو کیا ہوا؟ دلی پولیس نے ایکشن کیوں نہیں لیا۔‘

یاد رہے کہ ممبئی پولیس کے سائبر سیل نے فلم سٹار انوشکا شرما اور کرکٹر ورات کوہلی کی بیٹی کو دھمکی دینے والے شخص کو گرفتار کیا تھا۔

صائمہ کہتی ہیں کہ ان کے کیس میں وہ وزیر اعظم، خواتین کے امور کی وزارت اور بچوں کے فلاح کے لیے کام کرنے والوں سے سننا چاہتی ہیں کہ یہ غلط ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک قومی سکینڈل ہے اور وہ جاننا چاہتی ہیں کہ پورے ملک کی پولیس اس پر ایکشن کیوں نہیں لے رہی۔‘

’مجھے اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ میں مسلمان ہوں‘

حنا محسن خان
حنا محسن نے اس کیس میں ہونے والی گرفتاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے

حنا محسن ایک کمرشل پائلٹ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا نام بُلی بائی کیس میں نہیں تھا لیکن سُلی ڈیلز والے کیس میں انھیں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اب جب انھوں نے ایپ کھولی تو انھیں ’بہت غصہ آیا، دکھ ہوا اور ساتھ ہی میں بے بس بھی محسوس کر رہی تھی۔ میں اپنا فون دیکھ رہی تھی اور میرے سامنے نام آرہے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر صدمہ ہوا۔ نیا سال آیا ہے اور تھوڑا بہت امن تھا، لیکن پھر سب بدل گیا۔‘

تاہم، حنا محسن نے اس کیس میں ہونے والی گرفتاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے گزشتہ برس سُلی ڈیل کیس میں ایف آئی آئر دائر کی تھی لیکن مجھے امید نہیں تھی۔ اس سے پہلے عید کے موقع پر میری کچھ دوستوں کے نام اسی طرح کی ایک ایپ پر تھے اور اس کیس میں کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔‘

وہ سُلی ڈیلز والے کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے رنجیدہ ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں ’جب سُلی ڈیلز میں میرا نام آیا تو مجھے جھٹکا لگا۔ کیونکہ نہ تو میں سیاسی امور پر بات کرتی ہوں اور نہ ہی مجھے آن لائن ٹرول کیا گیا ہے۔ مجھے صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ میں مسلمان عورت ہوں۔ اس سے میری صحت پر بھی اثر پڑا۔‘

وہ دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں ’میں یہ سوچ رہی تھی کہ اب ہر بار مجھے اپنا فون چیک کرنا پڑے گا تاکہ میں یہ دیکھ سکوں کے میری تصاویر استعمال کر کے میری نیلامی تو نہیں کی جا رہی۔ اور کیا بات جسمانی تشدد تک تو نہیں چلی جائے گی؟ ایسے میں میں اپنی حفاظت کیسے کر سکتی ہوں؟ اگر پولیس نے عید کے موقع پر اس پر ایکشن لیا ہوتا تو جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے، یہ نہیں ہوتا۔‘

حنا کہتی ہیں کہ جب ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ان کے بھائی بہن اسے سمجھتے ہیں لیکن ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ماں باپ کو ان چیزوں سے دور رکھیں۔ ’جو بھی یہ کر رہا ہے وہ ہمیں ڈرا نہیں سکتا بلکہ اس سے ہم مزید طاقت ور ہوتے ہیں۔‘

فاطمہ خان، صحافی

فاطمہ خان
فاطمہ خان کا نام اور تصویر دونوں ایپس پر موجود تھی

گزشتہ برس جولائی میں جو کیس ہوا، وہ ابھی تک صحافی فاطمہ خان کے ذہن میں تازہ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ برس جب سُلی ڈیلز میں ان کا نام آیا تو وہ باہر فیلڈ میں رپورٹنگ کر رہی تھیں اور اب ان کا نام بُلی بائی ایپ پر بھی آیا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’میرے ساتھ ایسا دوسری بار ہوا ہے۔ جب یہ سب شروع ہوا تو انھوں نے مجھے ٹوئٹر پر بھی ٹیگ کیا، یہ 31 دسمبر کی رات تھی۔ میں نے یہ سب کچھ گزشہ برس چھ ماہ تک سہا اور اب میں مزید اذیت برداشت نہیں کرسکتی۔ کیونکہ میں سمجھ گئی کہ لوگوں کا ردعمل کس طرح کا ہوگا۔ کون میرا ساتھ دے گا، کون چپ رہے گا۔ اس موضوع پر بات کی جائے گی۔ کیس کے لیے بڑی بات ہے اور کون اسے چھوٹا تصور کرتا ہے، یہ سمجھ میں آگیا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ برس اس خبر کو بین الاقوامی میڈیا میں سنجیدگی سے لیا گیا لیکن اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔

’یہ بہت بھیانک تھا‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ اس لیے بھی بھیانک تھا کیونکہ اس میں فہرست بنائی گئی اور تصاویر لگائی گئیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ وہ اب مزید کون سے ہتھکنڈے استعمال کریں گے۔‘

فاطمہ کہتی ہیں کہ یہ حرکت علامتی ہے اور ایسا کرنے سے وہ اس فہرست میں شامل یا وہ بھی جو شامل نہیں، ان مسلمان خواتین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ’تم لوگوں کی یہی جگہ ہے، اور تمھیں صرف فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اپنی رائے کا اظہار مت کرو۔ اپنا کام مت کرو، صرف گھر بیٹھو۔‘

فاطمہ جنس سے متعلق مسائل پر بھی رپورٹنگ کرتی رہی ہیں اور وہ اس بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہتی ہیں ’روایتی طور پر انڈیا میں میڈیا نے مسلمان خواتین کے بارے میں ایک تاثر قائم کر رکھا ہے کہ وہ چپ رہتی ہیں، ان کی کوئی آواز نہیں اور انھیں دبایا جاتا ہے۔ ان کی گھر پر کوئی نہیں سنتا، باپ بھائی ان کی پروہ نہیں کرتے اور اس دوران ایک یہ تاثر تخلیق کیا گیا کہ ہمیں انھیں بچانا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن مسلم خواتین ہر شعبے میں آگے آئی ہیں اور جب یہ خواتین ٹوئٹر یا انسٹاگرام پر ان مسائل پر آواز اٹھاتی ہیں اور انھیں غلط کہتی ہیں تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ مضبوط خواتین ہیں۔ لیکن یہ اس تاثر کو نظر انداز کرتے ہیں اور اسے دبانے کے لیے اس طرح کی ایپس یا اس قسم کی لسٹ بنائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایپ، ہم جیسی اور دوسری مسلمان خواتین کو یہ پیغام بھی دیتی ہیں کہ ’ تم لوگ اپنی جگہ پر رہو ورنہ تمھارے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔‘

سُلی ڈیلز پر نام آنے کے بعد ان پر اس کا گہرا اثر پڑا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب یہ سامنے آیا تو میں بیمار ہوگئی اور الٹیاں کرنے لگی۔ میرے پورے جسم پر اثر پڑا۔‘

’لوگوں کا رویہ دیکھ کر بہت اذیت ہوئی‘

خواتین کو ہراساں کرنا

وہ کہتی ہیں کہ سب سے زیادہ جس چیز نے انھیں حیران کیا وہ تھا لوگوں کا رویہ۔ ’لوگوں کا رویہ دیکھ کر بہت اذیت ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف ایک آن لائن نیلامی ہے اور اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تمھیں فروخت کیا جارہا ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایسا واقعہ ہوگا تب ہی وہ اس کی مذمت کریں گے۔ یہ بہت دردناک تھا۔‘

فاطمہ کہتی ہیں کہ لوگوں کا رویہ تبدیل ہوا ہے۔ ’وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے آپ پر کیا اثر پڑے گا۔ بہت برا محسوس ہوتا ہے اور آدھے سے زیادہ قوت اسے سمجھانے میں لگ جاتی ہے۔ ہمیں خود کو سمجھانے کی ضرورت نہیں پیش آنی چاہیے۔ یہ ہمیں جذباتی طور پر توڑ دیتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جس طریقے سے تشدد کو معمول بنایا گیا ہے آگے چل کر یہ بہت مسائل پیدا کرے گا۔ لیکنوہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو اس بارے میں بات کرتے رہنا ہوگا تاکہ یہ معمول نہ بنے اور ساتھ ہی اس کے خلاف مذمت بھی کرنا ہو گی۔

فاطمہ ان واقعات کو ’مسلمانوں کے خلاف جرائم یا مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی‘ جرائم کہتی ہیں۔ وہ اس بات سے انکار کرتی ہیں کہ یہ پدرشاہی نظام کا حصہ ہیں۔

’یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے مسلمان خواتین کے مخالف ہیں اور انھیں یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اپنی عورتوں کو سنبھالو۔‘

فاطمہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اس کا حل یہ ہے کہ خواتین کو سوشل میڈیا سے دور رکھا جائے تو انھوں نے کہا ’اس سب کے بیچ ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس کے ذمہ دار ہم ہی ہیں اور ہمیں سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر نہیں لگانی چاہییں۔ لیکن پھر لوگوں کی والدہ کے نام بھی ہیں۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟‘

قانونی نظام کی سستی پر سوال اٹھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس تازہ کیس میں تو پولیس نے فوری ایکشن لیا لیکن اگر پچھلے کیس میں ایکشن لیا جاتا تو ان لوگوں کو ایک سخت پیغام دیا جاتا کہ اس طرح کی حرکتوں پر کڑی سزا دی جائے گی اور وہ ایسی حرکتیں کر کے بچ نہیں سکتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *