بنگلہ دیش کے قیام کے 50 برس زبان، ثقافتی تسلط، حق تلفی

بنگلہ دیش کے قیام کے 50 برس زبان، ثقافتی تسلط، حق تلفی

بنگلہ دیش کے قیام کے 50 برس زبان، ثقافتی تسلط، حق تلفی یا کوئی سازش، مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں کارفرما عوامل کیا تھے؟

جب انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے رواں سال مارچ میں بنگلہ دیش کے قومی دن کے موقع پر ڈھاکہ کا دورہ کیا تو ہم منصب حسینہ واجد کے ہمراہ دونوں ملکوں نے اس فیصلے پر اتفاق کیا کہ وہ چھ دسمبر کو ‘میتری دیواس’ یعنی دوستی کا دن منائیں گے۔

اس تاریخ کی اہمیت جاننے کے لیے 50 برس پیچھے جانا ہوگا، جب چھ دسمبر 1971 کو انڈیا نے بنگلہ دیش کو اس وقت بحیثیت ایک خود مختار ملک تسلیم کر لیا تھا جب وہ پاکستان کا مشرقی حصہ تھا۔

اس کے صرف دس دن بعد مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے کمانڈر لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے انڈین فوج کے لیفٹینینٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کر کے شکست تسلیم کر لی اور بنگلہ دیش باضابطہ طور پر ایک نئی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر سامنے آیا۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بنگلہ دیش کے سب سے قریبی تعلقات انڈیا سے ہیں۔ صرف تجارتی سطح پر بات کی جائے تو دونوں ملکوں کے مابین دس ارب ڈالر کی تجارتی شراکت داری ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب کے مطالعے سے اس ریاستی بیانیے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو بنگلہ دیش اور انڈیا کے درمیان اتنے قریبی تعلقات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کا احاطہ کرتا ہے۔

مثال کے طور پر، وفاقی بورڈ کے زیر اشاعت مطالعہ پاکستان کی نویں اور دسویں جماعت کی کتب دیکھیں تو اس میں بتایا گیا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو جدا کرنے میں ‘انڈیا کا کردار’ تھا۔

ان کتب کے اسباق میں لکھا گیا ہے کہ انڈین قیادت کو پاکستان کا قیام ایک آنکھ نہیں بھایا اور انھوں نے برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد سے پاکستان توڑنے کی سازشیں شروع کر دی تھیں۔

آگے چل کر انھی اسباق میں بتایا گیا کہ مشرقی پاکستان میں بڑی تعداد میں ہندو رہائش پذیر تھے جن کی ہمدردیاں انڈیا کے ساتھ تھیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ وہاں علیحدگی پسند عناصر کو پنپنے کی جگہ ملی اور نتیجتاً مشرقی پاکستان کی عوام ان عناصر کے بیانیے کا شکار ہو گئی۔

لاسانی فسادات

محقق اور مصنفہ، انعم زکریا اس حوالے سے اپنی کتاب، ‘1971، اے پیپلز ہسٹری فرام بنگلہ دیش، پاکستان اینڈ انڈیا’ میں لکھتی ہیں کہ ان نصابی کتب میں بیانیہ تمام بنگالی ہندؤں کو انڈیا کا حامی اور بطور ‘غدار’پیش کرتا ہے ‘اسی لیے یہ قطعی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں عمومی تاثر یہی ہی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے ٹوٹ جانے کی وجہ انڈیا تھا۔’

اب جب اگلے چند روز میں بنگلہ دیش اپنے قیام کے 50 برس مکمل کرنے والا ہے، بی بی سی نے مختلف تحقیقی کتب کے حوالہ جات اور محققین سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے اپنے قیام کے محض 24 برس بعد پاکستان دو لخت ہو گیا، کیا ایسا ہونا ناگزیر تھا، اور کیا ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی سردمہری مستقبل میں گرمجوشی کی تبدیل ہو سکے گی؟

‘جہاں تک ریاستی زبان کا سوال ہے، وہ صرف اردو ہوگی’

اگست 1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو وہ دو بڑے خطوں پر مشتمل تھا۔

مشرقی پاکستان جہاں ملک کی 56 فیصد آبادی رہائش پذیر تھی جو کہ بنگلہ زبان بولنے والے تھے جبکہ مغربی پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو اور دیگر مقامی زبانیں بولنے والے بستے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا سے ہجرت کرنے والے مسلمان تھے جو اردو بولنے والے تھے اور آبادی میں ان کا تناسب تین فیصد تھا۔

بنگلہ دیش کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے ولندیزی پروفیسر ولیم وان شینڈل اپنی کتاب ‘اے ہسٹری آف بنگلہ دیش’ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ‘شمالی انڈیا’ سے تعلق رکھنے والوں کی بالادستی ابھر کر سامنے آئی۔

وہ لکھتے ہیں کہ جہاں ایک جانب بنگلہ دیشی مسلمانوں کو توقع تھی کہ وہ اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے اس نئے ملک میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے، وہیں ‘شمالی انڈیا’ سے تعلق رکھنے والے مسلمان رہنماؤں نے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی کیونکہ وہ ‘جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی تحریک کے رکھوالے سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ پاکستان کا مستقبل انھی کے نظریے کے تحت ہوگا۔’

ولیم شینڈل اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مغربی پاکستان میں بسنے والے ‘شمالی انڈین’ مسلمان دو گروہوں پر مبنی تھے اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔

ان میں ایک وہ جو ہجرت کر کے آنے والے مہاجر تھے جو اردو زبان بولتے تھے اور ہجرت کے بعد اقلیت میں ہونے کے باوجود انھیں توقع تھی کہ ان کے رسم و رواج مقامی ثقافت پر غالب رہیں گے۔ اور دوسرا گروہ پنجاب میں رہنے والے مسلمانوں کا تھا جو سویلین اداروں، فوج اور زرعی زمینوں کے مالک تھے اور ملک میں واضح اکثریت بن کر سامنے آئے۔

شیخ مجیب
شیخ مجیب الرحمان

ولیم شینڈل زبان کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ابتدائی تنازعہ اسی بنیاد پر ہوا۔ مغربی پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت کو بنگلہ زبان کے بارے میں علم نہیں تھا اور ان کے نزدیک اس زبان پر ‘ہندؤں کا اثر’ تھا۔

شاید یہی وجہ تھی کہ جب فروری 1948 میں ایک بنگالی رکن اسمبلی نے قرارداد پیش کی کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ زبان کو بھی اسمبلی میں استعمال کیا جائے، تو ملک کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے جواب میں کہا: ’پاکستان برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے مطالبے پر قائم ہوا ہے اور ان تمام مسلمانوں کی زبان اردو ہے۔ یہ اہم ہے کہ اس قوم کی ایک زبان ہو اور وہ زبان صرف اور صرف اردو ہو سکتی ہے۔‘

اگلے ہی ماہ جب مارچ 1948 میں بانی پاکستان محمد علی جناح نے ڈھاکہ کا دورہ کیا تو انھوں نے بھی اپنے خطاب میں بڑے دو ٹوک انداز میں کہا: ’یہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی ریاستی زبان صرف اردو ہوگی۔ اور اگر کوئی آپ کو اس سے گمراہ کرے تو وہ پاکستان کا دشمن ہے۔۔۔ تو جہاں تک ریاستی زبان کا تعلق ہے، وہ صرف اردو ہے۔‘

جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ایک اور ماہر اور مصنف، نیلش بوس اپنی کتاب ‘ری کاسٹنگ دا ریجن’ میں اسی بارے میں لکھتے ہیں کہ چند بنگالی دانشور محمد علی جناح کے ساتھ جنوری 1948 سے بنگلہ زبان کی حیثیت کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی اور محمد علی جناح نے اس بات پر زور دیا کہ نجی طور پر مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان استعمال ہوتی رہے لیکن سرکاری طور پر اردو ہی مرکزی زبان رہے گی۔

اس حوالے سے جب بی بی سی نے امریکہ کی جارج میسن یونی ورسٹی سے منسلک پروفیسر احسن بٹ سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا پاکستان کے بانیوں کی اپنی زبان اردو تھی اور شاید وہ اردو کو اسلام سے جوڑ رہے تھے۔

علیحدگی پسندوں کی تحاریک پر کتاب کے مصنف پروفیسر احسن بٹ نے سوال اٹھایا کہ انڈیا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کی قومی زبان کوئی نہیں ہے اور یہ سوچنا ضروری ہے کہ ہمیں قومی زبان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

انعم زکریا سے جب بی بی سی نے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک بنگلہ دیش بننے میں مرکزی کردار زبان کی تحریک کا تھا۔

‘یہ بات صرف اتنی سی نہیں ہے کہ آپ کسی کی زبان کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ زبان کو دبانے کا مطلب ہے کہ آپ ان کی ثقافت کو دبا رہے ہیں۔ اور پاکستان بننے کے فوراً بعد ایسا ہی ہوا جب ہم نے دیکھا کہ 1952 میں زبان پر ہونے والی تحریک میں طلبہ کی ہلاکت ہوئی۔’

پٹسن

ثقافتی تسلط، حق تلفی اور عدم مساوات

جہاں ایک جانب زبان کا معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا، وہیں کئی محققین معاشی، سماجی، اور ثقافتی طور پر مشرقی پاکستانیوں کے خلاف برتے گئے رویے اور ان کی حق تلفی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان ٹوٹنے میں ان عوامل کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

لاہور میں مقیم محقق و مصنف ڈاکٹر طارق رحمان سے جب بی بی سی نے اسی بابت سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ بنیادی مسئلہ مشرقی پاکستان کے ساتھ حق تلفی کا تھا۔

‘چاہے ان کے ساتھ ثقافتی امتیاز رکھا گیا، یا وہ طاقت کے بٹوارے میں امتیاز ہو یا وہ زبان اور معاشی امتیاز ہو، یہ واضح ہے کہ انھیں انصاف نہیں دیا گیا۔’

پروفیسر احسن بٹ بھی اسی نکتے کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی بنگالی آبادی کے خلاف عدم مساوات اور ہر طرح کا امتیازی سلوک کرنے سے ان کی آبادی میں وہ غم و غصہ تھا جس کا نتیجہ 1971 کی صورت میں نکلا۔

دوسری جانب انعم زکریا کہتی ہیں کہ دیگر عوامل جیسے معاشی استحصال ہو یا آمریت، ان کی اپنی تحقیق میں جو بات بار بار سامنے آئی وہ مغربی پاکستان کی جانب سے ثقافتی تسلط کا مظاہرہ تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ مشرقی پاکستانیوں کے خلاف نسلی نوعیت کے القابات استعمال کیے گئے، انھیں ‘کمزور اور کم درجے’ کے طور پر دیکھا گیا اور ان کے خلاف نسل پرست رویہ اور بیانیہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ ان کی ثقافت ‘ہندو’ ہے اور اسے ‘پاک’ کرنا ہے۔

بربریت

ڈاکٹر طارق رحمان نے بھی اسی حوالے کہا کہ بنگلہ دیشی شہریوں کو توہین آمیز انداز میں پکارا جاتا تھا۔

‘میرے نزدیک اگر آپ کسی کے ساتھ انصاف سے پیش نہ آئیں اور انھیں انھیں برابر کا شہری سمجھنے کے بجائے نچلے درجے کا شہری سمجھیں تو میری نظر میں یہ ملک ٹوٹنے کی بنیادی وجہ تھی۔’

البتہ جب ڈھاکہ یونی ورسٹی کی سابق پروفیسر میگھنا گوہاٹھاکرتا سے جب بی بی سی نے اسی بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ زبان اور ثقافت میں تفریق اور معاشی امتیاز بنگلہ دیش کی آزادی کی بڑی وجہ تھے لیکن ان کے نزدیک سب سے اہم وجہ مغربی پاکستان کی مکمل طور پر ملکی فیصلہ سازی پر تسلط کی پالیسی تھی۔

‘میرے خیال میں اسلام آباد سے مرکزی حکومت کی مکمل فیصلہ سازی اور ساتھ ساتھ مشرقی حصے میں پیدا ہونے والی کسی بھی مزاحمت کے خلاف جارحیت کا استعمال کر کے اسے دبانے کی کوشش سب سے اہم وجوہات تھیں۔ اگر جمہوری طرز عمل اپنایا جاتا اور وسائل کو مساوات سے بانٹا جاتا تو معاشی اور ثقافتی تفریق کو قابو میں کیا جا سکتا تھا۔’

زبان کا تنازع اور مشرقی پاکستانیوں کا استحصال، پاکستانی موقف کیا ہے؟

چند ماہ قبل وفات پا جانے والے سابق بیوروکریٹ اور کالم نویس صفدر محمود اپنی کتاب ‘پاکستان کیوں ٹوٹا’ میں لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں صوبائیت کے رجحانات منظر عام پر آنے لگے اور نتیجتاً ڈھاکہ میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک دشمنی پروان چڑھنے لگی جس کا فائدہ چند بائیں بازوں کے سیاستدانوں نے اٹھایا۔

صفدر محمود لکھتے ہیں کہ عوامی لیگ درحقیقت محض ایک صوبائی اور علاقائی مقاصد کا پریشر گروپ تھا جس نے کبھی بھی قومی سیاسی جماعت کا کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی۔

وہ فروری 1948 میں اسمبلی میں بنگلہ زبان کے استعمال کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی جانب سے اس قرارداد کو رد کرنے سے طالبعلموں اور دیگر تعلیم یافتہ طبقات کو لگا کہ ‘مرکزی حکومت جس پر اہل پنجاب کا غلبہ ہے، انھوں نے بنگالیوں سے ان کی مادری زبان چھین لی ہے حالانکہ گورنر جنرل اور وزیراعظم دونوں میں سے کوئی بھی پنجابی نہیں تھا’۔

دوسری جانب، بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہائی کمشنر کا کردار ادا کرنے والے افراسیاب مہدی ہاشمی اپنی کتاب ‘1971، فیکٹ اینڈ فکشن’ میں لکھتے ہیں کہ عمومی تاثر یہ ہے کہ مغربی پاکستانیوں نے اپنی زبان اردو مشرقی پاکستان پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کی لیکن یہ الزام سراسر غلط ہے۔

افراسیاب مہدی لکھتے ہیں کہ اردو برصغیر کے مسلمانوں کی نسل در نسل چلی آئی زبان ہے اور وہ ملک کے دونوں حصوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

انھوں نے موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو عربی زبان سے مماثلت رکھتی ہے جو کہ قرآن کی زبان ہے اور چناچہ ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے اردو زبان پاکستانی شناخت کے لیے بہتر ہے۔

انھوں نے اپنے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اگر بانی پاکستان محمد علی جناح بنگلہ کو قومی زبان دینے کے مطالبے کو تسلیم کر لیتے تو ممکن تھا کہ پاکستان مستقبل میں مزید مسائل کا شکار ہو جاتا اور دیگر علاقے بھی اپنی صوبائی زبانوں کا درجہ تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے۔

کیا پاکستان کا ٹوٹنا ناگزیر تھا؟

متعدد محققین اور ماہرین کے نزدیک مشرقی اور مغربی پاکستان کا ساتھ رہنا ممکن نہیں تھا اور وہ اس بارے میں دونوں خطوں کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلے کی جانب سے اشارہ کرتے ہیں، جس کے بیچ میں ایک ‘دشمن’ ملک موجود تھا۔

فساد

جبکہ کئی کا کہنا ہے کہ دونوں علاقوں میں سیاسی، معاشی اور سماجی تفریق اتنی زیادہ تھی کہ ان کا زیادہ عرصے تک ساتھ رہنا ممکن نہ ہوتا۔

ڈاکٹر طارق رحمان سے جب یہ سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ شروع سے ہی صوبائی اور وفاقی حیثیت ہونے کی وجہ سے طاقت کا محور مغربی پاکستان تھا۔ ‘وفاق پٹ سن کی فروخت سے ملنے والی رقم پر ٹیکس لیتا اور اسے استعمال کرتے ہوئے ملک کی دفاعی ضروریات پر پورا کرتا تھا۔’

ولیم وان شینڈل بھی اپنی کتاب میں اس بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1947 سے لے کر 1970 تک پاکستان کے کل اخراجات کا نصف سے زیادہ حصہ دفاع میں خرچ ہوا۔ انھوں نے مزید لکھا کہ پاکستان اپنا دو تہائی غیر ملکی زرمبادلہ پٹ سن کی فروخت سے حاصل کر رہا تھا لیکن وہ تقریباً تمام مغربی پاکستان میں لگ رہا تھا۔

ڈاکٹر طارق رحمان کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں کی بھی اکثریت مغربی پاکستان میں تھی اور لوگوں کا رویہ بھی مشرقی پاکستانیوں کے خلاف ’تضحیک آمیز‘ تھا۔

مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر انھیں 1970 کے انتخابات میں جیت کے بعد حکومت مل بھی جاتی تو بھی ملک یکجا نہ رہتا۔

‘شیخ مجیب نے بارہا اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ وہ دفاعی بجٹ میں کمی لائیں گے تاکہ مشرقی پاکستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں لیکن ملک کا سب سے طاقتور ادارہ، فوج ایسا کرنے کا متحمل نہ ہوتا کہ اپنے بجٹ میں کمی لائے۔ تو میرا نہیں خیال کہ دونوں حصے زیادہ عرصے ساتھ رہ پاتے۔’

البتہ پروفیسر میگھنا گوہاٹھاکرتا نے اسی سوال کے جواب میں کہا کہ کئی لوگ دونوں خطوں کے درمیان فاصلے کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جدا ہونا ناگزیر تھا لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔

‘یہ اس لیے نہیں ہوا کہ دونوں دور ہیں۔ بلکہ حکومت پاکستان اس بات کو تسلیم نہیں کر سکی کہ ان کے ملک کے دوسرے حصے میں رہنے والوں کی ثقافتی اور معاشی خواہشات کیا ہیں اور وہ بھی ایک ایسا حصہ جو ملک کی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔’

نقشہ

دوسری جانب انعم زکریا کہتی ہیں کہ پاکستان کو ایسا سمجھنا ہی نہیں چاہیے کہ علیحدگی ناگزیر تھی۔

‘اگر ہم یہ سوچ کر چلیں کہ یہ ہونا ناگزیر تھا، تو ہم اس کی وجوہات پر کبھی غور نہ کر سکیں۔ بہت سارے عوامل اور واقعات تھے جو ان 24 برسوں میں ہوئے اور حالات کو اس نہج تک لے گئے۔ یہ یاد رکھیں کہ مشرقی بنگال ہی وہ مقام تھا جہاں مسلم لیگ قائم ہوئی تھی اور وہاں پر پاکستان کے لیے بےانتہا حمایت تھی۔

’میری نظر میں یہ ناگزیر نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ وہ پالیسیاں تھیں جنھیں جان بوجھ کر نافذ کیا گیا جس کی مدد سے ملک کی آبادی کے بڑے حصے کو باقاعدہ طور پر دبایا گیا، صرف اس لیے کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے۔’

شیخ مجیب الرحمان کی مقبولیت، اگرتلہ سازش اور 1970 کے انتخابات

پاکستان کی تاریخ کو پڑھا جائے تو اکثر 60 کی دہائی کو پاکستان کی ترقی کی دہائی کہا جاتا ہے جب فیلڈ مارشل ایوب خان ملک کی بحیثیت صدر قیادت کر رہے تھے۔

تاہم ان کے دور میں مشرقی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مسلسل بگاڑ چلتا آ رہا تھا اور احساس محرومی بڑھتا جا رہا تھا۔

پروفیسر احسن بٹ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب 1965 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ ہوئی تھی تو اس وقت مشرقی پاکستان میں برائے نام دفاعی سہولیات تھیں جس میں محض ایک ڈویژن فوج اور 15 سیبر جنگی طیارے تھے جبکہ مغربی پاکستان سے مواصلات نہ ہونے کے برابر تھیں۔

انھوں نے مزید لکھا کہ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی ‘مشرق کا دفاع مغرب سے’ تھی اور جب انڈیا نے حملہ کیا تو مشرقی پاکستان کے شہریوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی حفاظت مغربی پاکستان کے لیے ترجیح نہیں رکھتی۔

اسی پس منظر میں جب عوامی لیگ کے شیخ مجیب نے اگلے سال لاہور میں چھ نکات پر مبنی اپنا ایجنڈا پیش کیا تو انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اسے ‘انڈین سازش’ قرار دیا گیا۔

شیخ مجیب کے چھ نکات
12 فروری 1966ء کو شائع ہونے والے شیخ مجیب الرحمٰن کا بیان جس سے پہلی بار معلوم ہوا کہ شیخ مجیب نے نیشنل کانفرنس میں جو تجاویز پیش کی تھیں، وہ چھ نکات پر مشتمل تھیں، اسی وجہ سے ان نکات کا نام چھ نکات پڑا۔ تصویر نوائے وقت فائل، نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد

چند ماہ قبل بی بی سی اردو پر فاروق عادل نے ایک مضمون میں ان نکات کے بارے میں لکھا کہ ‘شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ صوبائی خود مختاری اس لیے بھی ضروری ہے تا کہ صوبوں کی اقتصادی ترقی میں یکسانیت پیدا ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی پانچ کروڑ ہے، اس لیے ملک کے دفاع میں بھی اس کا حصہ آبادی کے تناسب سے ہونا چاہیے، اس طرح ملک کا اتحاد مضبوط ہو گا، کمزور نہیں۔’

لیکن ان کی دی گئی تجاویز کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا بلکہ 1968 میں شیخ مجیب الرحمان کے خلاف ‘اگرتلہ سازش’ کیس کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا اور ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ انڈین حکومت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو توڑنے کی سازش کر رہے ہیں۔

سابق سفیر افراسیاب مہدی نے مغربی پاکستان کی جانب سے مشرقی صوبے کے معاشی اور سماجی استحصال کرنے کے الزامات پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دو بنگالی رہنما، خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کو بہت کم دور حکومت ملا لیکن یہ بات لوگ بھول جاتے ہیں کہ 50 کی دہائی میں پاکستان کے دیگر غیر بنگالی رہنماؤں کو بھی زیادہ عرصے حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔

انھوں نے مزید لکھا کہ محمد علی جناح کی وفات کے بعد پاکستان نے سیاسی عدم استحکام کا سامنا کیا جس کے نتیجے میں حالات نے ایسی شکل اختیار کی۔

اگر حکومت پاکستان کا خیال تھا کہ اگرتلہ سازش کیس کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا، تو یہ اس کی بھول تھی۔ نہ صرف ان کے حق میں مشرقی پاکستان میں بھرپور آواز بلند ہوئی بلکہ وہ اس خطے کے سب سے اہم اور سب سے مقبول لیڈر بن کر ابھرے اور انھیں ‘بنگہ بندھو’ یعنی ‘بنگال کے دوست‘ کا خطاب ملا۔

پاکستان کے نئے آمر، جنرل یحییٰ خان کی حکومت میں 1970 کے انتخابات منعقد ہوئے تو ان کی پارٹی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 162 میں سے 160 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کر لی لیکن اسے حکومت بنانے کا موقع نہیں مل سکا۔

انتخابات میں واضح جیت کے باوجود حکومت نہ ملنے کے بارے میں سفیر افراسیاب مہدی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ سمجھنا کہ اسلام آباد کو شیخ مجیب الرحمان کے انڈیا سے گٹھ جوڑ کا علم نہیں تھا، ایک بچکانہ بات ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں آج بھی یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ انڈین خفیہ ایجنسی نے شیخ مجیب کو نہ صرف 1970 کے عام انتخابات کے لیے مالی امداد فراہم بلکہ جب جب انھیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے رقم کی ضرورت ہوئی انھیں وہ فراہم کی گئی۔

تاہم پروفیسر احسن بٹ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ان نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا اور ‘فوج اور ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب کو ان کا حق نہیں دیا۔’

تو کیا یہ وہ موڑ تھا جب یہ یقینی ہو گیا تھا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہو جائیں گے، اس سوال پر پروفیسر احسن بٹ کہتے ہیں کہ وہ یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ کسی ایک واقعہ کو ‘فیصلہ کن موڑ’ کہا جائے لیکن 1970 کے انتخابات کے بعد ہونے والے واقعات نے پاکستان کے ٹوٹنے کی راہ ضرور ہموار کر دی تھی۔

شیخ مجیب کے چھ نکات

ڈاکٹر طارق رحمان سے جب یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے مارچ 1971 کے واقعات کی جانب اشارہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ انتخابات کے نتائج کے بعد تینوں مرکزی کرداروں، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمان اور صدر یحییٰ خان نے متعدد ملاقاتیں کیں اور بالآخر صدر یحییٰ خان نے تین مارچ کو ڈھاکہ میں نومنتخب اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تاریخ دی۔

‘لیکن انھوں نے بعد میں نئی تاریخ (25 مارچ) دے دی اور پھر جب فوج نے 25 مارچ کو فوجی آپریشن (آپریشن سرچ لائٹ) شروع کر دیا تو بس پھر حالات ہاتھ سے نکل گئے اور پھر واپسی کی کوئی صورت نہ بچی۔’

ڈاکٹر طارق رحمان کہتے ہیں کہ اپریل تک مشرقی پاکستان میں حالات انتہائی مخدوش ہو چکے تھے اور عوام نے مکتی باہنی میں شمولیت شروع کر دی تھی جبکہ دوسری جانب انڈیا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی ‘آزادی کی جد و جہد’ میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

البتہ پروفیسر میگھنا گوہاٹھاکرتا نے بھی اسی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ صدر یحییٰ خان کی جانب سے وہ پارلیمانی اجلاس ملتوی کرنا جس میں شیخ مجیب الرحمان اور عوامی لیگ کو حکومت ملنی تھی، وہ تھا فیصلہ کن مرحلہ جس کے بعد حالات ہاتھ سے نکل گئے۔

‘نسل کشی’ اور ‘جنگی جرائم’ کے الزامات اور مستقبل کا سوال

حکومت پاکستان کی جانب سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں تحقیق کے لیے قائم کیے گئے ‘حمود الرحمان کمیشن’ کی رپورٹ میں پاکستانی افواج کی جانب سے کی گئی مبینہ ‘بربریت’ کے باب میں لکھا گیا ہے کہ ‘یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں نے مارچ کے مہینے میں کس قدر ظلم اور بربریت برپا کی تھی۔’

رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر اندازاً ’ایک لاکھ سے پانچ لاکھ بہاری، مغربی پاکستانی اور محب وطن بنگالی‘ افراد کو ہلاک کیا گیا۔

رپورٹ میں لکھا گیا کہ ‘یہ بتانے کا مقصد اس لیے نہیں ہے کہ اگر مبینہ طور پر پاکستانی فوج نے کوئی جرائم اور بربریت کی ہے تو اس کا کوئی جواز بنتا ہے لیکن بتانے کا مقصد یہ ضرور ہے کہ عوامی لیگ کے غنڈوں کی جانب سے کیے گئے جرائم سے پاکستانی افواج میں غم و غصہ ضرور بڑھا ہوگا، اور ممکن ہے کہ ان فوجیوں نے مرکزی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے پرتشدد رد عمل دیا۔’

دوسری جانب، بنگلہ دیش کے سرکاری موقف کے مطابق مبینہ طور پر تیس لاکھ لوگوں کو پاکستانی افواج نے ہلاک کیا۔ جہاں عالمی مبصرین اور کئی محققین کے مطابق پاکستانی افواج ‘نسل کشی’ اور ’خواتین کے خلاف جنسی جرائم‘ کی مرتکب ہوئی ہے، وہیں حکومت پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ بنگلہ دیش نے ہلاک ہونے والی کی تعداد میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے اور اُن کی تعداد 26 ہزار کے قریب ہے۔

لیکن کیا اعداد و شمار کی یہ بحث دونوں ملکوں کو آگے بڑھنے سے اور تعلقات بہتر ہونے سے روک تو نہیں رہی؟

اس بارے میں انعم زکریا نے بڑا واضح موقف دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہے اور بنگلہ دیش سے تعلقات بہتر کرنے لیے پاکستان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے ‘جرائم’ کا اعتراف کرے۔

’معافی کی تو بار بار بات کی جاتی ہے لیکن معافی کا اصل مقصد غلطیوں کا اعتراف کرنا ہے کہ کیا ہوا ہے، اور پاکستان تو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ کیا ہوا ہے، اور یہی ہماری خامی ہے اور کمی ہے۔ یہ زخم ابھی بھرے نہیں ہیں۔‘

انعم نے کہا ’ہمارا پورا ریاستی بیانیہ، ہماری نصابی کتب، ہمیں حساب دینا ہوگا، ہمیں تاریخ کو ویسے ہی بتانا ہوگا جیسا ہوا ہے اور جب ہم یہ تسلیم کریں گے اور اپنے غلطیوں پر غور کریں گے، تو صرف تب آگے بڑھنا ممکن ہوگا۔‘

پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات ہو سکیں اور جنوبی افریقہ کی طرز پر حقائق اور مفاہمت پر مبنی کمیشن بنے تو کچھ ہو سکتا ہے۔

جھنڈا

‘لیکن ایسا ہونے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش سے صدق دل سے معافی مانگے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ مارچ 1971 میں جو بہاری افراد بنگلہ دیش میں ہلاک ہوئے ہیں، بنگلہ دیش کو بھی ان افراد اور ان کے خاندان سے معافی مانگنی ہوگی۔ لیکن سب سے پہلے پاکستان کو معافی مانگنی ہوگی، زیادہ عاجزی دکھانی ہوگی۔’

انھوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بالکل ممکن ہے کہ تعلقات میں بہتری ہو۔

البتہ پروفیسر احسن بٹ اس بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک حقائق پر مبنی گفتگو نہیں ہوگی اور شفافیت نہ ہو، آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

‘ہم نے اپنی نصابی کتب کو افسانوں سے بھر دیا ہے اور اگر ہم مسلسل ان واقعات کی تردید کریں گے تو کیا ہوگا؟’

وہ کہتے ہیں کہ فی الوقت تو ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری ہونا نظر نہیں آتا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنا اہم ہے کہ ان کے تعلقات میں سردمہری صرف تاریخ کی وجہ سے نہیں بلکہ موجود سیاسی حالات اور دونوں ممالک کی موجودہ قیادت کی وجہ سے بھی ہے۔’

‘پاکستان کے لیے سب سے اہم یہ بات ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو انڈیا کے تناظر سے نہ دیکھے بلکہ بحیثیت ایک خود مختار ملک دیکھے اور موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات سے نپٹے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *