بنگلہ دیش پاکستان اور انڈیا کے لیے

بنگلہ دیش پاکستان اور انڈیا کے لیے

بنگلہ دیش پاکستان اور انڈیا کے لیے ’ماڈل معیشت‘ نے آئی ایم ایف سے مدد کیوں مانگی؟

نگلہ دیش نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے ساڑھے چار ارب امریکی ڈالر کے قرض کی درخواست کی ہے۔

’چینل نیوز ایشیا‘ پر شائع خبر کے مطابق بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ مصطفیٰ کمال نے بنگالی زبان کے اخبار ’پروتھم الو‘ کو بتایا کہ انھوں نے آئی ایم ایف سے قرض کے سلسلے میں بات چیت شروع کی ہے لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملکی معیشت ’کسی بھی طرح سے مشکل کا شکار نہیں۔‘

بنگلہ دیش کے اخبار ’دی ڈیلی سٹار‘ کے مطابق بنگلہ دیش کو یہ قرض بجٹ کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ادائیگی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے چاہیے۔

واضح رہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران انڈیا اور پاکستان میں بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں اور اسے ترقی پذیر ممالک میں ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جا تا رہا ہے۔

کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران بھی جب دنیا بھر میں معاشی ترقی تنزلی کا شکار نظر آئی تو اس دوران بھی بنگلہ دیش نے اپنی ترقی کی مثبت شرح برقرار رکھی تھی لیکن اچانک اسے آئی ایم ایف کے قرض کی ضرورت پڑ جائے گی یہ کسی کے گمان میں نہیں تھا۔

ڈالر

بنگلہ دیش کے معروف اخبار ’دی ڈیلی سٹار‘ نے لکھا ہے کہ وزیر خزانہ اے ایچ ایم مصطفی کمال نے اتوار کو آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کو قرض کے حصول کے لیے خط لکھا۔

اخبار کے مطابق وزارت خزانہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہیں کیے جانے کی شرط پر بتایا کہ اس معاملے پر واقعتاً ’بات چیت ہو رہی ہے‘ لیکن انھوں نے تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ملک کی 416 ارب ڈالر کی معیشت برسوں سے دنیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک رہی ہے لیکن روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے اس کے درآمدی بل اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو بڑھا دیا ہے۔

بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے مدد کیوں مانگی؟

آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے حوالے سے ملک میں مختلف بحثیں جاری ہیں تاہم وزیر منصوبہ بندی ایم اے منان کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ پر عمل درآمد کے لیے آئی ایم ایف سے قرض کی کچھ امداد مانگی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔

اس مالی امداد کے حصول کے لیے بحث کرتے ہوئے ایم اے منان نے کہا کہ یہ پہلی بار نہیں جب ہم نے آئی ایم ایف سے کہا ہے، ہم نے 90 کی دہائی میں بھی قرضوں کے ساتھ ملک کے معاشی ڈھانچے میں اصلاحات کیں، جب دوسری حکومت برسر اقتدار تھی۔

وزیر منصوبہ بندی نے یہ بھی کہا کہ ’ہم آئی ایم ایف کے ممبر ہیں۔ یہ ہمارا حق ہے۔ مجھے اس میں ڈرنے کی کوئی بات نظر نہیں آتی۔‘

ایم اے منان، وزیر منصوبہ بندی
ایم اے منان، وزیر منصوبہ بندی، بنگلہ دیش

انھوں نے کہا کہ ’ایک طرف مالی امداد پر بین الاقوامی اداروں سے بات چیت اور دوسری طرف اخراجات میں کمی کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر سے حکومت یہ چاہتی ہے کہ حالات مزید خراب نہ ہوں۔‘

دارالحکومت ڈھاکہ میں بی بی سی بنگالی سروس کے نمائندے قادر کلول کا کہنا ہے کہ بہت سے ماہر معاشیات کا خيال ہے کہ بنگلہ دیش میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی ہے اور یہ خطرناک سطح تک پہنچ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ 40 ارب ڈالر کے نیچے چلا گیا ہے جو کہ اتنا کم ہے کہ اس سے تین ماہ سے زیادہ کی درآمدات کے اخراجات پورے نہیں کیے جا سکتے تاہم حکومت کے نزدیک حالات تشویشناک نہیں۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ بنگلہ دیش بھی معاشی بحران کا شکار ممالک کی فہرست میں آ گیا ہے۔

بہرحال ملکی خزانے کے ذخائر پر بوجھ کم کرنے کے لیے بہت سی کٹوتیاں کی جا رہی ہیں جن میں بجلی کی کٹوتی بھی شامل ہے تاکہ ایندھن کی درآمد کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔

بنگلہ دیش کی آبادی 16 کروڑ ہے اور یہ دنیا کی 41ویں بڑی معیشت ہے۔ بنگلہ دیش نے تیل کے درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے اپنا ڈیزل سے چلنے والا پاور پلانٹ بند کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کے مرکزی بینک نے بھی ڈالر کم ہونے کی وجہ سے پُرتعیش اشیا کی درآمد کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گذشتہ دو برسوں میں پہلی بار غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 40 ارب ڈالر کے نیچے گئے ہیں۔

تونائی
اگرچہ بنگلہ دیش میں توانائی کی قوت پیداوار میں اضافہ ہوا ہے لیکن ایندھن کی کمی کے سبب اس کی پیداوار میں کٹوتی کی جا رہی ہے

تجزیہ کار اسے کوئی عارضی مسئلہ نہیں سمجھتے

ڈیلی سٹار کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ نے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی تبدیلیوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ادائیگیوں کے توازن کے لیے مدد مانگی ہے لیکن ماہر اقتصادیات ڈاکٹر دیباپریہ بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کو عارضی مسئلے کے طور پر دیکھنا درست نہیں۔

’یہ کوئی عارضی مسئلہ نہیں۔ یہ معیشت کے ڈھانچے کا مسئلہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی عارضی مسئلہ ہوتا ہے تو ہم اس پر قابو پانے کے لیے مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے اقدام کرتے ہیں اور اچھے وقت کے دوبارہ آنے کا انتظار کرتے ہیں لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایک بڑا تجارتی خسارہ ہے۔ اس کے علاوہ ترسیلات زر میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر بھٹاچاریہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب یہ صرف بین الاقوامی منڈی یا یوکرین کی جنگ سے متعلق نہیں۔

’یہ بنگلہ دیش کی معیشت کا اندرونی ساخت کا مسئلہ ہے اور اس کی وجہ سے مختلف بڑے منصوبوں کے قرضوں کی ادائیگی کا مسئلہ بھی آئے گا۔‘

ترقی پذیر آٹھ ممالک کا اجلاس

دریں اثنا آٹھ ترقی پذیر ممالک کے تاجروں اور حکام نے منگل کو بنگلہ دیش میں ملاقات کی۔ اس اجلاس میں کہا گیا کہ انھیں زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر، توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران اور سپلائی چین میں خلل کے باعث مزید مدد کی ضرورت ہے۔

ڈی-8 کے بینر تلے مصر، ایران، ملائیشیا، نائیجیریا، پاکستان، ترکی اور بنگلہ دیش کے مندوبین نے منگل کو متبادل مالیاتی تجارت پر بات کی۔ اس میں زرمبادلہ کے ذخائر کے دباؤ سے نجات کے لیے ایک دوسرے کی کرنسی میں لین دین پر بھی غور کیا گیا۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے کہا کہ ڈی-ایٹ ممالک کی معیشت پانچ کھرب ڈالر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈی-8 ممالک آزاد تجارتی معاہدے اور باہمی تجارت کو بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں شامل رکن ممالک توانائی کے حوالے سے دنیا کے دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک کے ساتھ ساتھ ایران اور نائیجیریا سے بھی بات چیت کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش

ڈالر کی کمی

ڈی-8 چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ فضل فہیم نے کہا کہ ’کووڈ کی وبا اور دیگر اہم عالمی اقتصادی حالات کی وجہ سے، تمام رکن ممالک کو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور کرنسی کی کمزوری کے مسئلے کا سامنا ہے۔ سپلائی چین منقطع ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے اور توانائی کے ساتھ فوڈ سکیورٹی بھی خطرے میں ہے۔ ہمیں اس حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

رواں ماہ کے شروع میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو چار ارب ڈالر قرض دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس کے علاوہ تنزانیہ کو 1.05 ارب ڈالر، گھانا کو 1.5 ارب ڈالر قرض دینے پر اتفاق کیا گیا۔

بنگلہ دیش کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، گذشتہ سال جولائی اور رواں سال مئی کے درمیان درآمدات 81.5 ارب ڈالر رہی، جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 39 فیصد زیادہ ہے۔

اس کے نتیجے میں بنگلہ دیشی اشیا کو دوسرے ممالک میں فروخت کرنے سے حاصل ہونے والی رقم اور بنگلہ دیش کی طرف سے دوسرے ممالک سے خریدی گئی اشیا پر خرچ ہونے والی رقم میں فرق بڑھ گیا ہے۔ اسے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کہتے ہیں۔ مالی سال 2021-22 کے پہلے 11 مہینوں میں بنگلہ دیش کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھ گنا سے زیادہ بڑھ کر 17.2 بلین ڈالر ہو گیا ہے۔

بیرون ملک کام کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کی آمدن میں کمی اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے یہاں کے زرمبادلہ کے ذخائر خالی ہو رہے ہیں۔

گذشتہ سال اسی وقت بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 45 ارب ڈالر تھے جو اب 20 جولائی تک بڑھ کر 39 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ ڈیلی سٹار کے مطابق یہ 5.4 ماہ کے درآمدی بل سے زیادہ نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *